وہ عظیم الشان ملک جسے پاکستان کے نام سے موسوم کیا جاتا
ہے اس کے ابتدائی ایام پرہی ملکی اشرافیہ نے ریاستی معاملات پرقبضہ کر لیا
تھا ۔ قائدِ اعظم کی رحلت کے بعد عسکری اد اروں اور عدلیہ کے باہمی گٹھ جوڑ
سے اشرافیہ کے قبضے کی راہ ہموار کی گئی جس سے عوامی دولت کی لوٹ مارکی ایک
نا ختم ہونے والی کہانی شروع ہو گئی۔عوام اس ناجائز قبضہ سے نالاں ہیں لیکن
اشرافیہ اپنا قبضہ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ دولت کی فراوانی اور صنعت و
حرفت کی ترقی نے اشرافیہ کو مزید طاقتور بنا دیا ہے جس سے ملکی معاملات میں
اس کا عمل دخل مزید گہرا ہو گیا ہے۔ تاریخ کے پنے اس بات کے گواہ ہیں کہ
اقتدار کی مسند کو کوئی بخوشی نہیں چھوڑتا بلکہ اقتدار کی خاطر ہر جائز و
ناجائز حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مسندِ اقتدار سے بہرہ ور ہو نے کے بعد
اشرافیہ کی چاندی ہوجا تی ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں ان کے دولت خانے کا طواف
کرنا اپنے لئے نعمتِ غیر متبرکہ سمجھتی ہیں۔۱۹۸۵ کے غیر جماعتی انتخابات
کے بعد الیکٹ ایبل کے لفظ نے طبقہِ امراء کو مزید خود سر بنا رکھا ہے
کیونکہ ہر سیاسی جماعت کو ان کی دولت، اثرو رسوخ اورطاقت کی حاجت ہو تی
ہے۔دولت ایک طاقت ہے لہذا یہ جس کے گھر میں ڈیرے ڈال لیتی ہے اس کا مقدر
چمک جاتا ہے۔موجودہ دور اقدارکا نہیں بلکہ دولت کی کرشمہ سازیوں کا دور
ہے۔ایک محارہ ہے کہ (جس کے گھر دانے اس کے کملے بھی سیانے )۔سیاست اب امراء
کا کھیل بن چکا ہے ۔غریب کی خدمات صرف نعرے لگانے،سٹیج بنانے اور کرسیاں
سیٹ کرنے تک محدود ہو تی ہیں۔ملک کا کونہ کونہ، کوچہ کوچہ ،قریہ قریہ دولت
مندوں کی دولت اور سیم و زر کی چمک سے دمک رہا ہے۔بے آسرا لوگ آج بھی اپنی
حاجات کی برو مندی کیلئے انہی دولت مندوں کے آستانوں پر سرِ تسلیم خم کرتے
ہیں۔اقدارکی عظمت کا چراغ گل ہوجانے کے بعد دولت کی قوت و حشمت نے اسی جگہ
اپنا خیمہ گاڑ لیا ۔مجھے اس سیای جماعت کا نام بتایا جائے جو ہنر مند،با
وفا ،سچے،کھرے ، ایماندار اور قابل انسان کو انتخابابی ٹکٹ سے نوازتی ہے
؟ٹکٹ دولت مندوں کا حق ہے اور وہ یہ حق لے کر ہی رہتے ہیں ۔ وڈیروں اور
سرداروں کی تو اپنی دنیا ہو تی ہے لیکن وہ دنیا اب دولت مندی کے دریا کے
ساتھ ہم آغوش ہوکر بحرِ بے کراں میں ڈھل چکی ہے ۔،۔
پورے ملک پر نظر دوڑائیں آپ کو مخصوص خاندان ہی اقتدار کی راہداریوں میں
مصروفِ اقتدار نظر آئیں گے۔۲۲ کروڑ انسان ایسے دولت مند خاندانوں کے جاہ و
جلال اور شان و شوکت کے اسیر ہیں ۔اپنے فکری رویوں ،اپروچ اور کردار میں
موقع پرست، بے وفا اور لوٹے کا لقب پانے کے باوود حقِ ووٹ انہی تگڑے لوگوں
کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔اشرافیہ کیلئے سیاست ایک شغل کے سوا کچھ بھی نہیں
ہوتی جبکہ غریب کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتی ہے۔وہ خوشخال مستقبل
کیلئے کارزارِ سیاست میں قدم رکھتے ہیں ،بہتر دنوں کی امید اور سہانے سپنے
ان کی سرگرمیوں کا محور بنتے ہیں لیکن بدقسمتی کی انتہا دیکھئے کہ قائدین
ان کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر انھیں انتہا پسندی کی جانب دھکیل دیتے
ہیں۔وہ قائدین کے حکم پر شدت پسندی کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر اپنی شدت
پسندی کی وجہ سے زندانوں کا ایندھن بنتے ہیں جس سے ان کے ورثاء غربت و
افلاس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سہانے دنوں کی بجائے غربت و محرومی اور بے
چارگی ان کے دروازوں پر ڈیرے ڈال لیتی ہے ۔۹ مئی کو شہداء کی یادگاروں کو
جلانے والے کارکنوں کی اکثریت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے۔اپنے من پسند
قائد سے محبت سے تو کوئی کسی کو منع نہیں کر تا لیکن کیا کوئی ذی شعور
انسان اپنے شہداء کی یادگاروں کو نظرِ آتش کرنے کا تصور کر سکتا ہے؟کیا
