اﷲ رب العزت کی اِس وسیع و عریض کائنات میں
اُس کی قدرت کی نشانیاں ہر سُو بکھری پڑی ہیں۔ آخری وحی ’قرآنِ مجید‘ جہاں
بنی نوعِ اِنسان کے لئے حتمی اور قطعی ضابطۂ حیات ہے، وہاں اِس کائناتِ ہست
و بُود میں جاری و ساری قوانینِ فطرت بھی اِنسان کو اُلوہی ضابطۂ حیات کی
طرف متوجہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ’قرآنِ مجید‘ خارجی کائنات کے ساتھ ساتھ نفسِ
اِنسانی کے درُوں خانہ کی طرف بھی ہماری توجہ دِلاتا ہے اور اُن دونوں
عوالم میں قوانینِ قدرتِ اِلٰہیہ کی یکسانی میں غوروفکر کے بعد اپنے خالق
کے حضور سربسجدہ ہونے کا حکم دیتا ہے۔ قرآنی علوم کے نور سے صحیح معنوں میں
فیضیاب ہونے کے لئے ہمیں قرآنی آیات میں جا بجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق پر
غور و فکر کرنا ہو گا۔
اِسلام نے اپنی پہلی وحی کے دِن سے ہی بنی نوعِ اِنسان کو آفاق و انفس کی
گہرائیوں میں غوطہ زن ہونے کا حکم دیا۔ یہ اِسلام ہی کی تعلیمات کا فیض تھا
کہ دُنیا کی اُجڈ ترین قوم ’عرب‘ احکامِ اِسلام کی تعمیل کے بعد محض ایک ہی
صدی کے اندر دُنیا بھر کی اِمامت و پیشوائی کی حق دار ٹھہری اور دیکھتے ہی
دیکھتے اُس نے دُنیا کو یونانی فلسفے کی لاحاصل مُوشگافیوں سے آزاد کراتے
ہوئے فطری علوم کو تجربے (experiment) کی بنیاد عطا کی۔ قرآنِ مجید کی
تعلیمات کے زیر اثر یہ اُنہی کے اِختیار کردہ ’سائنسی طریقِ تحقیق‘
(scientific method) کی بنیاد تھی جس کی بدولت ہزار ہا سال سے جاری سلسلۂ
علمِ انسانی نے عظیم کروَٹ لی اور موجودہ صدی نے اُس کا پھل پایا۔
صدی جب کروَٹ بدلتی ہے تو ایک ’ممکن‘ کو ’حقیقت‘ کا رُوپ مل چکا ہوتا ہے۔
پچھلی نسل جس ترقی کی خواہش کرتی تھی موجودہ نسل اُسے کئی منزلیں پیچھے
چھوڑ چکی ہے۔ سائنسی تحقیقات کی موجودہ تیزی نے زمین و آسماں کی پہنائیوں
میں پوشیدہ لاتِعداد حقائق بنی نوعِ اِنسان کے سامنے لا کھڑے کئے ہیں۔ آج
سے کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال پہلے بنی نوعِ اِنسان کے ذِہن میں علم کے موجودہ
عروج کا ادنیٰ سا تصوّر بھی موجود نہ تھا۔ اِنسان یوں جہلِ مرکب میں غرق
تھا کہ اپنی جہالت کو عظمت کی علامت گردانتے ہوئے اُس پر نازاں ہوتا تھا۔
اِسلام کی آفاقی تعلیمات نے اُس دَورِ جاہلیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے ہزارہا
ایسے فطری ضوابط کو بے نقاب کیا جن کی صداقت پر دَورِ حاضر کا سائنسی ذِہن
بھی محوِ حیرت ہے۔
قرونِ وُسطیٰ میں مسلمان سائنسدانوں نے جن سائنسی علوم کی فصل بوئی تھی آج
وہ پک کر جوان ہو چکی ہے اور موجودہ دَور اُسی فصل کو کاشت کرتے ہوئے اُس
کے گوناگوں فوائد سے مُستنیر ہو رہا ہے۔ مسلمان جب تک علمی روِش پر قائم
رہے سارے جہان کے اِمام و مقتدا رہے اور جونہی علم سے غفلت برتی ’ثریا سے
زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا‘۔ اور آج حالت یہ ہے کہ ہمارے اسلاف کا
علمی وِرثہ اپنے اندر ہونے والے بے شمار اِضافہ جات کے ساتھ اَغیار کا
اوڑھنا بچھونا ہے اور ہم اُن کے پیچھے علمی و ثقافتی اور سیاسی و معاشی
میدانوں میں دَر دَر کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
2 جنوری 1492ء کا تاریخی دِن مغربی دُنیا کیلئے علم و فن، تہذیب و تمدّن
اور سائنس و ٹیکنالوجی کا تحفہ لئے طلوع ہوا۔ غرناطہ میں ہونے والی سیاسی
شکست کے بعد مسلم قوم ذِہنی شکست خوردگی کی دلدل میں اُلجھ کر سوگئی اور
عالمِ مغرب مسلمانوں کی تحقیقات و اِکتشافات پر سے اُن کے موجدوں کا نام
کھرچ کر اُنہیں اپنے نام سے منسوب کرنے لگا۔ اِسلامی سپین کی یونیورسٹیوں
میں زیر تعلیم عیسائی و یہودی طلباء مسلمانوں کا علمی وطیرہ اپنے ساتھ اپنے
