حزب اختلاف کا اتحاد بی جے پی کے لیے باعثِ تشویش نہیں
ہونا چاہیے کیونکہ وہ بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ایک پارٹی ہے ۔ وہ
چونکہ اقتدار میں ہے اس لیے اس کے خلاف حزب اختلاف کا اتحاد ایک فطری عمل
ہے۔ ا س سے پریشان ہونے کے بجائے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ بی جے پی کی
قیادت اگر حزب اختلاف سے یہ توقع کرتی ہے کہ وہ ان کی مخالفت کے بجائے
تائید کرے گا تو یہ اس کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ یہ لوگ جب اقتدار میں نہیں
تھے تو وہی سب کرتے تھے جو فی الحال اپوزیشن کررہا ہے۔ اس پر انہیں اعتراض
نہیں ہونا چاہیے۔ شاہ جی کرناٹک ، مدھیہ پردیش، گوا اور مہاراشٹر میں دولت
کے زور پر عوام کے ذریعہ منتخبہ حکومت گرانے کا جو کام کیا قوم کے مفاد میں
نہیں بلکہ پارٹی کے فائدے کے لیے تھا۔ بی جے پی نے این ڈی اے نام کا ایک
اتحاد قائم کررکھا ہے۔ ہریانہ اور مہاراشٹر میں دوسری جماعتوں کے اشتراک سے
حکومت بنائی گئی ہے۔ ماضی میں نتیش کمار اور محبوبہ مفتی کے ساتھ حکومت
سازی کی گئی تھی؟ شاہ جی کا کانگریس مکت بھارت کا نعرہ چانکیہ نیتی ہو اور
حزب اختلا ف بھارت کو بی جے پی مکت کرنے کی کوشش کرے تو اسےاقتدار پرستی
کہلائے یہ دوغلا پن ہے۔ اپنے لیے سیاسی راس لیلا کو جائز ٹھہرا کر حزب
اختلاف پر کیریٹر ڈھیلا ہونے کا الزام بزدلی ہے۔
بہار کے رہنے والے سابق وزیر قانون روی شنکر پرساد نے پٹنہ میں حزب اختلاف
کی میٹنگ پر ردعمل ظاہر کرتے کہا کہ اس مشق سے اپوزیشن کو کوئی فائدہ نہیں
ہوگا کیونکہ وزیر اعظم مودی کے مقابلے میں ان کے پاس کوئی چہرہ نہیں ہے۔
گودی میڈیا اسے پکڑ کر بار بار دوہراتا رہاکہ حزب اختلاف کے پاس کو مودی
جیسا ہنستا ہوا نورانی چہرا نہیں ہے۔ یہ لوگ بھول گئے کہ ملک میں صدارتی
نظام نافذ العمل نہیں ہے ۔یہاں افراد کی نہیں بلکہ این ڈی اے اور پی ڈی
اےکے درمیان مقابلہ ہوگا۔ہر حلقہ ہائے انتخاب سے امیدواروں کو کامیاب کرنا
پڑےگا۔ اگلے قومی انتخاب میں اگر این ڈی اے ہار جائے تو مودی جی از خود
اقتدار سے بے دخل ہوجائیں گے ۔ ان کو اپنا روتا ہوا ویرانی چہرا لے کر احمد
آباد کوچ کرجائے گا۔ اس لیے چہرے کی بحث بے معنیٰ ہے۔ ویسے 53؍ سال قبل
آنند بخشی نے لکھا تھا ’دل کو دیکھو چہرا نہ دیکھو، چہرے نے لاکھوں کو
لوٹا ، دل سچا اور چہرا جھوٹا ، دل سچا اور چہرا جھوٹا ‘
روی شنکر پرساد نے مشورہ دیا کہ اپوزیشن لیڈران اس طرح کی میٹنگوں میں وقت
ضائع کرنے کے بجائے اگر عوام سے رابطےمیں رہیں تو انہیں فائدہ ہو گا۔ اس
مشورے کی سب سے زیادہ مستحق ان کی اپنی بی جے پی ہے اس لیے کہ اقتدار کے
نشے میں وہ عوام سے کٹ چکی ہے اور اس کی بہت بڑی قیمت اسے کرناٹک میں چکانی
پڑی ہے۔ بی جے پی والوں کو فرقہ واریت کو فروغ دے کر اپنی نااہلی چھپانے کے
سوا کچھ نہیں رہ گیا ہے۔ عوام کی خدمت کرکے قریب کرنے کے بجائے وہ حزب
اختلاف کے رہنماوں پر ای ڈی اور سی بی آئی چھاپے ڈال کرعام لوگوں کو ان
