چین کی گرین کمپیوٹنگ پاور کا عروج
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
تکنیکی ترقی کی جستجو میں چین نے خود کو دنیا میں
انوویشن اور جدت کے ایک مرکز میں ڈھالنے کے لیے دوررس اہمیت کا حامل منصوبہ
ترتیب دیا ہے جس کے تحت 2035 تک چین ایک گلوبل انوویشن لیڈر کے طور پر ابھر
کر سامنے آ سکے گا۔
اس دوران اہم ٹیکنالوجیز کی ترقی کو فروغ دیتے ہوئے پیش قدمی کی جائے گی
اور ٹیکنالوجی کے میدان میں سبقت کے لیے آرٹیفشل انٹیلی جنس ،کوانٹم
انفارمیشن ، انٹیگریٹڈ سرکٹس ،زندگی اور صحت ، برین سائنسز ، ائیرو اسپیس ،
سائنس و ٹیکنالوجی اور ارضیاتی و سمندری کھوج کے حوالے سے کئی اہم اسٹریٹجک
منصوبوں کی تکمیل کی جائے گی۔
اسی کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے ابھی چند روز قبل چائنا گرین کمپیوٹنگ پاور
کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں جاری ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے
مطابق چین کی گرین کمپیوٹنگ پاور عالمی ترقیاتی اسٹارٹ اپس کے درمیان ایک
مضبوط رفتار ظاہر کرتی ہے۔چائنا اکیڈمی آف انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن
ٹیکنالوجی کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ گرین کمپیوٹنگ پاور، یا گرین
اور کم کاربن کمپیوٹنگ پاور کی جستجو ایک اہم ترجیح ہے۔اس ضمن میں کمپیوٹنگ
پاور کی اعلیٰ معیار کی ترقی کا ہدف ، کمپیوٹنگ پاور پروڈکشن ، آپریشن ،
مینجمنٹ اور ایپلی کیشن کی" گرینائزیشن" کو فروغ دے کر حاصل کیا جاسکتا ہے۔
رپورٹ میں گرین کمپیوٹنگ پاور کی موثر، کم کاربن، ذہین اور گہری ترقی کے
لئے ایک فریم ورک قائم کیا گیا، اس میں شامل کلیدی عوامل کے ترقیاتی رجحان
کا تجزیہ کیا گیا۔ اکیڈمی کے مطابق ، چین میں گرین کمپیوٹنگ پاور کے اطلاق
اور گرین کمپیوٹنگ پاور کی ترقی کے وسیع امکانات موجود ہیں۔یہ امر قابل زکر
ہے کہ چین میں گرین کمپیوٹنگ پاور کو وسیع پیمانے پر اپنانے سے 2022 میں
پورے معاشرے میں بجلی کی کھپت میں تقریباً 19.5 بلین کلو واٹ گھنٹے کی کمی
واقع ہوئی ہے ۔
دوسری جانب یہ بات بھی غور طلب ہے کہ چین اپنی کمپیوٹنگ طاقت کے پیمانے کے
لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔2022 کے اختتام تک ، ملک کی کمپیوٹنگ
طاقت کا مجموعی پیمانہ 180 ای فلوپس تک پہنچ گیا ، جس کی سالانہ ترقی کی
شرح تقریباً 30 فیصد ہے ، اور اسٹوریج کی صلاحیت کا مجموعی پیمانہ ایک
ٹریلین گیگا بائٹ سے تجاوز کر گیا ہے.
ملک میں بنیادی کمپیوٹنگ پاور انڈسٹری کا پیمانہ 1.8 ٹریلین یوآن (تقریباً
0.26 ٹریلین ڈالر) تک پہنچ چکا ہے۔ چائنا اکیڈمی آف انفارمیشن اینڈ
کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا اندازہ ہے کہ کمپیوٹنگ پاور میں سرمایہ کاری کرنے
والا ہر یوآن چین کی جی ڈی پی میں 3 سے 4 یوآن کی ترقی کو فروغ دے گا۔تا
حال ، کمپیوٹنگ پاور کو صنعتی انٹرنیٹ ، اسمارٹ میڈیکل کیئر ، فن ٹیک ،
فاصلاتی تعلیم اور ایرو اسپیس جیسے شعبوں میں وسیع پیمانے پر لاگو کیا گیا
ہے۔
گرین کمپیوٹنگ پاور کے ساتھ ساتھ وسیع تناظر میں گزشتہ دہائی کے دوران ملکی
و غیر ملکی کاروباری اداروں نے چین کی گرین ٹرانزیشن کی لہر سے صحیح معنوں
میں فائدہ اٹھایا ہے ، کیونکہ چین کی جانب سے کم کاربن اور طویل مدتی
پائیدار ترقی کے حصول کی کوششوں سے کاروبار کے نئے مواقع مسلسل ابھر رہے
ہیں۔
چین کے"دوہرے کاربن" اہداف سے لے کر اپنی قومی کاربن مارکیٹ کو آگے بڑھانے
تک، سبز ترقی کے لیے ٹھوس کوششیں متعلقہ شعبوں کو متحرک کرنے میں انتہائی
مدد گار ثابت ہو رہی ہیں۔ ان میں روایتی صنعتوں کی کم کاربن تبدیلی، نئی
توانائی کی گاڑیاں، ایک سرکلر اکانومی اور گرین فنانس وغیرہ قابل زکر ہیں۔
اس ضمن میں تخفیف کاربن کے لیے چین کے "کاربن پیک" اور "کاربن نیو ٹرل" کے
اہداف مستقبل کی ترقی کے لیے راہ متعین کر رہے ہیں، جن کی بدولت چینی حکام
کو ایک وسیع پلیٹ فارم اور نئے مواقع میسر آ رہے ہیں۔ چین کے سازگار
کاروباری ماحول اور ماحول دوست رویوں کی وجہ سے ملٹی نیشنل کمپنیاں چین میں
اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔اس ضمن میں یہ بھی ایک خوبی
دیکھی گئی ہے کہ مختلف عالمی کمپنیاں چینی صنعتوں کی گرین ٹرانزیشن کو بہتر
بنانے کے لیے اپنی سپلائی چین، اختراع اور ماحولیاتی نظام کو مزید مقامی
بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ عالمی سرمایہ
کاروں کی اکثریت نے چین کی سبز ترقی کے لیے بڑھتی ہوئی جستجو میں اپنی
نمایاں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اس تناظر میں ایک انتہائی روشن شعبہ تیزی سے
ترقی پذیر نئی توانائی کی گاڑیوں کی صنعت ہے، جہاں بیرونی کار ساز ادارے
اپنی موجودگی کو مسلسل بڑھا رہے ہیں۔آج ، چین دنیا کی سب سے بڑی نئی
توانائی کی گاڑیوں کی مارکیٹ اور عالمی سطح پر سب سے زیادہ متحرک اور امید
افزا مارکیٹ کے طور پر، گلوبل کار ساز اداروں کی مستقل ترقی میں اہم کردار
ادا کررہا ہے۔علاوہ ازیں ، گزشتہ دہائی کے دوران، چین نے گرین فنانس کے لیے
پالیسی فریم ورک کو بہتر کیا ہے، جس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ گرین فنانس
پروڈکٹس اور مارکیٹ میکانزم مسلسل ابھر رہے ہیں جس سے دنیا بھر کے کاروباری
اداروں کے لیے بھی نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ |
|