چمگادڑوں کی ایک قسم صرف خون پی کر زندہ
رہتی ہے۔ یہ چمگادڑیں رات کی تاریکی میں اپنے شکار پر نکلتی ہیں اور مچھروں
اور جونکوں کی طرح اپنے شکار پر حملہ کرکے بڑی مقدار میں خون چوس لیتی ہیں۔
چمگادڑوں کی اس قسم کو عموماً خوف اور دہشت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مگر
حال ہی میں ایک سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ان کے لعاب میں ایک ایسا
جزو موجود ہےجو فالج کے علاج میں انتہائی مؤثر ہے۔
تاریک راتوں میں اکثر اوقات چمگادڑوں کی پھڑپھراہٹ انسان کو خوف زدہ کردیتی
ہے۔شاید اسی لیے کئی فلمی مناظر میں، خاص طورپر جادو اور آسیب پر مبنی
فلموں میں خوف کے تاثر کوابھارنے کے لیے چمگادڑوں سے کام لیاجاتاہے۔اور یہ
تصور تو دل دل دہلا دینے کے لیے ہی کافی ہے کہ چمگادڑوں کی ایک قسم ایسی
بھی ہے جو صرف خون پی کر زندہ رہتی ہے۔
خون پینے والی چمگادڑیں زیادہ تر امریکہ، میکسیکو،برازیل ، چلی اور
ارجنٹائن میں پائی جاتی ہیں اور وہ صرف جانوروں کا ہی خون نہیں چوستیں بلکہ
سوتے ہوئے انسانوں پر بھی حملہ کرتی ہیں۔ رات کی تاریکی میں اپنے شکار کی
تلاش میں نکلنے والی ان چمگادڑوں کا وزن تقریباً 40 گرام ہوتا ہے اور وہ
ایک وقت میں لگ بھگ 20 گرام تک خون چوس لیتی ہیں۔
خون چوسنے والی چمگادڑسے اب زیادہ خوف کھانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ
حال ہی میں سائنس دانوں کو معلوم ہوا ہے کہ وہ انسانی جان بچانے کے بھی کام
آسکتی ہیں ، خاص طورپر اسٹروک یا فالج کے حملے کی صورت میں۔
انسان پر فالج کا حملہ اس وقت ہوتا ہے جب دماغ کے کسی حصے میں خون کی
فراہمی رک جاتی ہے۔ دماغ کو زندہ رہنے اور اپنے افعال ادا کرنے کے لیے
آکسیجن اور گلوکوز کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے خون پہنچاتا ہے۔ ہرحصےتک خون کی
بلاروک ٹوک اور فوری فراہمی کے لیے دماغ کے اندر بڑی اور چھوٹی رگوں کا بہت
بڑا جال بچھا ہوا ہے۔
دماغ کے کسی حصے میں خون کی فراہمی صرف دو صورتوں میں رک سکتی ہے۔ اول یہ
کہ وہاں کسی رگ میں خون کا لوتھڑا پھنس جائے یا کسی وجہ سے اس میں خون جم
جائے ،یا پھر کوئی رگ پھٹ جائے اور خون دماغ کے خلیوں تک پہنچنے کی بجائے
بہنا شروع ہوجائے۔ اسٹروک کے تقریباً 80 فی صد مریضوں کا تعلق پہلی قسم سے
ہوتا ہے۔
دماغ کے خلیوں تک جب آکسیجن کی فراہمی گھٹتی ہے تو اس کی کاکردگی متاثر
ہونا شروع ہوجاتی ہے اور آکسیجن کی مکمل بندش کے بعد متاثرہ حصے کے خلیے
صرف چار منٹ تک زندہ رہتے ہیں ۔
انسانی جسم کے ہر عمل کو دماغ کا کوئی مخصوص حصہ کنٹرول کرتا ہے۔کسی حصے کے
خلیے مردہ ہونے سے اس سے منسلک جسمانی حصے تک دماغ سے پیغامات کی ترسیل رک
جاتی ہے اور وہ اپنا کام بند کردیتاہے۔ اس کیفیت کو فالج کہتے ہیں۔
اسٹروک کے مریض کو جتنی جلدی اسپتال پہنچا دیا جائے ، فالج کے حملے میں کمی
اور مریض کے صحت مند زندگی کی جانب لوٹنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے
ہیں۔
اگر اسٹروک کے حملے کی وجہ، دماغ کی رگ میں خون کا انجماد ہوتو اس کا علاج
عموماً خون پگھلانے والے انجکشن سے کیا جاتا ہے۔ان دنوں جو دوائیں استعمال
کی جارہی ہیں، وہ حملے کے چار گھنٹوں کے اندر بہتر نتائج دکھانے کی صلاحیت
رکھتی ہے۔ لیکن اگر فالج کے حملے کو اس سے زیادہ دیر ہوچکی ہو تو پھر اس کے
استعمال سے کوئی خاص آفاقہ نہیں ہوتا۔
فالج کی دوسری قسم کاعلاج، جس کاتعلق کسی رگ کے پھٹنے سے دماغ کے خلیوں کو
خون کی فراہمی رکنے سے ہے،فوری طور پر سرجری کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اس حملے
کی وجہ عمومی وجہ ہائی بلڈ پریشر ہوتی ہے جس کے باعث کمزور رگوں کے پھٹنے
کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
حال ہی میں ایک نئی سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ خون چوسنے والی
چمگادڑوں کا لعاب، ان دواؤں سے کہیں زیادہ مؤثر ہے جو منجمد خون پگھلانے کے
لیے استعمال کی جاتی ہیں، یعنی دگنے سے بھی زیادہ۔ اس سلسلے میں کیے جانے
والے تجربات سے پتا چلا ہے کہ چمگادڑکے لعاب سے تیار کردہ دوا نے ان مریضوں
کو بھی فائدہ پہنچایا جن پر اسٹروک کا حملہ ہوئے آٹھ سے نو گھنٹے گذر چکے
تھے۔
طبی ماہرین کا کہناہے کہ یہ دوا بطور خاص ان مریضوں کے لیے فائدہ مند ہےجن
پر نیند کے دوران فالج کا حملہ ہوتا ہے اور جب وہ بیدار ہوتے ہیں تو فالج
کا اثر ہوئے کئی گھنٹے گذر چکے ہوتے ہیں اورمروجہ دوائیں ان کے لیے فائدہ
مندنہیں رہتیں۔
ٹیلی گراف میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ کے
نارتھ سٹفور شائر کے یونیورسٹی ہاسپٹل کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خون
چوسنے والی چمگادڑ کے لعاب میں ایک مخصوص پروٹین ہوتا ہے جو خون پتلا کرنے
میں انتہائی مؤثر ہے۔چمگادڑ اس پروٹین کی مدد سے اپنے شکار کا خون پتلا
کرتی ہے تاکہ اسے چوسنے میں آسانی رہے۔
اس سلسلے میں جاری ریسرچ میں شامل ایک ماہر ڈاکٹر کرسٹین کاکہناہے کہ اس
پروٹین سے تیار کی جانے والی دوا کو تجرباتی طورپر لندن، نیو کیسل، بورن
ماؤتھ ، گلاسگو، لیورپول سمیت برطانیہ کے 40 اسپتالوں میں 400 کے لگ بھگ
مریضوں پر آزمایا جاچکاہے اور اس کے نتائج بڑے حوصلہ افزا رہے ہیں۔
ڈاکٹر کرسٹین کا کہناہے کہ اگرچہ ابھی یہ تجربات اپنے ابتدائی مراحل میں
ہیں، لیکن یہ اسٹروک کے علاج میں ایک نمایاں پیش رفت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ |