ہمارے حکمران جو تین تین ارب کے لیے در در کاسہ لیے پھرتے ہیں ان کی شاہ خرچیاں دیکھو سابق وزیر خزانہ کو جب وزارت ملی تو جناب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے گھر کی تزئین و آرائش پر سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے خرچ کردیے۔ بنگلے کی تزئین و آرائش پر تقریبا 48 لاکھ روپے کے اخراجات آئے ہیں۔ اس ہی طرح آصف زرداری نے اپنے دورہ صدارت میں 134 غیر ملکی دورے کیے اور مجموعی طور پر 257 دن ملک سے باہر رہے، اپنے ساتھ 3 ہزار سے زائد لوگوں کو باہر لے کرگئے۔ زرداری کے بطور صدر غیر ملکی دوروں پر ایک ارب 42 کروڑ روپے خرچ ہوئے، آصف زرداری نے ساڑھے چار کروڑ روپے کے تحائف لوگوں کو دیئے اور 2 کروڑ روپے ٹپس کے طور پر دیئے جب کہ 55 کروڑ روپے ان کے ہوٹل میں قیام پر خرچ ہوئے۔ اور نواز شریف 4 سال میں 262 دن بیرون ملک دوروں پر رہے جس پر تقریبا ایک ارب 84 کروڑ روپے خرچ کیے۔ نوازشریف نے 3 کروڑ روپے کی ٹپس دیں اور 6 کروڑ روپے کے تحائف دیئے، نواز شریف نے لندن کے دوروں پر 22 کروڑ روپے سے زائد خرچ کیے، ان میں سے لندن کے 20 دورے ذاتی تھے جن پر سرکاری خرچ ہوا۔ نوازشریف سعودی عرب 12 مرتبہ گئے اور 24 کروڑ روپے خرچ کیے اور ان کے اخراجات میں پی آئی اے کا جہاز استعمال کرنے کا نقصان شامل نہيں ہے، نوازشریف کے پی آئی اے کا جہاز لے جانے سے تقریباً 25 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔
یہ تو ان جماعتوں کے بڑوں کا حال ہے. اس ہی طرح یوسف گیلانی، پرویز اشرف اور شاہد خاقان کے بیرون ملک دروں پر اس ہی طرح شاہ خرچیاں کی گیں کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں عوام بیچاری ٹیڦکس دے دیکر اس نہج پر پہنچ گئی لوگ اپنی غربت سے خودکشیاں کررہے ہیں اور ہمارے پاکستان کے ان بڑوں کے اپنے دور حکومت میں پیسہ کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے کوئی حزب اختلاف جماعت ہو یا سماجی تنظیمیں ان کو روک ٹوک نہیں کرتیں یہ تو پاکستان کے نوجوانوں کے ساتھ کتنی بڑی ناانصافی ہے کہ وہ دربدر نوکری کی تلاش میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور ان سابق حکمرانوں کے اپنے دور میں نہ ختم ہونے تشخے تھے.ان جماعتوں کے اندرون سندھ اور شہری علاقوں کے لوگوں میں یہ ہی تاظر اُبھرتا ہے کہ پاکستانی بزنس مین، سیاست دانوں اور سول بیروکریسی کے پاس پاکستانی نوجوانوں کے لیے کوئی مستقبل کا پروگرام نہیں یہ نوجوانوں نے اپنا مستقبل خود بنانا ہے. یہ تو ہمارے وہ وزیراعظم اور صدر اور وفاقی وزیر کی مثالیں ہیں جب کہ وزیروں کی ظفر موج جو لگی ہوئی اگر اُن کی فضول خرچیاں اور شاہ خرچیاں دیکھو تو کہیں نہیں لگتا کہ ہمارا جیسا ملک اپنے معاشی حالت پر آجکل کس نہج پر ان حکمرانوں نے پہنچادیا
ہے۔
یہ تو ہمارے ملک کی ایک تصویر تھی اب مغرب کے حکمران کی ایک یہ تصویر دیکھو تو اس سے کیا نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ ملک سے اعراپنی عوام سے کون مخلص
وہ اپنی بالکونیوں پر باہر آئی اور پورے ملک میں 6 منٹ تک کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں گئیں۔ اقتدار کے 16 سالوں میں اینجلا مرکل نے اپنے کسی بھی رشتہ دار کو ریاستی عہدے پر تعینات نہیں کیا۔اس نے رئیل اسٹیٹ ، کاریں, پلاٹ اور نجی طیارے نہیں خریدے سولہ سال تک ، اس نے اپنی الماری کا انداز کبھی نہیں بدلا۔ ایک پریس کانفرنس میں ، ایک صحافی نے میرکل سے پوچھا: '' ہمیں احساس ہے کہ آپ نے وہی سوٹ پہنا ہوا ہے ، کیا آپ کے پاس دوسرا نہیں ہے؟ '' اس نے جواب دیا: "میں سرکاری ملازم ہوں ، ماڈل نہیں۔
پھر ایک اور صحافی نے پوچھا: "کپڑے دھونے کا کام کون کر رہا ہے ، آپ یا آپ کے شوہر؟" اس کا جواب تھا: "میں کپڑے ٹھیک کرتی ہوں اور میرا شوہر واشنگ مشین چلاتا ہے۔"
ایک اور پریس کانفرنس میں ، انہوں نے اس سے پوچھا: کیا آپ
کے پاس ایک گھریلو ملازمہ ہے جو اپنا گھر صاف کرتی ہے ، کھانا تیار کرتی ہے ،
وغیرہ۔" اس کا جواب تھا: "نہیں ، میرے کوئی نوکر نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی ضرورت
ہے۔ میرے شوہر اور میں یہ کام ہر روز گھر پر کرتے ہیں۔. محترمہ میرکل کسی دوسرے شہری کی طرح ایک عام اپارٹمنٹ میں رہتی ہیں۔ وہ جرمنی کی چانسلر منتخب ہونے سے پہلے جس اپارٹمنٹ میں رہتی تھیں۔ اس نے اسے آج تک نہیں چھوڑا اور وہ ایک بھی ولا ، مکانات ، تالاب ، باغات، فارم ہاؤس کی مالک نہیں ہے۔ یورپ کی سب سے بڑی معیشت کی چانسلر انجیلا میرکل ہمیشہ اقدار ، بے لوث اصولوں ، حقائق اور ہمدردی سے چلنے والی قیادت کی عظیم مثال رہیں گی کاش آجکل کے ہمارے ملک اور کسی مسلمان ریاست کے حکمران کی بھی ایسی مثال ہوتی! اس دنیا کے کرہ ارض پر جتنے بھی اسلامی ملک اور ان کے حکمران پر نظر دوڑاو تو کوئی بھی حکمران ایسا نظر نہیں آتا جو اپنی بے اخراجات اور شاہ خرچی سے باز آیا ہو اللہ تعالی نے ان اسلامی ملکوں کو بے تحاشا ہر نعمت سے نوازہ ہے مگر ان کی شاہ خرچیاں کی وجہ سے اپنے ملک میں بھی اعر دنیا میں بھی شرمندگی کا پیش خیمہ بنے رہتے ہیں. اللہُ تعالی سے دعا ہی کرسکتے ہیں اللہ تعالی ان سب کو ہر مشکلات سے نکالے ہمارے ملک پاکستان کو عوام کا درد رکھنے والے حکمرانوں کو اس کرسی کے منصب پر بیٹھا جو اس ملک سے غربت، جہالت و پسماندگی سے نجات دلائے اور ملک کو ترقی کے ٹریک پر لیجائے. آمین
|