یوں تو پاکستان کی سیاست ابتدا ء سے ہی بڑی ہنگامہ خیز
رہی ہے اور قیام پاکستان سے لے کر آج تک شاید ہی کوئی سال ایسا گزرا ہو جس
میں عوام الناس سے سکون کا سانس لیا ہو کہ ہماری عوام کے لیے پاکستان کا
طرز سیاست، سیاست دانوں کے طور طریقے ،حکمرانوں کی حرکتیں اور اداروں کے
اقدامات اس قدر غیر متوقع اور چونکا دینے والے رہے ہیں کہ عوام کے علاوہ سب
کو پتہ ہوتا ہے کہ کیا ہونا ضروری ہے ،کیا ہورہا ہے اورکیا ہونے والا ہے ۔
بس بے چاری عوام ہی وہ واحد بے ضرر اور مجبور مخلوق ہے جو طرح طرح کے
حکمرانوں کی چالاکیوں،سازشوں،کرپشن،مفاد پرستی اور بے تحاشہ مظالم کو
برداشت کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہے ۔
ہماری سیاسی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بانی ء پاکستان قائداعظم محمدعلی
جناح اور لیاقت علی خان کی رحلت کے فوراً بعد جن لوگوں کے ہاتھوں میں
اقتدار آیا انہوں نے اس ملک اور اس ملک کے باشندوں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ
ایک ایسا ناقابل معافی اور ناقابل تلافی جرم ہے جس کی سزا یہ قوم آج تک
بھگت رہی ہے۔قائداعظم محمدعلی جناح کا انتقال جن حالات اور واقعات کے نتیجے
میں ہوا اس نے قائداعظم کی موت کو مشکوک بنایا اور آج بھی یہ بات کی جاتی
ہے کہ قائداعظم کو سلوپوائزن دیا گیا اور انتقال کے سے پہلے انہیں ہسپتال
تک پہنچانے میں جان بوجھ کر تاخیر سے کام لیا گیا ۔اسی طرح قائد ملت لیاقت
علی خان کو ان کی بہادری اور حب الوطنی کی سزا لیاقت باغ کے ایک جلسے میں
گولی مار کر دی گئی اور پھر ان تمام کرداروں اور گواہوں کا خاتمہ کردیا گیا
جن سے ان دونوں عظیم شخصیات کے قاتلوں تک پہنچا جاسکتا تھا۔
پاکستان کی ابتدائی مرکزی قیادت کی شہادت کے بعد ایک طویل عرصہ تک یہ ملک
ان لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا رہا جنہیں عوام اور سیاست دان آج بھی
خلائی مخلوق کے نام سے جانتے پہچانتے ہیں،پھر شاید اﷲ تعالیٰ کو پاکستانی
عوام کی حالت ذار پر رحم آگیا اور ذوالفقارعلی بھٹو کی شکل میں ہماری قوم
کو ایک انتہائی محب وطن،قابل اور بہادر عوامی لیڈر ملا جس نے عوام الناس کے
رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھ کر برسوں کے گھٹن زدہ ماحول میں خوشگوار
تبدیلی لا کر پاکستان کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔صرف ذوالفقارعلی بھٹو کے دور
حکومت میں جتنے زیادہ بنیادی ،عوامی ،فلاحی اور دور رس بین الاقوامی نوعیت
کے کام انجام دیے گئے اگر انہیں ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور ترازو کے
دوسرے پلڑے میں بھٹو کے بعد آنے والے تمام سیاسی اور غیر سیاسی حکمرانوں کے
کاموں کو رکھا جائے تو آج بھی ذوالفقار علی بھٹو شہید کا پلڑا بھاری ہوگا
کہ بھٹو جیسے بے باک اور مخلص عوامی لیڈر مسلم دنیا میں کم ہی پیدا ہوئے
ہیں اور پاکستان کی سیاست میں بھٹو کے بعد آج تک ان سے زیادہ عوامی اور بین
الاقوامی سطح کے کارنامے انجام دینے والا کوئی دوسرا لیڈر پیدا نہیں ہوا۔
بے لوث اور محب وطن سیاست دانوں کے قحت الرجال کے اس زمانے میں عمران خان
کا سیاست میں آنا ،ایک نئی سیاسی پارٹی بنانا اور 22سال کی مسلسل جدوجہد کے