کاہمدرد اور ہمنوا بنارہی ہے۔ روی شنکر پرساد کے مطابق بہار کے وزیر اعلیٰ
نتیش کمار دن میں خواب دیکھ رہے ہیں کہ اپوزیشن کا اتحاد انہیں مرکز میں
کوئی بڑی پوزیشن دلوادے گا۔ یہ خواب ہے یا حقیقت اس کا فیصلہ تو مستقبل میں
ہوگا مگر حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں کے اتحاد کا خواب تو نتیش کمار شرمندۂ
تعبیر کرچکے ہیں ۔ اس نے بی جے پی کی نیند اڑا دی ہے۔
بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ سشیل کمار مودی نے اپوزیشن اتحاد کو نشانہ
بناتے ہوئے کہا کہ اس میٹنگ کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ ایک نئی تاریخ دے دی
گئی ۔ اس کے علاوہ نہ سیٹوں کے بٹوارے اور نہ وزیر اعظم مودی سے مقابلہ
کرنے والے لیڈر کے نام کا اعلان کیا گیا ۔ بی جے پی والوں کے اعصاب پر وزیر
اعظم نریندر مودی سوار ہے ۔ وہ اس سوال پر غور ہی نہیں کرنا چاہتے کہ پی ڈی
اے کا مقابلہ این ڈی اے کیسے کرے گا بلکہ ہر کوئی وزیر اعظم کے مقابلے میں
کون ہوگا ؟ اس کو لے کر پریشان ہے۔ سشیل کمار مودی کے مطابق یہ میٹنگ
بلوائی ہی اس لئے گئی تھی تاکہ سیٹوں کا بٹوارہ ہو سکے لیکن اس میں کوئی
فیصلہ نہ ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہیا ۔ ایک نشست
میں تو بی جے پی بھی اپنے امیدواروں کا فیصلہ نہیں کرپاتی اور وہ اس کا
اعلان کئی قسطوں میں ہوتا ہے ایسے میں ایک وفاق سے یہ توقع کرنا کہ وہ دس
ماہ قبل آناً فاناً کسی نتیجے پر پہنچ جائے گا ہتھیلی پہ سرسوں جمانے جیسا
ہے۔ سشیل کمار مودی نے امید ظاہر کی کہ بھان متی کا یہ کنبہ بہت جلد بکھر
جائے گا۔ روی شنکر پرشاد کی دن دہاڑے خواب دیکھنے والی مثال سشیل مودی پر
صادق آتی ہے۔ انہیں بی جے پی نے سیاست میں حاشیے پر ڈال دیاہے اس لیے ان
کو بھان متی کے کنبے میں شامل ہوکر اپنا مستقبل روشن کرنا چاہیے لیکن اس کے
لیے سیاسی سمجھ بوجھ اور بابو جگجیون رام کی طرح بغاوت کرنے کا حوصلہ درکار
ہے۔
حزب اختلاف کی آنچ سے وزیر اعظم نریندر مودی کے سوا جو امریکہ میں تھے ہر
کوئی متاثر ہوا ۔اڑیشہ کے کالاہندی ضلع میں بھوانی پٹنہ کے اندر ایک جلسہ
عام سے خطاب کرتے ہوئے بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے کہا، "آج سیاست میں
عجیب چیزیں ہو رہی ہیں۔ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی طرف سے جیل میں بند
لیڈروں نے اب ان کے پوتے راہل گاندھی سے ہاتھ ملا لیا ہے۔" انہوں نے انکشاف
کیا کہ پرساد کو 22 ماہ تک جیل میں ڈالا گیا، جب کہ کمار 20 ماہ تک جیل کی
سلاخوں کے پیچھے رہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا نڈا جی چاہتے ہیں سیاسی
اختلافات نسل در نسل آگے بڑھیں ۔ نڈا جی بھول گئے کہ جنتا پارٹی سے جن
سنگھ کا بوریا بستر گول کر کےبھگانے والے جارج فرنانڈیس کواٹل جی نے وزیر
دفاع بنایا تھا ۔ لالو پرشاد یادو نےجب اڈوانی جی کا رام رتھ روک کر انہیں
گرفتار کیا تو نتیش کمار بھی لالو پرشاد یادو کے ساتھ تھے۔ اس کے باوجود بی
جے پی نے انہیں وزیر ریلوے بنایا اور پھر ان کی بہار حکومت میں شامل ہوئی ۔