اپنے بابائے قوم کی رہاش گاہ جناح ہاؤس کو کوئی با ہوش انسان مسمار کرنے کا
سوچ سکتا ہے؟غر بت کی چکی اور احساسِ محرومی انسانوں کے اندر نفرت اور
انتقام کے شعلوں کو ہوا دیتا ہے۔محبوب قائد کے چند الفاظ اس نفرت کو شعلہ
جوالہ بنا دیتے ہیں اور یوں انہونی ہو جاتی ہے۔المیہ دیکھئے کہ اشرافیہ پلک
جھپکنے میں اپنے محبوب قائد کو چھوڑ کر نئی منزوں کی تلاش میں نکل کھڑی
ہوتی ہے جبکہ غریب کارکنوں کو جیل کی ہوا کھانے کے لئے تنہا چھوڑ دیا جاتا
ہے ۔ اشرافیہ روائیتی ساز باز سے محفوظ پناہ گاہ میں امن و چین سے مستقبل
کی منصوبہ بندی کر لیتی ہے جبکہ غریب کا مقدر جیل کی چکی پیسنا لکھ دیا
جاتا ہے۔،۔
ہر ملک میں ایجنسیوں کی اپنی اہمیت ہو تی ہے،امریکہ میں پینٹا گون اور سی
آئی اے حکومتی امور کی بجا آوری میں حکمرانوں کی مدد کرتی ہیں اور حکومت ان
کی تجا ویز کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔نائن الیون کے بعد ایجنسیوں نے ہی امریکی
صدر کو افغانستان پر حملے کی ترغیب دی تھی ۔ یوکرائن کی جنگ ہو ، افغانستان
کا مسئلہ ہو یا تائیوان کا قضیہ ہو پینٹا گوں ہر جگہ فیصلہ سازی میں اپنا
کردار ادا کرتا ہے ۔انتخابی معرکہ میں امریکی ایجنسیاں بالکل مداخلت نہیں
کرتیں بلکہ عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کیلئے پر امن ماحول فراہم کرتی
ہیں۔پاکستان اس لحاظ سے بالکل مختلف ہے کہ یہاں پر اسٹیبلشمنٹ ، آئی ایسی
آئی، ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیاں انتخابات میں مداخلت کرتی ہیں اور اپنے
من پسند گھوڑوں کو جتوانے میں اپنا سارا زور صرف کرتی ہیں۔۱۹۸۸ میں پی پی
پی کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد اس کی سب سے بڑی مثال ہے جس میں پی پی پی
کو ہرانے کے جتن کئے گے لیکن مظلوبہ نتائج نہ ملے تو ۱۷ مہینوں کے بعد پی
پی پی کی حکومت کو کرپشن کے الزامات پر فارغ کر دیا گیا۔عمران خان اس لحاظ
سے خو ش قسمت ہیں کہ انھیں پونے چار سال تک برداشت کیا گیا ۔اشرافیہ اور
اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑھ ایک ننگی حقیقت ہے لہذا جو کچھ اسٹیبلشمنت چاہتی ہے
اشرافیہ اسی کے مطابق عمل پیرا ہوتی ہے کیونکہ اشرافیہ کے گھپلوں ،کالے
کرتوتوں اور کرپشن کی فائلیں اسٹیبلشمنٹ کی تحویل میں ہوتی ہیں۔ اشرافیہ کی
بھاگم دوڑ کا ایک نا ختم ہونے والہ تماشہ ہم روز میڈیا پر دیکھ رہے
ہیں۔اشرافیہ کے وہ تمام کل پرزے جو کل تک عمران خان کے ساتھ جینے مرنے کی
قسمیں کھاتے نہیں تھکتے تھے اب رفو چکر ہو گے ہیں۔لوگ اپنی کھلی آنکھوں سے
بے وفائی کا یہ منظر دیکھ رہے ہیں لیکن اشرافیہ کو بالکل کوئی پچھتاوا یا
شرمندگی نہیں ہے کیونکہ یہی ان کا چلن ہے۔سیاسی جماعتیں بدلنا اشرافیہ کا
کلچر ہے اور وہ اپنے کلچر کا بھر پور دفاع کر رہے ہیں ۔انھیں سدا اقتدار
میں رہنا ہے لہذا جو جماعت معتوب ہو جائے یا وہ اقتدار کی منزل سے دور ہو
جائے اشرافیہ اس جماعت سے کوسوں دور بھاگتی ہے۔ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا
کہ اقتدار کا ہما کس کے سر پر بٹھایا جائے گا لہذا اشرافیہ بھی حالات کا
جائزہ لے رہی ہے ۔ ایک نئی سیاسی جماعت اسی مقصد کے حصول کیلئے میدان میں
اتاری جا چکی ہے جو اسمبلی میں اسٹیبشمنٹ کے اشاروں پر کسی مخصوص جماعت
کیلئے اپنی حمائت کا اعلان کرے گی۔علیم خان اور جہانگیر ترین کو اس جماعت
کی بھاگ ڈور تھمائی گئی ہے کیونکہ یہ دونوں حضرات کافی عرصہ سے عمران خان
کی ناراضگی کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔۹ مئی کے بعد پی ٹی آئی ایک معتوب جماعت
بن چکی ہے لہذا اقتدار میں اس کی واپسی کے سارے باب بند کئے جا رہے ہیں
۔اشرافیہ اور پی ٹی آئی کا رومانس اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے اور یہی ہماری
ملکی سیاست کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔،۔
|