بعد اقتدار میں آنایقینا اس بات کی علامت ہے کہ اﷲ تعالی پاکستان کودنیا
بھر میں اعلی مقام عطا فرماکر اسے غزوہ ہند کے لیے تیار کرنا چاہتا ہے جس
کے لیے موجودہ دور کے مفاد پرست ،لالچی اور کرپٹ ترین جھوٹے سیاست دانوں
اور حکمرانوں کی پے درپے سازشوں کے باوجود اﷲ نے نہ صرف عمران خان کو سلامت
رکھا ہوا ہے بلکہ اسے عوام کے دلوں میں وہ عزت اور مقام دیا ہے جو کبھی
قائداعظم محمدعلی جناح اور ذوالفقار علی بھٹو کوحاصل تھا ۔اگر ہم غیر
جانبدارانہ طور پر پاکستان کی مکمل سیاسی تاریخ میں سے مخلص ترین ،محب وطن
،قابل ترین اور بے خوف و بے باک قیادت کا انتخاب کریں تو تاحال ہمیں صرف
تین نام ہی ایسے نظر آئیں گے جن کو عوام نے اپنے دلوں میں جگہ دے کر اس
مقام تک پہنچادیا کہ وہ لوگ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے اور پاکستان کی سیاست
سے کوئی بھی شخص یا ادارہ ا ن شخصیات کو مائنس نہیں کرسکتا ۔جی ہاں ! میں
بات کررہا ہوں ،قائد اعظم محمدعلی جناح ،ذوالفقار علی بھٹو شہید اور عمران
خان کی جوکہ دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان ،آن بان اور شان ہیں ان ہی کی
وجہ سے پاکستان اور پاکستانی عوام کی عزت وتوقیر قائم و دائم ہے وگرنہ باقی
دیگر نام نہاد سیاست دانوں نے محض اپنے ذاتی فوائد کے لیے پاکستان اور
پاکستانی عوام کو عالمی سطح پر شرمساراور رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی ۔
پاکستانی سیاست میں گزشتہ ایک سال کے دوران جس تیز رفتاری کے ساتھ تبدیلیاں
رونما ہوئیں انہوں نے ملک اور قوم کو غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار کرکے
ہیجان اور بحران میں مبتلا کردیا جس کی وجہ سے آج ملک کا بچہ بچہ پاکستان
کے مستقبل کے حوالے سے خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتا ہوا نظر آرہا ہے
اورخاص طور پر گزشتہ 8ماہ کے دورن اس ملک میں سیاست دانو ں،اہم شخصیات اور
اداروں کی جانب سے جو غیر متوقع اور چونکا دینے والے اقدامات کیے گئے اس نے
ایک طرف توسیاست دانوں اور بعض اہم شخصیات کے اصل چہروں سے پردہ ہٹا کر ان
کے کردار کو عوام کے سامنے ننگا کردیا اور دوسری طرف عوام کو وہ سیاسی شعور
ملا کہ اب سیاست اور حکومت کے معاملات صرف محلوں اور بند کمروں تک محدود
نہیں رہے ۔خاص طور پر اس ملک کے نوجوانوں کو عمران خان نے اپنی تقریروں،حب
الوطنی ،بے خوفی اور بہادری کے ذریعے وہ قوت بنا دیا کہ اب ان کو کوئی بھی
طالع آزما نہ تو گمراہ کرسکتا ہے اور نہ ہی اپنا آلہ کار بنا سکتا ہے۔اس
وقت ایک طرف اکیلا عمران خان اور دوسری طرف 12سیاسی جماعتوں کے تجربہ کار
رہنما جو خود کو کھلاڑی اور عمران خان کو اناڑی سمجتے رہے جبکہ عمران خان
نے اپنی سیاست ،بہادری ،ایمان اورپے در پے یوٹرن لے لے کر بڑے بڑے کھلاڑیوں
کو کلین بولڈ کردیا اور اس وقت کی تازہ ترین سیاسی صورتحال یہ ہے کہ اس نڈر
بے باک اور بہادر محب وطن سیاسی لیڈر عمران خان نے 12 سیاسی جماعتوں کے
جغادری لیڈروں کی ایسی بینڈ بجارکھی ہے کہ ہاتھ لگا لگا کر رو رہے ہیں ۔اب
انہیں اچھی طرح اندازہ ہورہا ہے کہ جب ایک غیرملکی سازش کے ذریعے مقامی
غداروں کو ساتھ ملا کر عمران خان کے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتمادکی
تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے کروڑوں روپے دے کر عوامی نمائندوں کے ضمیروں
کا سودا کیا گیااورعمران خان کی اچھی خاصی چلتی ہوئی حکومت کو رخصت کرتے
ہوئے رجیم چینچ آپریشن کو کامیاب بنا کر اس ملک پر پاکستان کی سیاسی تاریخ
کی کرپٹ ترین حکومت کو مسلط کیا گیا اور جس میں تمام مفاد پرست لٹیروں کو
اہم عہدے دے کر عوام کی امیدوں کا خون کرتے ہوئے پاکستان کی معیشت کابیڑہ
غرق کیاگیا ۔اس نے عوام کے دلوں میں عمران خان کو ایک قومی ہیرو اور رجیم
چینج کے تمام کرداروں کو بالکل زیرو بنا کر رکھ دیا ہے ۔اب یہ کرپٹ مداریوں
کی حکومت جب بھی الیکشن کروائے گی عوام ان کو اس بری طرح مسترد کریں گے کہ
یہ لوگ بغلیں ہی بجاتے رہیں گے اور آئندہ ہونے والے عام انتخابات کے نتائج
کے نتیجے میں متوقع طور پر عمران خان دو تہائی اکثریت لے کر کامیاب ہوگا
اور دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد وہ ان سب لٹیروں کے ساتھ جو سلوک کرے گا
اس کا اندازہ عوام کو تو ابھی سے ہوگیا ہے لیکن افسوس وہ جو خود کو
وزیراعظم ،وزیرخارجہ اور کنگ میکر سمجھتے ہیں ان کو نہیں ہوا اگر ہوجاتا تو
یہ کرپٹ لوگوں کا ضمیر فروش اور مفاد پرست ٹولہ اب مزید عمران خان کا راستہ
روکنے یا اس کے خلاف سازشیں کرنے کا کبھی نہ سوچتا لیکن جب اﷲ تعالی کسی کی
عقل پر پردے ڈال دیتا ہے تو انہیں نہ کچھ سنائی دیتا ہے اور نہ کچھ دکھائی
دیتا ہے ۔یہی حالت اس وقت پی ڈی ایم اتحاد کے پرانے سیاست دانوں کی ہے
جنہیں عمران خان سیاست کے میدان میں چاروں خانے چت کرکے سیاست کا فاتح
پہلوان بن چکا ہے ۔
پاکستان اور پاکستانی سیاست سے تمام تر سازشوں اور کوششوں کے باجود آج تک
ذوالفقار علی بھٹو کانام ختم نہیں کیا جاسکاتھا کہ اب عمران خان کی صورت
میں ایک اور بھٹو جنم لے چکا ہے۔زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کے بعد اب تمام ناکام
سیاست دانوں کو زندہ ہے عمران خان زندہ ہے کے نعرے لگنے اور پاکستانی سیاست
میں ہمیشہ کے لیے امر ہوجانے والے حکمرانوں میں ایک اور بہادر اور محب وطن
لیڈر کا اضافہ ہوجانے پر اخلاقی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاست سے کنارہ
کشی اختیار کرلینی چاہیے کہ وہ ایک طویل عرصہ کی کوششوں کے بعد بھی بھٹو کو
نہ مارسکے اور اب ایک اور بھٹو نے ان سب کا ناک میں دم کرکے ان کو ذلیل
ورسوا کرکے اور ان کے چہروں پر چڑھے ہوئے نقابوں کو اتار کر انہیں عوامی
عدالت میں دھکیل دیاہے جہاں سے چند ماہ کے اندر جو فیصلہ آئے گا وہ انشائاﷲ
پاکستان کی سیاسی تاریخ کوبدلتے ہوئے اس تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا جو
عمران خان لانا چاہتا تھا لیکن اسے سازشوں کا شکار کرکے وقت سے پہلے اقتدار
سے محروم کردیا گیا۔
وقت اور تاریخ ہمیشہ صحیح فیصلہ سناتے ہیں ۔بھٹو کو تاریخ نے ہمیشہ کے لیے
امر کردیا اور عمران خان اگر دس سال اور زندہ رہ گیا تو اس ملک کی تقدیر
بدل کر ایسی شناخت بن کر جائے گا کہ جب تک پاکستان کا وجود باقی رہے گا
عمران خان زندہ رہے گا کہ اس جیسے محب وطن عوامی لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتے
ہیں اور صدیوں تک یادرکھے جاتے ہیں۔ |