اتراکھنڈ کے پرولا میں جمعہ کی شام چار بجے دفع 144 ہٹادی
گئی اورتینوں بازار جمعہ کو کھل گئے ۔ امن و امان بحال ہوا تو22 دنوں کے
بعد سنیچر سے مسلمانوں کی ۶؍ دوکانیں بھی کھل جائیں گی ۔ مقامی تاجروں کی
تنظیم نے اعلان کردیا کہ انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس کے صدر برج
موہن نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے کبھی بھی کسی کودوکان بند کرنے کے لیے
نہیں کہا تھا ۔ 26 مئی سے چل رہے اس تنازع کے بعد12 مسلم تاجروں نے شہر
چھوڑ دیا تھا۔ ان میں سے اشرف، رئیس ، سلیم اور سیف علی لوٹ آئے اور باقی
بھی آجائیں گے۔ ان لوگوں نے بتایا کہ برسوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔ قریب میں
بڑکوٹ کے عرفان احمد نے بتایا کہ وہ 36 سال سے وہاں کاروبار کرتے ہیں
۔مقامی باشندوں سے انہیں ہمیشہ پیار اور احترام ملا ہے۔ انہوں نے کہا جن
لوگوں نے غلطی کی ہے انہیں سخت سزا ملنی چاہیے۔ وہیں پانچ سالوں سے دوکان
چلانے والے نذر محمد نے بتایا کہ ہمارا شہر کے باشندوں سے خاندان جیسا تعلق
ہے ۔ ہمیں یہاں کی تقریبات میں بصد احترام بلایا جاتا ہے۔ اس طرح بظاہر
ایسا لگتا ہے کہ نفرت کا جو بازار گرم کیا گیا تھا اس کی آنچ اب کم ہوگئی
ہے اور زندگی معمول پر آنے لگی ہے۔
اتراکھنڈ ویسے تو ایک ننھی سی ریاست ہے لیکن نفرت انگیزی کے معاملے میں وہ
اترپردیش سے زیادہ خبروں میں رہتی ہے۔ کبھی تو یہاں دھرم سنسد کرکے مسلم
کشی کی ترغیب دی جاتی ہے تو کبھی ہلدوانی کے اندر چار ہزار خاندانوں کو جن
میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے ریلوے انتظامیہ کی جانب سے تابڑتوڑانخلاء
کاحکم دے دیا جاتا ہے۔ ان دونوں معاملات میں عدالتِ عظمی ٰکی مداخلت کے بعد
حالات کسی درجہ قابو میں آتے ہیں ۔ اس ریاست کو دیو بھومی کہاجاتاہے لیکن
یہاں سب سے سنگین مسئلہ ہندو وں مقدس مقامات پر زمین کے پھٹنے اور کھسکنے
کاہے ۔ امسال شروعات میں جوشی مٹھ کے اندر زمین دھنسنے کی وجہ سے 600 سے
زیادہ گھروں میں دراڑیں پڑگئی ہیں۔اتر کاشی سے مسلمان تاجروں کو ابھی نکالا
جارہا ہے مگر اس کے سانحہ کے بعد قصبے کے سیکڑوں افراد کی عارضی پناہ گاہوں
میں منتقل کرنا پڑا ۔ اس دوران ایک مندر بھی زمین بوس ہوگیا ۔
نئی دہلی سے 490 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع جوشی مٹھ سے گزرکر ہزاروں ہندو
عقیدت مند بدری ناتھ اور ہیم کنڈ صاحب جاتے ہیں۔ ان ہندو زیارت گاہوں کو
جوڑنے کے لیے وفاقی حکومت زائرین اور سیاحوں کے لیے چاردھام آل ویدرروڈ
تعمیر کررہی ہے لیکن زمین کھسکنے سے وہ کام بھی روک دیا گیا ۔ اس علاقہ میں
2013 اور2021کے اندرسینکڑوں افراد شدید سیلاب کے سبب ہلاک ہوئے ۔ ان قدرتی
آفات میں عوام کے فلاح وبہبود کا کام کرنے کے بجائے ڈبل انجن سرکار فرقہ
پرستی کی سرپرستی کرتی رہتی ہے۔ پچھلے سال اکتوبرمیں اترکاشی کے نہرو انسٹی
ٹیوٹ آف ماؤنٹینیئرنگ کی تربیتی کانفرنس میں برفانی تودہ گرنے سے 29 ٹرینی
اور ٹرینر پھنس گئے انہیں فوج کے خصوصی ہیلی کاپٹر نکالا گیا۔گزشتہ سال
اتراکھنڈ کے پوڑی ضلع میں ایک ریزارٹ سے 19 سال کی لڑکی انکتا بھنڈاری کو
اغواء کرکے پہلے قتل کیا گیا اور پھر اسے چیلا نہر میں پھینک دیاگیا ۔ اس
معاملے میں چونکہ بی جے پی رہنما ونود آریہ کا بیٹا اور ریزارٹ کامالک
پُلکت آریہ، منیجر سوربھ بھاسکر اور معاون منیجر انکت گپتا ملوث تھے جنھیں
