پاکستان کی سیاست میں حالات بہت تیزی سے تبدیل ہوتے نظر
آرہے ہیں، کل کے حریف آج کے حلیف نہیں بلکہ گہرے دوستوں کی طرح اپنے
مفادات کا دفاع کرتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں حالات پر کڑی
گرفت اور پی ایچ ڈی کا درجہ رکھنے والوں میں آصف علی زرداری سیاسی افق پر
نمایاں ہے۔
سیاست کے سرد و گرم سے نکل کر آنے والے آصف علی زرداری کو معلوم ہے کہ
جیسا دیس ویسا بھیس کے مطابق خود کو حالات کے مطابق اپنی پارٹی کو ڈھال کر
آگے چلنا ہے اور کیسے قوم کی نبض کو سمجھ کر تدبیر کرنی ہے اور لیول فیلڈ
پلئینگ کا تصوربھی اسی تناظر میں دیا جارہا ہے۔
آصف علی زرداری جب صدر مملکت کے عہدے پر قائم تھے تو انہوں نے ایسے لوگ جو
ان کے ناصرف شدید مخالف بلکہ مختلف مقدمات میں نامزد تھے انہیں بھی ہمنوا
بنانے سے کامرانی حاصل کی حتیٰ کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے قاتلوں میں
نامزد پرویز الٰہی پاکستان کے پہلے نائب وزیراعظم بن گئے تو آئندہ بھی
آصف علی زرداری سے کچھ بھی بعید از قیاس نہیں ہے۔
یہ بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ کس طرح گزشتہ سال اپریل میں عمران خان کی
حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے نہایت ہی سیاسی
حکمت عملی کے تحت شہبازشریف کو اپنا وزیراعظم قبل از وقت ہی قرار دے دیا
تھا ، شہبازشریف کو پلیٹ میں رکھ کر حکومت دی گئی اور پیپلزپارٹی نے اپنے
لئے نسبتاً ایسی وزارتوں کا انتخاب کیا جن کا عوام سے براہ راست تعلق کم ہے
۔
یہ بات تو گزشتہ کافی عرصے سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عمران خان کے
زوال کے بعد بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کو وزارت عظمیٰ کیلئے تیار
کیا جارہا ہے ۔اس وقت چونکہ مرکز میں کولیکشن گورنمنٹ ہے تو اتحادی جماعتوں
کے درمیان ہم آہنگی اور متوازن بیانات وقت کا تقاضہ ہیں تاہم انتخابات کا
بگل بجنے کے بعد لیول فیلڈ پلئینگ سیاسی محاذ آرائی میں بھی بدل سکتی ہے
جس میں ترش و تند جملوں کا تبادلہ بھی ممکن ہے۔
قومی اسمبلی میں نااہلی کی مدت پانچ سال تک محدود کرنے سے بلاشبہ نوازشریف
کیلئے سیاسی راہ ہموار کی جارہی ہے اور اہم بات تو یہ ہے کہ صدر مملکت
ڈاکٹر عارف علوی کی عدم موجودگی میں قائم قام صدر صادق سنجرانی اس بل پر
چند لمحوں میں دستخط کرکے ایکٹ بنانے میں معاون ثابت ہوسکیں گے ۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ پانامہ کیس میں 4 سو سے زائد
افراد کے نام تھے لیکن محض ایک شخص کو قصوروار قرار دینا درست نہیں تھا
لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا نظام طاقتور کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے
اور کمزور نظام کی وجہ سے طاقتور ہمیشہ فائدہ اٹھاتا ہے۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی استحکام بھی شدید ہچکولے
کھارہا ہے، پچھلے کئی ماہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ آنکھ مچولی کے بعد اب
گزشتہ دنوں وزیراعظم شہبازشریف کی پیرس میں آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے
ملاقات کے بعد شاید حکومت کو کچھ امید کی کرن نظر آئی ہے تاہم عالمی فورمز
پر اس طرح کی سائیڈ لائن ملاقاتوں سے زیادہ توقعات لگانا مشکل ہوتا ہے۔
حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبات کے مطابق وفاقی بجٹ میں 215 ارب کے ٹیکسز
کے علاوہ پیٹرولیم لیوی بڑھانے کے ساتھ ٹیکس ایمنسٹی سے بھی ہاتھ پیچھے
کھینچ لیا ہے۔
آئی ایم ایف جیسے اداروں کی پالیسیوں اور فیصلوں میں معمولی سا فرق تو
ممکن ہے لیکن زیادہ تبدیلی کی توقع رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ عالمی مالیاتی
ادارہ گزشتہ اور موجودہ حکومت کے ساتھ گزشتہ مہینوں میں ہونیوالے مذاکرات
کے مطابق عملدرآمد چاہتا ہے ۔
حکومت بجٹ سے پہلے ہی آئی ایم ایف کے مطالبات پر جیسا عمل اب کیا ہے اگر
پہلے ہی ایسا عمل کرلیتی تو شاید حالات کچھ مختلف ہوسکتے تھے کیونکہ یہ
حقیقت ہے کہ آپ جتنی زیادہ شرائط مانتے جائیں گے اس کا اثر اتنا ہی زیادہ
عوام پر بڑھتا جائے گا۔
اسحاق ڈار کے بیانات کو صرف باتوں کی حد تک تو خوش آئند کہا جاسکتا ہے
لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ پیٹرولیم لیوی کا براہ راست اثر
عوام پر آئے گا۔کمپنیوں پر سپر ٹیکس یا دیگر اقدامات کے اثرات ہر صورت
عوام پرپہاڑ بن کر گریں گے کیونکہ یہ تمام ٹیکس کمپنیاں اپنے منافع کم کرنے
بجائے عوام سے وصول کریں گی۔
پاکستان کی معیشت مخدوشیت کی آخری حدوں کو پہنچ چکی ہے اور پاکستان کی
معیشت کی مخدوشیت میں عوام کو آئی ایم ایف سے معاہدے کے اثرات سے بچانا
ممکن نہیں ہے۔
عالم اسلام کا بڑا مذہبی تہوار عید الاضحی سر پر ہے لیکن میڈیا رپورٹس کے
مطابق پاکستان میں قربانی کے جانوروں کی خریداری کم ہوگئی ہے اور صاحبِ
ثروت لوگ بھی اجتماعی قربانی کو ترجیح دے رہے ہیں۔
پاکستان کی معاشی بدحالی کی ایک وجہ حکمرانوں کا طرز عمل بھی ہے، برطانوی
حکومت میں لندن میں ڈیوٹی سرانجام دینے والوں کیلئے صرف 80 کے قریب گاڑیاں
ہیں لیکن بھوک، بدحالی اور غربت سے دوچار پاکستان کے شاہی حکمرانوں کے پاس
صرف مرکز میںساڑھے 6 لاکھ کے قریب ملازمین حکومتی اداروں میں کام کررہے ہیں
اور 60 ہزار سے زائد گاڑیاں استعمال ہورہی ہیں جبکہ ساڑھے پانچ لاکھ کے
قریب وہ ملازمین ہیں جو حکومت سے منسلک اداروں میں کام کررہے ہیں اور یہ وہ
بھرتیاں ہیں جو سیاسی بنیادوں پر کی گئیں۔ جس پر آئی ایم ایف جیسے مالیاتی
ادارے بھی اعتراضات اٹھاتے رہے ہیں۔
پاکستان میں برپا مہنگائی کا طوفان اپنی تباہ کاریوں کا دائرہ بڑھاتا جارہا
ہے، 60 ٹریلین روپے کے اندرونی و بیرونی قرضے ، ساڑھے 14 کھرب کا بجٹ اور
ہمارے پاس مجموعی کلیکشن 9 اعشاریہ 6 ٹریلین کا ہے تو ان اعداد و شمار کو
دیکھتے ہوئے عوام کی مزید مشکلات کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
بقول شاعر
موت کے خونخوار پنجوں میں سسکتی ہے حیات
آج ہے انسانیت کی ہر ادا سہمی ہوئی
غربت، مہنگائی، بھوک اور افلاس کے مارے لوگ خودکشیاں کررہے ہیں، لوگ آنے
والے وقت کا ادراک کرکے بری طرح سہمے ہوئے ہیں کہ آنے والے وقت میں کیا
ہونے والا ہے اور بھوک اور افلاس کو کس طرح کم کرسکیں گے۔
|