کراچی ایک میگا سٹی ہے اور اس کے مسائل بھی اسی لیے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں ، کراچی
پر حکمرانی کرنے والوں نے ہی کراچی کے انفرااسٹکچر کو تباہی کی طرف دھکیلا ہے، دنیا
میں یہ ضرب المثل مشہور ہے کہ کسی بھی قوم کے مزاج کا اندازہ لگانا ہو تو ان کے
ٹریفک کا سسٹم دیکھو۔ پاکستان میں ہر سال تقریبا دس ہزار سے زیادہ افراد ٹریفک
حادثات کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں سے نو ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے
ہیں۔ ہمارے ملک میں قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کروانے کے لیے سسٹم
شائید ناپید ہوگئے ہیں یا کرنا نہیں چاہتے. ایسے معاشرے میں جہاں قانون کی پاسداری
کرنے والوں کو احمق سمجھا جائے تو پھر ہنگامی بنیادوں پر قانون کی بالادستی کو قائم
کرنے کے لیے تمام چیزوں کو بالائے طاق رکھ کر قانون کی رٹ نافذ کرنا وقت کی ضرورت
ہوتی ہے جو بدقسمتی سے ہمارے یہاں بالکل ہی ناپید ہوگئی ہے. موجود ٹرانسپورٹ کے
نظام میں کراچی کا نظام دنیا کے بدترین ٹریفک کے نظام میں اب اس کا شمار ہونے لگا
ہے۔
بلومبرگ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا کے 100 شہروں میں۔
کراچی میں بننے والے لیاری ایکسپریس وے کی مثال لیتے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد چند
ہزاروں گاڑیوں کے لیے سفر کا وقت کم کرنا تھا۔ یہ منصوبہ 23 ارب روپے کی لاگت سے
مکمل ہوا اور اس کی تعمیر کے سبب 2 لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ 42 ارب روپے
کی لاگت سے ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کا آغاز ہونے جارہا ہے۔ اس کا مقصد سپر ہائی
وے پر واقع بڑے تعمیراتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو سہولت فراہم کرنا
ہے۔ (اس منصوبے سے بھی وہی دو فیصد حلقہ مستفید ہوگا جو 74 سالوں سے مستفید ہوتا
آیا ہے .) کراچی میں سڑکوں کا جال تقریباً 10ہزار کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ ایک
رپورٹ کے مطابق 2016 کے دوران کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی لاکھوں رجسٹرڈ گاڑیوں کے
لیے آدھی تعداد میں بھی لائسنس جاری نہیں ہوئے تھے۔2017 کے کراچی میں رجسٹرڈ
پرائیویٹ گاڑیوں کی تعداد 12لاکھ 42 ہزار 231 ہے۔
کراچی میں پورے پاکستان کا ٹریفک کا ایک تہائی سے زائدہ ٹریفک کراچی کی سڑکوں پر
رواں دواں ہے . کراچی شہر کی آبادی تین کروڑ سے ذائد پہنچ گئی ہے اور گاڑیوں کی
تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے اس کے مطابق آبادی اور ٹریفک کے مناسبت سے
نہ تو ٹریفک پولیس کا عملہ ہے اور نہ ہی وسائل اور ایسے میں جب لوگ بھی ٹریفک
قوانین کا احترام نہیں کرتے تو مسائل میں مزید اضافہ بڑھ جاتا ہے. کراچی میں بلڈرز
بڑی بڑی عمارتیں بناتے ہیں لیکن نقشے کے مطابق پارکنگ وغیرہ نہیں بناتے اور یہ سب
مختلف اداروں سے مل کر وہ کام کراچی میں ہوجاتے ہیں جو دنیا میں کہیں اور نہیں
سڑکوں پر روزانہ دو سو گاڑیوں کا اضافہ ہورہا جس سے یقیناً سڑکوں پر گنجائش سے
زیادہ ٹریفک چل رہی ہے۔ لیکن ایسے میں جہاں ٹریفک پولیس کی ذمہ داری ہے اس سے کہیں
زیادہ عام لوگوں کو بھی احساس ذمہ داری کرنا ہوگا ورنہ کسی بھی طرح شاید مسائل میں
کمی ممکن نہیں ہوسکے گی کراچی میں 75 فی صدحادثات میں موٹرسائیکل قصوروار ہوتے ہیں۔
آپ کراچی کے کسی بھی مصروف اشارے، کراسنگ، یو ٹرن، حتیٰ کہ کسی بھی ریلوے پھاٹک پر
چلے جائیں ۔ آپ کو ایک ہی نظارہ دیکھنے کو ملے گا۔وہ یہ کہ تقریباَ تمام ہی موٹر
سائیکل سوار (بشمول فیملی) ٹریفک قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سب سے آگے جمع
نظر آتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان میں معزز اور پڑھے لکھے اور اکثر باریش
افراد بھی ٹریفک قوانین کی پاسداری کرتے نظر نہیں آتے یا انہیں قوانین سے آگاہی
