حیفا سے بنی گالہ تک

عربوں کی کہاوت ہے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو دھوتا ہے

قادیانیوں نے 1925 میں شام میں اپنا مرکز بنایا تو شامی مسلمانوں نے انھیں بھی اسلام کے فرقوں میں سے ایک فرقہ سمجھامگر شام پر قابض فرانسیسیوں کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ چند درجن، نووارد افراد نے قلیل مدت میں ہی اعلی سرکاری افسران سے سماجی تعلقات استوار کر لیے تھے۔ ان کی تنظیم اور مالی خوشحالی نے بھی حکمرانوں کو چونکا دیا۔ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جانے لگی اور سترہ مارچ 1928 کو فرانس نے اس گروہ کوچوبیس گھنٹوں میں ان کی حکمرانی کی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا۔ہندوستان کے شہر لدھیانہ سے تعلق رکھنے والے مربی کی سربراہی میں یہ لوگ شام سے برطانیہ کے زیر تسلط فلسطین کی بندرگاہ حیفا پر اترے۔ جہاں سے انھیں جبل الکرمل پر واقع قصبے الکبابیر میں لے جا کر بسا دیا گیا۔

یہ وہ دور تھا جب مقامی فلسطینی اپنے مخدوش مالی و سیاسی حالات کی وجہ سے اپنی زمینیں فروخت کر رہے تھے۔ لدھیانہ کی ہدایت اور تعاون سے اس جماعت نے فلسطینوں میں یہ مہم چلائی کہ زمین یہودیوں کی بجائے انھیں فروخت کی جائے۔ پراپرٹی فلسطینوں سے خرید کر یہودیوں کو فرخت کرنے کا دہندہ ایسا منافع بخش ثابت ہواکہ ہندوستان میں لدھیانہ کے مرکز کی دولت میں اضافے کے ساتھ ساتھ خود یہ مرکز مالی طور پر خوشحال ہوا۔ اپنی عبادت گاہ اور اسکول بھی بنا لیا۔ 1935 تک ان کا اپنا پرنٹنگ پریس قائم ہو چکا تھا اور ان کا تبلیغی رسالہ البشری بھی باقاعدگی سے پرنٹ ہونا شروع ہو گیاجو اس وقت اسرائیل میں موجود بائیس دوسرے مراکز کے ذریعے پورے اسرائیل میں تقسیم کیا جاتا تھا۔

1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد یہ مرکز اس قدر مضبوط ہو چکا تھا کہ اسرائیل کے ہمسائیہ ممالک میں موجود مراکز کو کنٹرول کرتا تھا۔ حتی کہ دمشق مرکز بھی اسی کا مرہون منت تھا۔ یہاں سے ارد گرد کی مذہبی، سماجی، سیاسی اور معاشی سرگرمیوں کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔

عربوں کی کہاوت ہے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو دھوتا ہے۔ 1974 میں نیو یارک سے شائع ہونے والی ایک کتاب میں انکشاف کیا گیا کہ ابتر دور میں اس مرکز نے اسرائیل کو اپنے 600 لوگ فوج میں بھرتی ہونے کے لیے دیے(1975 میں یہ تعداد 800 تھی)۔ اسرائیل نے ملک بھر میں اذان سمیت اسلامی شعائر پر پابندی لگا دی مگر اس مرکز کو (اپنی اذان) جاری رکھنی کی اجازت تھی۔

2008 میں امریکی صدر بش نے جب حیفا کا دورہ کیا تو اس مرکز کے سربراہ سے ملاقات کی۔ جس کے بعد اسرائیلی صدر شمعون پریز نے اپنے حیفا کے دورے کے دوران اس مرکز میں منعقدہ اجتماع میں خصوصی شرکت کی۔ ان دو ملاقاتوں کے بعد اس مرکز کی سرگرمیوں کوتل ابیب میں سرکاری سطح پر اجاگر کر کے دکھایا جانے لگا۔واشنگٹن اور تل ابیب میں اہمیت حاصل کرنے کے بعد اس مرکز نے سفارتی میدان کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا شروع کیا تو اس کے سرپرستوں اور بڑوں نے اس کو موقع فراہم کیا۔