بعد میں گرفتار کرلیا گیا ۔ ان لوگوں اپنے گھناونے جرم کا اقرار بھی کرلیا
مگر فوت ہونے والی ابلہ ناری پر کسی ہندو سادھو سنت کو نہ رحم آیا اور نہ
کسی کا خون کھولا۔
اس معاملے میں تو کوئی احتجاج نہیں ہوا مگر اب ایک جعلی معاملے میں ہنگامہ
کھڑا کردیا گیا۔ اس صوبے میں پوڑی میونسپل کارپوریشن کے صدر اور سابق بی جے
پی ایم ایل اے یشپال بینام کی بیٹی مونیکا کا رشتہ امیٹھی کے مونس خان سے
طے ہوجاتا ہے نیز شادی کی تقریبات کا اعلان بھی ہوتا ہے۔ یشپال اس کا جواز
فراہم کرتے ہوئے کہتے ہیں اس دور کے نوجوان اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرتے
ہیں اور انہوں نے اپنی بیٹی کی خوشی کے لیے تقریبات کا اہتمام کیا تھا ۔
ہندو تنظیموں کے دباو میں دعوت کوتو ملتوی کیا گیا لیکن شادی منسوخ نہیں
ہوتی ۔ اس کے باوجود کوئی تنازع نہیں ہوتا۔ ان واقعات کا ذکر اس لیے کیا
گیا تاکہ ان کے تناظر میں اتر کاشی ضلع کے اندرنام نہاد لَو جہاد کا جائزہ
لے کر ہندوتوا کے پاکھنڈ کو اجاگر کیا جائے۔اس شر انگیزی کے خلاف اترا کھنڈ
کے 52؍ سابق نوکر شاہوں نے ریاستی حکومت کو خط لکھ کر اتر کاشی میں جاری
فرقہ واریت کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ سابق اعلیٰ افسران نے وزیر اعلیٰ سے
اپیل کی کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور حالات کو بہتر بنائیں۔
فرقہ پرستی کی اس آگ نے اترکاشی میں بی جے پی رہنما زاہد کوبھی نہیں بخشا
۔ انہیں بھی علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ زاہد گزشتہ 7-8 برس سے بی جے
پی میں سرگرمِ عمل ہے۔ اس سال اسے ضلع اقلیتی سیل کا صدر بنایا گیا ۔ اس سے
پہلے 3سال تک وہ کنوینر اورجنرل سکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکاہے۔
بی جے پی کی پناہ میں خود کو محفوظ سمجھنے والوں کی خاطر زاہد ایک نشانِ
عبرت ہے ۔اس طوفانِ بدتمیزی کا آغاز 26 مئی کو ہوا جب دائیں بازو کے مختلف
ہندو گروپس کے مقامی بیوپار منڈل نے ایک احتجاجی ریلی نکالی ۔ 27مئی کو عام
ہندووں کے جلوس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی اور توڑپھوڑ پر اتر آئے ۔ اس
دوران دوکانوں کی ہورڈنگس اور فلیکس بورڈس پھاڑدیئے گئے۔ 2 دن بعد 29 مئی
کو پرولا میں ایک اور احتجاجی مارچ منظم کیا گیا جس میں بھی تشدد برپا ہوا۔
3 ؍جون کو یمنا گھاٹی ہندو جاگرتی کی تنظیم نے ایک جلوس نکالا جس میں 900
سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔اس طرح دیکھتے دیکھتے مسلمانوں کے خلاف ریلیوں
کا سلسلہ اترکاشی، بارکوٹ چنیالیسور ، نوواگاؤں،دمتا، برنی گاڈ، نیٹوار اور
بھٹواری جیسے گاؤں تک پھیل گیا۔ ان کے ذریعہ مسلم تاجروں کو تخلیہ کے لئے
دھمکانے کی کوشش کی گئی۔اس دوران انتظامیہ کمبھ کرن کی نیند سوتا رہا اور
حالات بگڑتے ممکن ہے اس کا بھی یہی منشاء رہا ہو کیونکہ اس سے سرکار کی
ناکامیوں پر پردہ پڑ جاتا ہے ۔
اتراکھنڈ کے ان واقعات پر ایم آئی ایم کے رکن پارلیمان نےاحتجاجی ٹویٹ
کرکےمہا پنچایت پر پابندی لگانے اور مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرکے مجرموں کو
سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ اویسی نے حکومت کی ناکامی پر شدید تنقید بھی کی۔
اس معاملے میں اتحاد ملت کونسل (آئی ایم سی) کے صدر مولانا توقیر رضا خان
