اڈیشہ کے بالاسور ضلع میں بہانگا بازار اسٹیشن کے قریب
ہونے والے حادثے میں کورومنڈیل ایکسپریس اور ایس ایم وی ٹی-ہاوڑہ سپر فاسٹ
ایکسپریس کے 17 ڈبے پٹری سے اتر گئے تھے۔ آگے چل کر معلوم ہوا کہ ایک مال
گاڑی اور ایکسپریس ٹرین کے تصادم کی وجہ سے واقعہ پیش آیا یعنی اس میں تین
ٹرینیں ملوث تھیں ۔ تین ٹرینوں کے اس تصادم کو مختلف انداز میں سمجھا رہے
ہیں۔ اطلاعات کے مطابق جائے واردات پر ایک مال گاڑی آؤٹر لائن پر کھڑی تھی۔
اس دوران ہاوڑہ سے چنئی جانے والی کورومنڈیل ایکسپریس بہانگا بازار سے 300
میٹر پہلے پٹری سے اتری تو اس کا انجن مال گاڑی پر چڑھ گیا اور اس کی کئی
بوگیاں تیسرے ٹریک پر گر گئیں۔اسی دوران ہاوڑہ-بنگلور ایکسپریس اس تیسرے
ٹریک پر تیز رفتاری سے پہنچ کر کورومنڈیل ایکسپریس کے ڈبوں سے ٹکرا گئی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی والے ہمیشہ ڈبل انجن سرکار کی بات کرتے ہیں لیکن یہاں
تو ٹرپل انجن بلکہ ٹربل (مصیبت) انجن سرکار کا معاملہ ہوگیا۔ فی الحال منی
پور اور اترپردیش وغیر میں جہاں بلدیات ، ریاستی اور مرکزی حکومت یعنی سب
جگہ بی جے پی کی ہے۔ وہاں کےلوگوں پر اس طرح کی مصیبت آئے دن مسلط ہوتی
رہتی ہے اور یہ ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔
وزیر ریلوے اشونی کمار ویشنو نے بہاناگا ریلوے اسٹیشن پہنچ کر زخمی مسافروں
کے بچاؤ اور علاج پرتوجہ مرکوز کردی ۔ اس دوران کسی نے مودی جی سے کہا ہوگا
کہ ساری دنیا حادثے کی جانب متوجہ ہے۔ تمام ٹیلی ویژن کیمرے اس کی تفصیلات
نشر کررہے ہیں لیکن وہ منظر سے غائب ہیں ۔ میڈیا کے پاس ان کے بے جان ٹویٹ
کے سواکچھ نہیں ہے۔ نہ جانےکیوں ابتداء میں مودی جی وہاں جانا نہیں چاہتے
یا حفاظتی تیاریاں مکمل نہیں ہوئی تھی لیکن کم ازکم ٹیلی ویژن پر خطاب تو
کر ہی سکتے تھے ۔ میڈیا کی رعایت کے لیے حادثے کے17؍ گھنٹے بعد وزیر اعظم
نریندر مودی کی صدارت میں اعلی سطحی اجلاس کا انعقادکیا گیا تاکہ وہ حالات
کا جائزہ لے سکیں ۔ اس طرح گودی میڈیا کو ایک کام مل گیا اور اس نے وزیر
نریندر مودی کی تصاویر نشر کرنا شروع کردی لیکن کوئی یہ نہیں بتا پارہاتھا
اس نشست میں کیا فیصلے کیے گئے۔ اس میٹنگ سے بات نہیں بنی تو حادثےکے 21؍
گھنٹے بعد مودی جی نے جائے واردات کادورہ بھی کرڈالا ۔ اس طرح کم ازکم گودی
میڈیا کو ناظرین کا دل بہلانےکے لیے کچھ ویڈیو کلپس مل گئیں۔
مرکزی وزیر ریل اشونی ویشنو نے دورے کے بعد اس حادثہ پر حیرانی اور فکر کا
اظہار کرتے ہوئے اعلیٰ سطحی جانچ کےا حکامات کا اعادہ کیا ۔ سرکاری رپورٹوں
کی تیاری میں عام طور پر بہت تاخیر ہوتی ہے۔ اس دوران کچھ ماہرین نے اپنے
تجربات کی بنیاد پر حادثے کے پیچھے کار فرما وجوہات پر اظہارخیال کیااور 5
ممکنہ اسباب کی نشاندہی کی ۔ سب سے پہلی وجہ درجہ حرارت بتائی گئی۔ ان کے
مطابق درجہ حرارت 40 ڈگری کے پار چلے جا نے پر ریل کی پٹریاں زیادہ خطرناک
