پی ٹی آئی جو اپنے آپ کو بہت مقبول سیاسی جماعت سمجھتی
تھی 9مئی کے واقعات نے ان کی ساری محنت کو ایک پنڈلی میں باندھ کر آگ لگا
دی گئی ہے یعنی اس جماعت کے بعض نا سمجھ کارکنوں کی پر تشدد ھرکات نے پوری
پارٹی کا ملیا میٹ کر دالا ہے ھالات اس طرف کا رخ اختیار کر چکے ہیں کہ
جیسے مستقبل میں اس پارٹی کا نام لیوا کوئی نہ رہے گے پارٹی کو خیر باد
کہنے والوں کی سپیڈ دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی ماضی کا ایک قصہ بن
جائے گی اس واقعہ کے بعد جہاں بڑے بڑے رہنما اپنی جماعت سے علحدگی اختیار
کر چکے ہیں وہاں پر کلرسیداں میں ابھی تک کوئی بھی رہنما ،کارکن آگے پیچھے
نہیں ہوا ہے گو کہ سبھی رہنما ھالات و واقعات کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے ایک
سائیڈ پر ہو گئے ہیں اور یہ ہونا بھی چاہیئے تھا ھالات کی سختی کے سامنے ڈٹ
کر کھڑا ہو جانا بھی بے قوفی کی ایک بڑی قسم ہے کلرسیداں میں پی ٹی آئی بڑے
بڑے سمجھ دار رہنماؤں پر مشتعمل تھی لیکن پورے ملک میں رونما ہونے والے پر
تشدد واقعات نے پورے ملک کی طرح کلرسیداں میں بھی پی ٹی آئی کو بہت پیچھے
دھکیل دیا ہے تمام رہنماؤں اور کارکنوں نے مکمل خاموشی اختیار کر لی ہے پی
ٹی آئی کی تمام لیڈر شپ بشمول ٹکٹ ہولڈرز منظر عام سے غائب ہیں پی ٹی آئی
کلرسیداں کچھ دھڑوں میں بھی تقسیم تھی لیکن اس وقت تمام دھڑے غائب ہو چکے
ہیں لیکن ایک خاص بات کہ کلرسیداں کے پی ٹی آئی کے عام رہنما جن کی پارٹی
میں کوئی خاص مقام نہیں تھا وہ اب بھی اپنی پارٹی کا دفاع کرتے دکھائی دے
رہے ہیں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ رہنما کلرسیداں کی سطح پر کافی
متحرک دکھائی دے رہے ہیں جن سر فہرست حلقہ پی پی 7سے امیدوار برائے صوبائی
اسمبلی چوھدری ظہر سلطان اپنے حلقے پر بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور وہ
پہلے کی نسبت زیادہ تگ و دو کرتے دکھائی دے رہے ہیں اس حلقہ میں اگر سابق
وزیر عظم راجہ پرویز اشرف نے اپنی کاوشیں اسی طرح جاری رکھیں تو پی پی پی
مضبوط ترین قوت بن کر سامنے آ سکتی ہے کیوں کہ اس حلقہ میں ن لیگ کے
امیدوار سے بھی عوام عاجز آ چکے ہیں پی ٹی آئی پہلے ہی زوال پزیر ہو چکی ہے
اب عوام کے سامنے صرف ایک ہی آپشن باقی بچتا ہے وہ ہے پی پی پی کلرسیداں کی
سطح پر پی پی پی میں کوئی بھی اہم سیاسی شخصیت آنے کو تیار نہ تھی لیکن اب
حالات بدل چکے ہیں نئے لوگ بھی شامل ہوں گے دوسرا کلرسیداں میں پی ٹی آئی
کو کلرسیداں میں زوال کا شکار کروانے میں سابق ایم این اے صداقت علی عباسی
کی بڑی کاوشیں شامل ہیں جنہوں نے کرنل شبیر کو پارٹی ٹکٹ جاری کروانے کے
بعد واپس کروانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے جس طرح یہ بات زبان زد و عام
ہے کہ آئندہ حکومت فضا پاکستان پیپلز پارٹی کا رخ اختیار کرتی جا رہی ہے
اسی لیئے شاید عام عوام اور سیاسی شخصیات کا جھکاؤ بھی ادھر ہی ہو رہا ہے
جس کی واضح مثال راجہ پرویز اشرف اور چوھدری ظہیر سلطان کی کلرسیداں میں
گہری دلچسپی ہے مسلم لیگ ن کی حکومت تو مرکز میں ہے لیکن وہ دلچسپی پنجاب
میں لے رہی ہے اور پنجاب کی سرکاری انتظامیہ بھی مرکزی حکومت کے ساتھ مکمل
تعاون کر رہی ہے جس سے یہ بات بھی بلکل واضح ہے کہ ن لیگ آئندہ بھی صرف
پنجاب تک محدود رہنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جس وجہ سے پنجاب میں پیپلز
پارٹی کو مشکلات کا سامنا ہے اگر سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ ہو سکی تو اگلے جنرل
الیکشن میں اصل مقابلہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہی ہو گا پی ٹی آئی
کا سیاسی مستقبل بند گلی میں جا چکا ہے لیکن ووٹرز کا مرکز اب بھی پی ٹی
آئی ہی ہے پیپلز پارٹی کا بھی کلرسیداں میں ووٹ بینک موجود ہے جو اب مزید
بڑھ بھی رہا ہے جس کو اگلے الیکشن تک برقرار رکھنے کیلیئے مقامی لیڈر شپ کو
مزید محنت کرنا ہو گی بۃر حال کلرسیداں کی سیاسی فضا کا رخ یکدم تبدیل نہیں
ہوتا ہے یہاں کے عوام حالات و واقعات کو دیکھ کر مستقبل کے سیاسی فیصلے
کرتے ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ ن لیگ نے بھی اب ہاتھ پیر مارنا شروع کر
دیئے ہیں ن لیگ کی طرف سے حال ہی میں ایم سی کلرسیداں میں نئی تنظیم سازی
کا عمل مکمل کیا ہے پی ٹی آئی کی مقامی قیادت اب بھی اپنی پارٹی سے نالاں
نہیں ہے اگر موقع ملا تو وہ بھی حلقے میں اپنی کارکردگی دکھائیں گئے جس کا
فی الحال کوئی چانس نظر نہیں آ رہا ہے
|