نہیں ہوتی اگر شروع ہی سے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لئے تحریری اور عملی امتحان
لازمی ہوتے تو یہ دِن نہیں دیکھنا پڑتے. اس سے کہیں زیادہ عام لوگوں کو بھی احساس
ذمہ داری کرنا ہوگا ورنہ کسی بھی طرح شاید مسائل میں کمی ممکن نہیں ہوسکے گی۔
اس ہی طرح سڑکوں پر آئے دن گاڑیوں کا خراب ہونا، ایکسڈنٹ ہونا، گدھا گاڑیوں کی کم
رفتار، سائیکل، موٹر سائیکل کا اچانگ سڑک کے بیچوں بیچ آجانا، پیدل چلنے والے حضرات
کا اچانک تیز رفتار گاڑیوں کے سامنے سے سڑک پار کرنا، سڑکوں پر آۓ دن جلوس نکالنا
وغیرہ وغیرہ کی وجہ سے ٹریفک جام روز کا معمول بن گیا ہے اور ڈرائیورز کا ٹریفک کے
قوانین سے لاعلم ہونا معاشرے کا دردِ سر بنتا جا رہا ہے۔ اسی طرح ماحول میں پلوشن
بھی اس ٹریفک کی وجہ سے اتنا بڑھ گیا ہے کہ کئی لوگوں کو گلے اور آنکھوں کی سوزش
رہنے لگی ہے۔ رات کی ٹریفک میں ہیڈ لائٹز کا استعمال جو کہ باقی ساری دنیا میں ایک
سنگین جرم ہے، وطنِ عزیز میں بلا خوف و خطر کیا جاتا ہے جس سے سامنے سے آنے والی
گاڑی کے ڈرائیور کی آنکھوں میں روشنی کی شدت سے ڈرائیور کے لیے گاڑی چلانا شدید
خطرہ بن جاتا ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں لوگ گاڑیاں چلاتے ہیں بلکہ بہت سے ممالک ہمارے
ملک سے حجم میں بہت چھوٹے ہونے کے باوجود ہم سے زیادہ گاڑیوں چلا رہے ہیں لیکن وہاں
ٹریفک کے حادثات کی شروع اور ٹریفک جام ہمارے ملک کی نسبت بہت کم ہے۔ لیکن اس بے
ہنگم ٹریفک نے لوگوں کی اس آزادی کو سلب کر رکھا ہے۔
بڑی اور چوڑی سڑکیں اس مسئلے کا حل کبھی نہیں ہو سکتیں بلکہ زیادہ راستے اور سڑکیں
اس مسئلے کا حل ہیں شہروں کو ٹریفک پر تقسیم کرنا چاہیے. انڈسٹری ایریاز کےلیے رنگ
روڈ کو یقینی بنایا جائے تاکہ کہ ہیوی ٹرانسپورٹ کا شہر میں بے جا استعمال بند ہو ۔
پبلک ٹرانسپورٹ سروس کا جال بچھایا جائے اور کراۓ مناسب رکھے جائیں تاکہ لوگ
سکوٹروں اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال زیادہ سے زیادہ
کریں. پبلک ٹرانسپورٹ کے راستے کو بھی الگ ٹریک دینا چاہیے اور اسی ٹریک کو
ایمبولنس اور فائر بریگیڈ اور پولیس کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ شہر کی سڑکوں کے
ٹریک ایک گاڑی کی چوڑائی سے زیادہ نہیں ہونے چاہییں تاکہ کراسنگ کا امکان نہ رہے جس
سےایک ہی قطار میں چلنے سے اورٹیک کرنے کے دوران ہونے والے حادثات کا خاتمہ ہو۔
مختلف فیکٹریاں جہاں 24 گھنٹے کام ہوتا ہے ان کی شفٹوں کے اوقات میں تبدیلی کر کے
ٹریفک کے رش میں کمی کی جا سکتی ہے مختلف سکولوں کے ٹائم میں تبدیلی کر کے اور
بازاروں کی ٹائمنگ میں بھی کچھ تبدیلی کر کے اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق دوران کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی لاکھوں رجسٹرڈ گاڑیوں کے لیے
آدھی تعداد میں بھی لائسنس جاری نہیں ہوئے تھے۔کراچی میں رجسٹرڈ پرائیویٹ گاڑیوں کی
تعداد 12لاکھ42ہزار 231ہے۔ پچھلے چند برسوں سے شہر کے مختلف علاقوں شیر شاہ، لیاری،
سعیدآباد، ملیر، کیماڑی ،لانڈھی،کورنگی، منگھو پیر،اورنگی ٹاؤن، گلشن اقبال ،
گلستان جوہر، بھٹائی آباد ، سچل گوٹھ ،محمود آباد، اختر کالونی اور اس طرح کی دوسری
کچی پکی آبادیوں کے اندرونی راستے بھی اس قابل نہیں کہ ان پر کوئی چھوٹی گاڑی رکشہ
یا ٹیکسی آسانی سے رواں دواں رہ سکے مگر کراچی کی سڑکوں پر سامان سے لدے ٹریلر اور
ٹوٹے پھوٹے واٹر ٹینکر اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جس طرح شہریوں کی جان سے کھیلتے
ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کراچی کی سڑکیں سی پیک منصوبے سے جڑی ہوں یا سندھ
حکومت ان کی بہتری کے لیے کوشاں ہو جب تک اس سے جڑی ٹریفک کی تمام مشکلات پر قابو
نہیں پایا جاتا ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ نہ تو ہم کاروباری طور پر قدم سے قدم ملا
کر چل سکتے ہیں اور نہ ہی مہذب دنیا سے اپنا رشتہ استور کر سکتے ہیں۔آ
|