یہ سب تو براہِ راست انہیں لوگوں کے ساتھ ہوا جو دشمن تھے اس لیے پرانی
نسلوں کی بات کرنا بے معنیٰ ہے۔
جے پی نڈا نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ مودی خاندانی سیاست کے سخت مخالف
ہیں ۔ یہ بات اگر سچ ہے تو وہ دوچار قابلِ ذکر رہنماوں کے نام بتادیں جن کے
بیٹے براہِ راست سیاست یا سرکاری اداروں میں بیٹھ کر عیش نہیں کررہے ہیں۔
امیت شاہ کا بیٹا بی سی سی آئی کا سربراہ بناہوا ہے۔سبھی سابق وزرائے
اعلیٰ اپنے بیٹوں کو انتخاب لڑا رہے ہیں ۔ پہلے وجئے راجے سندھیا کی بیٹی
وسندھرا راجے سندھیا وزیر اعلیٰ تھیں اب ان کے کانگریسی بھائی کا بیٹا
جیوتر دیتیہ سندھیا مرکزی وزیر ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کانگریس عالمی
لیڈروں کی طرف سے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کو ہضم کرنے سے قاصر
ہےحالانکہ بی جے پی کے لیے راہُل گاندھی مقبولیت کو پچانا مشکل ہورہا ہے ۔
نڈا بولے ’’میں نے ادھو ٹھاکرے کو اپوزیشن کی میٹنگ میں شرکت کے لیے پٹنہ
پہنچتے دیکھا۔ ان کے والد 'ہندو دل سمراٹ' بالاصاحب ٹھاکرے ہر وقت کانگریس
کے مخالف تھے‘‘۔ یہ نڈا جی کی کم علمی ہے ۔ وہ جس ایمرجنسی کی یاد دلا کر
لالو یادو اور نتیش کمار پر طنز کس رہے تھے اس کی بالاصاحب ٹھاکرے نے حمایت
کی تھی۔ اس دوران آر ایس ایس اور جن سنگھ کے سارے بڑے رہنما جیل بھیج دیئے
گئے تھے ۔ اس کے باوجود بی جے پی نے شیوسینا اور بال ٹھاکرے کے ساتھ ہاتھ
ملا لیا۔
ادھو ٹھاکرے نے ان پر کی جانے والی تنقید کا منہ توڑ جواب دیتے بی جے پی کو
شیطان قرار دیا اور کہا اس شیطان کو دفن کرنا ضروری ہے اور اسی لئے ملک کی
جمہوریت پسند پارٹیاں متحد ہو رہی ہیں۔ محبوبہ مفتی کے ساتھ بیٹھنے پر
اعتراض کے جواب میں ادھو نے کہا کہ محبوبہ مفتی کے بازو میں تو نریندر مودی
اورامیت شاہ بھی بیٹھے تھے اور وہ ان کے ساتھ کشمیر میں سرکار چلاچکے
ہیں۔ادھو ٹھاکرے نے نواز شریف کے ساتھ مودی کی تصویر بھی مجمع کو دکھاتے
ہوئے کہاکہ اگر مَیں نے گناہ کیا ہے تو بی جےپی کے لیڈروں کو یہ بھی کہنا
چاہئے کہ پہلے ان کے لیڈروں نے گناہ کیا تھا ۔ انہوں نے کہامیرے پاس اس طرح
کی تصویروں کا البم ہے۔ مَیں جان بوجھ کر محبوبہ مفتی جی کے بازو میں بیٹھا
تھا۔اگر مَیں نے ان سےملاقات کر کےکچھ غلط کیا ہے تو بی جے پی یہ بتائے ان
کے ’مہان ‘ لیڈروں نے کیا کیا ؟ ادھو ٹھاکرے نے یہ انکشاف بھی کیا کہ جب
انہوں نے محبوبہ مفتی سے پوچھا کہ آپ نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیوں کیا
تھا ؟تو جواب تھا ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ دفعہ 370؍ نہیں ہٹائیں گےلیکن
ان لوگوں نے وعدہ خلافی کی۔ یہی معاملہ ادھو ٹھاکرے کے ساتھ ہوا کہ پہلے تو
ڈھائی سال اقتدار میں اشتراک سے وہ پلٹ گئی اور ان کی پارٹی کو توڑ دیا۔
ویسے بی جے پی کے رہنماوں کی یہ بوکھلاہٹ گواہ ہے کہ انہیں اپنے پیروں کے
نیچے سے اقتدار کھسکتا ہوا محسوس ہونے لگا ہے ۔
|