ہو جاتی ہیں لیکن یہ تو عام سی بات ہے۔ اس کے سبب حادثات ہونے لگین تو موسمِ
گرما میں کوئی دن حادثے کے بغیر نہ گزرے۔ ویسے ریلوے کی تفتیشی رپورٹیں بھی
اس کو اہم ترین سبب نہیں بتاتیں ۔ ماہرین کے نزدیک دوسری وجہ ٹیکنالوجی کی
ناکامی ہو سکتی ہے۔ ریلوے کے سفر کو محفوظ بنانے کے لیے 2012 میں ’کوچ‘ (ڈھال)
نامی تکنیک کے استعمال کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ دراصل پٹری میں استعمال کیا
جانے والا ایک خود کارا ٓلہ ہے، جو ایک ٹرین کو دوسری سے طے شدہ دوری پر
رکنے میں مدد کرتا ہے۔اس کی مدد سے اگر کوئی ٹرین یکساں پٹری پر آجائے تو
ازخود بریکنگ سسٹم نافذ ہو جاتا ہے اور ٹرین رک جاتی ہے۔وزیر ریلوے نے
انکشاف کیا کہ ہنوز اڈیشہ کے بالاسور میں ایسا نہیں ہو سکا ورنہ یہ حادثہ
ٹل سکتا تھا۔
ماہرین کا دعویٰ ہے کہ حادثے کی تیسری ممکنہ وجہ بروقت سگنل دینے میں
ناکامی ہوسکتی ہے۔ نیشنل ریل ٹریک میں سگنلنگ کے اندر انسانی عمل دخل نہیں
ہوتا بلکہ یہ خود بخود چلتا ہےلیکن سگنل آپریشن میں نقص یا سافٹ ویئر کی
خرابی کے سببیہ نظام فیل ہو سکتاہےیعنی دو ریل گاڑیا ں ایک ہی لائن پر
آسکتی ہیں۔ ایس صورتحال میں ٹرین کے اندر موجود ڈرائیور دوسری ٹرین کو
دیکھ کر ایمرجنسی بریک لگاسکتا ہے، لیکن رفتار اگر بہت زیادہ ہوتو وہ ممکن
نہیں ہوتا۔ ریل گاڑیوں کو دوران سفر پٹری بدلنی پڑتی ہے۔ فش پلیٹ دو پٹریوں
کو جوڑتی ہے مگر یہ کھلی رہ جائے یا اس کا پینچ ڈھیلا ہوتو یہ حادثہ کی وجہ
بن جاتی ہے۔حادثے کا ایک ممکنہ سبب دہشت گردی بھی ہو سکتاہے۔ میڈیا کی
مہربانی سے اس لفظ کے آتے ہی مسلمانوں کا خیال لوگوں کے ذہن میں آجاتا ہے
مگر وہ سرخ راہداری کو بھول جاتے ہیں۔ دراصل اڈیشہ، مغربی بنگال، چھتیس گڑھ،
آندھرا پردیش اب بھی ماؤنوازوں متاثر ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی ٹریک کی فش
پلیٹ کھول دے تو حادثہ ہوسکتا ہے ۔اس کی مثال گنیشوری ٹرین حادثہ ہے جس میں
تقریباً 100 لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔
جرائم کا ریکارڈ رکھنے والا قومی کمیشن (این سی آر بی) ریلوے حادثات کے
اعدادو شمار بھی شائع کرتا ہے۔ اس کے مطابق 2021 میں پچھلے سال کے مقابلہ
38.2 فیصد کا اضافہ ہو جو غیر معمولی ہے۔ اُس سال جملہ 17,993 حادثات میں
سے سب سے زیادہ 3,488 وارداتیں مہاراشٹرمیں ہوئیں جو 19.4 فیصد بنتا ہے۔
مہاراشٹر کے بعد دوسرا نمبر مغربی بنگال کا ہے۔ کل ہند سطح پر ان حادثات
میں ایک سال کے اندر 1,852 لوگ زخمی ہوئے مگر مرنے والوں کی تعداد16,431
تھی۔اکتوبر 2021 کے مہینے میں 1,729 لوگ جان بحق ہوئے۔ ریلوے کے محکمہ میں
تحفظ کا شعبہ گینگ مین ، گارڈس، لیور مین، کیبن مین اور ڈرائیور پر انحصار
کرتا ہے۔ اس عملہ کی تعداد میں کمی کا شکوہ ہمیشہ ہوتا ہے مگر اسے نظر
انداز کردیا جاتا ہے۔ سوراجیہ جریدے کی ایک رپورٹ کے مطابق اس شعبے میں
2,500؍ اسامیاں خالی تھیں ۔کم افراد کی مدد سے زیادہ ریل گاڑیاں اگر تیز تر