بریلوی نے اتراکھنڈ کی دھامی حکومت کو دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ ہم نے
بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھی ہیں۔ اگر حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی تو ہم
اتراکھنڈ جاکر حکومت کا گھیراؤ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی مزاروں،
مسجدوں اور مدرسوں پر بلڈزور نہیں چلنے دیں گے۔انہوں نے کہا کہ 18 جون کو
اگر مسلم مہاپنچایت کا اعلان نہیں کیا گیا ہوتا تو حکومت 15 جون کی ہندو
مہاپنچایت کو ملتوی کرنے کا فیصلہ نہیں لیتی۔مولانا بولے ہمیں کسی کارروائی
پر ردعمل ظاہر کرنے پرمجبور نہ کیا جائے۔ حکومت کو صحیح وقت پر فیصلہ لینا
چاہئےورنہ ملک کا ماحول خراب ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر قانونی اور
غیرقانونی کی بات ہے تو 1921 کے بعد بنے مزاروں کو ہم خود توڑیں گے، لیکن
بی جے پی کو بھی مندروں کو توڑنا ہوگا۔
اتراکھنڈ کی اس سنگین صورتحال پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے سخت الفاظ
میں تبصرہ کیا اور مذمت کی ہے۔بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سیدقاسم رسول الیاس نے
پرولا میں ایک مسلم نوجوان پر لوجہاد کا الزام لگا کر مسلمانوں کی دکان اور
تجارتی مراکز پر حملوں اور مسلمانوں کے اتراکھنڈ خالی کر نے کےالٹی میٹم کو
انتہائی افسوسناک قرار دیا۔ انہوں نے ریاستی انتظامیہ اور حکومت پر وشو
ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسے شرپسند عناصر کے خلاف کارروائی کر نے کے
بجائے مسلمانوں پر شکنجہ کسنے کا الزام لگایا۔ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل
کی نفرت انگیزی اور شرپسندی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کو سپریم کورٹ
اپنے حالیہ فیصلوں خلاف ورزی بتایا جس میں فوری ایف آئی آر درج کر کے مقدمہ
قائم کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔پرسنل لا بورڈ نے اتراکھنڈ کی حکومت سے
ریاست میں امن و امان کو قائم کرکے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے
شرپسند عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیاکیونکہ ہر شخص کی جان
و مال کی حفاظت کر نا ریاستی انتظامیہ اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس موقع
پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسے واقعات انہیں ریاستوں میں کیوں رونما
ہوتے ہیں جہاں بی جے پی کی ڈبل انجن سرکاربرسرِ اقتدار ہوتی ہے۔ دیگر صوبوں
میں ہندو توا نوازوں کوجوش کیوں نہیں آتا؟ یہ بھیگی بلی کیوں بنے رہتے
ہیں؟ ان سوالات کا سیدھا جواب یہ ہے کہ بی جے پی کی نااہلی کو یہ لوگ فرقہ
پرستی کی آگ سے جلا دیتے ہیں اور اس کی آنچ پر زعفرانی سیاست کی روٹیاں
سینکی جاتی ہیں ۔ جب تک یہ گھناونا کھیل چلتا رہے گا اقلیتوں پر مظالم کا
سلسلہ جاری رہے گا نیز ملک تنزل کی کھائی میں گرتا رہے گا۔ اس لیے ان
فسطائی طاقتوں سے نجات میں تمام باشندگان وطن کی بھلائی ہے۔ویسے چند دنوں
کے اقتدار میں ہی ہندوتوا نوازوں نے اپنی کم ظرفی کا وہ مظاہرہ کردیا کہ اب
ان کی کئی نسلیں اس پر شرمندہ رہیں گی۔ ان کا معاملہ تو اس شعر کی مصداق
ہے؎
نہ جانے ظرف تھا کم،یا انا زیادہ تھی
کلاہ سر سے تو قد سے قبا زیادہ تھی
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|