اسلام آباد میں عمران خان کی حکوت قائم ہو چکی تھی۔ بتایا جاتا تھا ملک کی طاقتوربیوروکریسی اور عدلیہ عمران خان کے ساتھ ایک پیج پر ہے۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی ایک ممبر نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات بھی کی۔ مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کی مثال پیش کی۔ عمران خان کی کابینہ کے ممبران نے عوام میں پرچار بھی کیا۔ رائے عامہ ہموار کرنے والے لکھاریوں کو میدان میں اتارا گیا۔ بحث چل نکلی تواکتوبر 2018 میں ایک نجی طیارہ تل ابیب سے براستہ عمان اسلام آباد آیا۔یہ مذکورہ مرکز کا پہلا ٹیسٹ کیس تھا۔ عوامی رد عمل اس قدر سخت تھا کہ صدر عارف علوی تردیدی بیان جاری کرنے پر مجبور ہوئے۔

معاشی طور پر مقروض، سماجی طور پر کرپٹ ہونے کے باوجود یہاں کے صحافی اس قابل ہیں کہ آصف علی زرداری اور شہید بی بی کے نکاح کے موقع پر جنت مکین ارشاد حقانی نے پیشن گوئی کی کہ آصف ملک کے صدر بن سکتے ہیں۔ اور جب اوسامہ بن لادن کا کھوج لگانے کے لیے دنیا بھر کی ایجنسیاں جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس سرگرم عمل تھیں تو حامد میر نے اس کاانٹرویو کرکے دنیا بھر کو حیران کر ڈالا۔ اسی دیس کے صحافیوں نے حیفا میں موجود اس مرکز کے رابطے ہی نہیں اس کے سرپرستوں اور مالکان کو بھی کھوج نکالا۔ اس مرکز کے سرپرستوں، ہمدردوں اور مقامی سہولت کاروں کو بھی بے نقاب کرنا شروع کر دیا۔عمران خان کے غیر ملکی فنڈنگ، تحریک انصاف میں قادیانیوں کے کردار، ریاستی اداروں میں قادیانی کی خفیہ موجودگی کے انکشاف نے ریاست کو حکومت سے دور کرنے میں بنیادی کردار ادا گیا۔ 2022 میں قومی اسمبلی سے عدم اعتماد کے بعد عمران خان کے ساتھیوں نے ان سے دوری اختیار کرنا شروع کی تو عمران خان کا رد عمل سیاسی سے مزاحمتی ہونا شروع ہو گیا۔ ان پر نااہلی، اقرباء پروری ، مالی خیانت ، اور اخلاق باختی کے الزام لگنا شروع ہوئے تو رد عمل بھی سخت ہوتا گیا۔ لاہور اور اسلام آباد میں درجنوں پولیس اہلکاروں کو کامیابی سے زخمی کرنے اور کچھ کو جان سے مار دینے پر قانون کی خاموشی سے شہہ پاکر 9 مئی 2023 کو افواج پاکستان کی دو سو زیادہ تنصیبات پر بیک وقت حملہ کر کے سوشل میڈیا پر یہ بیانیہ بنایا کہ مقابلے میں ایک آرمی چیف اور اس کے ساتھی چار جرنیل ہیں۔اور یہ کہ عدلیہ، فوج اور پولیس سمیت عوام میرے ساتھ ہے۔ سوشل میڈیا پرمتحرک ان کی ٹیموں نے تین سو سے زیادہ چاٹ بوٹس کے بل بوتے پر چند ساعتوں میں یہ بیانہ دنیا بھر میں پھیلا دیا۔مگر عوام میں یہ بیانیہ مقبول نہ ہو سکا۔ تازہ ترین واقعہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب کی پاکستان میں انسانی حقوق پر تبصرہ ہے۔تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر متحرک مجاہدین اس بیان کو بین الاقوامی تنقید بتا کر عمران خان کی کامیابی بتا رہے ہیں جبکہ عوام برطرف وزیر اعظم عمران خان کے قادیانی جماعت سے اور قادیانی جماعت کے اسرائیل سے تعلقات کی نوعیت پر بحث کر رہے ہیں۔

حیفا میں موجود قادیانی مرکز کی سفارت کاری کے بعد جو جہاز اسلام آباد ہو کر واپس گیا تھاس کی واپسی شائد اب عشروں تک ممکن نہ ہو۔
 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 169314 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.