ممالک کو لے گئے اور ہم غرناطہ میں سیاسی شکست کھانے کے بعد اُسے مقدّر کا
لکھا کہتے ہوئے رو پیٹ کر بیٹھ رہے اور سیاسی میدان میں ہونے والی شکست کے
بعد علمی میدان سے بھی فرار کا راستہ اِختیار کر لیا۔ اَغیار نے ہمارے علمی
وِرثے سے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور سائنسی ترقی کی اوجِ ثریا تک جا پہنچے۔
غفلت کی نیند بے سُدھ پڑی مسلمان قوم کو فقط ایک ٹہوکے کی ضرورت ہے، فقط
اپنی میراث سے شناسائی ضروری ہے، جس روز اِس قوم نے اغیار کے قبضے میں
گھِری اپنی قیمتی متاع کو پہچان لیا یقیناً اپنے کھوئے ہوئے وِرثے کے حصول
کے لئے تڑپ اُٹھے گی، وہ دِن تاریخِ عالم کا سنہری دِن ہوگا۔
بیسوِیں صدی عالمِ اِسلام کے لئے اﷲ ربّ العزت کی بے شمار نعمتیں لئے آئی۔
اِس صدی میں جہاں کرۂ ارضی کے بیشتر مسلمان سیاسی آزادی کی نعمت سے بہرہ
مند ہوئے وہاں علمی میدان میں بھی مثبت تبدیلی کے آثار نمودار ہوئے، لیکن
مسلمان حکمرانوں نے نہ صرف آزادی کے اثرات کو اپنے عوام کی پہنچ سے دُور
رکھا بلکہ صحیح فطری خطوط پر اُن کی تعلیم کا خاطر خواہ اِنتظام بھی نہ
کیا، جس کی وجہ سے قحطُالرجال کا مسئلہ جوں کا توں باقی رہا۔ اِس وقت دُنیا
کی اکانومی کا بڑا اِنحصار تیل پید اکرنے والے مسلمان ممالک پر ہے۔ عرب کی
دولت مسلمانوں کی معاشی اَبتری سے نجات اور عالمی سطح پر سیاسی تفوّق کی
بحالی کے لئے بہترین مددگار ثابت ہو سکتی تھی مگر افسوس کہ وہ بھی شاہی
اللّوں تللّوں میں ضائع ہو گئی اور مِن حیث المجموع اُمتِ مسلمہ اُس سے
کوئی خاص فائدہ نہ اُٹھا سکی۔
عالمِ اِسلام کے موجودہ زوال و اِنحطاط کا بنیادی سبب جہالت، علمی روِش سے
کنارہ کشی اور صدیوں کی غلامی کے بعد ملنے والی آزادی کے باوُجود جاہل
حکمرانوں کا اپنی قوم کو حقیقی علومِ اِنسانی کے حصول میں پس ماندہ رکھنا
ہے۔ نئی نسل کی ذہانت صدیوں سے مسلّط عالمی محکومی کے زیر اثر دب کر رہ گئی
ہے۔ دورِ حاضر کے مسلم نوجوان کے تشکیک زدہ اِیمان کو سنبھالا دینے کی واحد
صورت یہ ہے کہ اُسے اِسلامی تعلیمات کی عقلی و سائنسی تفسیر و تفہیم سے
آگاہ کرتے ہوئے سائنسی دلائل کے ساتھ مستحکم کیا جائے۔ قومی سطح پر چھائے
ہوئے اِحساسِ کمتری کے خاتمے کے لئے ضرورت اِس امر کی ہے کہ نئی نسل کو
مسلمان سائنسدانوں کے کارناموں سے شناسا کیا جائے تاکہ اُس کی سوچ کو مثبت
راستہ ملے اور وہ جدید سائنسی علوم کو اپنی متاع سمجھتے ہوئے اپنے اسلاف کی
پیروِی میں علمی و سائنسی روِش اپنا کر پختہ علمی بنیادوں کے ساتھ اِحیائے
اِسلام کا فریضہ سرانجام دے سکے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ سائنسی علوم جانتا ہے وہ اُتنا
ہی زیادہ اِسلامی تعلیمات سے اِستفادہ کر سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں مستشرقین
کی طرف سے اِسلام پر ہونے والے اِعتراضات کے ٹھوس عقلی و سائنسی بنیادوں پر
جواب کے لئے ’جدید علمِ کلام‘ کو باقاعدہ فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ اِس
سے نہ صرف مغربی اَفکار کی یلغار کی وجہ سے مسلم نوجوانوں میں اپنے عقائد و
نظریات کے بارے میں جنم لینے والی تشکیک سے نجات ملے گی بلکہ غیرمسلم اقوام
پر بھی اِسلام کی حقانیت عیاں ہو گی۔
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی علمی و فکری خدمات رہتی
دُنیا تک کے لئے عالمِ اسلام کا عظیم سرمایہ ہیں۔ خاص طور پر مسلم نوجوانوں
کے اِیمان کی ڈگمگاتی ناؤ کو سہارا دینے کے لئے آپ نے بے شمار عصری موضوعات
پر بھی کام کیا، جس سے نہ صرف نسلِ نو کا اِسلام پر اِعتقاد مضبوط ہوا بلکہ
بہت سے غیرمسلم بھی قبولیتِ اِسلام کے شرف سے بہرہ مند ہوئے۔
عبدالستار (منہاجین)
ریسرچ سکالر
فریدِ ملت (رح) ریسرچ اِنسٹیٹیوٹ، لاہور |