رفتار سے چلائی جائیں تو تھکے ماندے عملہ سے بھول چوک کا امکان بڑھ جاتا
ہے۔ وطن عزیز میں محنت کشوں کی کمی تو ہے نہیں کہ باہر سے لانا پڑا ۔ یہاں
تو بیروزگاری کا سنگین مسئلہ ہے اس لیے اگر سرکار توجہ دے تو حادثات کو
ٹالا جاسکتا ہے۔
ریل گاڑیوں کے اس اندوہناک حادثے پرابتداء میں اکثر جماعتوں نے سیاست سے
پرہیز کیا مگر ترنمول کانگریس کے قومی جنرل سکریٹری ابھیشیک بنرجی اپنے غم
وغصے پر قابو نہیں رکھ سکے۔ انہوں نے نریندر مرکزی حکومت پر تنقید کرتے ہوے
کہا کہ مودی سرکار وندے بھارت ٹرینوں اور نو تعمیر شدہ ریلوے اسٹیشنوں کو
اپنی حصولیابی قرار دےکر عوام کو گمراہ کرتی ہے۔ وہ سیاسی حمایت حاصل کرنے
کے لیے پروجیکٹوں کے افتتاح میں جلد بازی کرتی ہے۔ ایک طرف حکومت حزب
اختلاف ، سپریم کورٹ کے ججوں، صحافیوں کی جاسوسی کرنے کے لیے پیگاسس جیسے
سافٹ ویئر کا سہارا لیتی ہے، لیکن دوسری طرف ناخوشگوار واقعات کو روکنے کے
لیے جی پی ایس اور اینٹی کولیشن ڈیوائسز کے نفاذ کو نظر انداز کرتی ہے۔ ان
کے مطابق تکلیف دہ امر یہ ہے کہ غریب لوگوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا
ہے، چاہے وہ نوٹ بندی ہو، جی ایس ٹی، جلد بازی میں لاک ڈاؤن، زراعت کے سخت
قوانین ہوں یا ناکافی ریلوے کے حفاظتی اقدامات۔ ا بھیشیک کا الزام ہے کہ اس
دل دہلا دینے والے ٹرین حادثے میں جانی نقصان کے لیے بڑی حد تک وزیر اعظم
ذمہ دار ہیں ۔
کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے حادثے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت
اڈیشہ کے بالاسور میں ٹرین حادثے کی ذمہ داری سے نہیں بھاگ سکتی، اس لیے
ریلوے کے وزیر اشونی ویشنو کا استعفیٰ فوری طور پر لیا جانا چاہیے۔ راہل
گاندھی نے کہا کہ 270 سے زائد اموات کے بعد بھی کوئی جوابدہی نہیں ہے۔
وزیراعظم کو فوری طور پر وزیر ریلوے کا استعفیٰ طلب کرنا چاہیے۔اس دوران
کانگریس کے جنرل سکریٹری تنظیم کے سی وینوگوپال نے بھی ایک بیان جاری کرتے
ہوئے بالاسور میں ٹرین حادثہ کو مرکزی حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے ہونے
والی کوتاہی قرار دیتے ہوئے وزیر ریلوے کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے
کہا کہ بالاسور ٹرین حادثہ مرکزی حکومت کی مکمل نااہلی اور غلط پالیسیوں کا
نتیجہ ہے ۔ حادثہ مودی حکومت کی ناکامی ہے اور اس کی ذمہ داری لیتے ہوئے
وزیر ریلوے کا استعفیٰ ضروری ہے۔وزیرریلوے کی توجہ صرف بڑی بڑی تقریبات
منعقد کرکے وزیراعظم کی تشہیر پر مرکوز ہے۔ وزیراعظم کو اس المناک حادثہ کا
پورے ملک کو جواب دینا چاہیے۔لیکن مودی جی نے اپنا پلہ جھاڑتے ہواڑیشہ کا
دورہ کرنے کے بعد اعلان کیا کہ تفتیش ہورہی اس کے بعد قصوروار کو بخشا نہیں
جائے گا۔ وزیر اعظم کے بلند بانگ دعووں سے قطع نظر جو لوگ ایک برج بھوشن
شرن سنگھ کو گرفتار کرنے کی ہمت اپنے نہیں رکھتے وہ بھلا کسی اعلیٰ افسر کو
پکڑ کر سزا دینا کس طرح دیں گے ؟
|