زاویہ

پہلے تو میں آپ سب کی معافی کا طلبگار ہوں اتنے دن منظرعام سے غائب ہونے کے بعد آج کچھ قلم سے لکھنے کی جسارت کی ہے بیچ میں کئی مواقع آئے جب میں نے سوچا کہ کچھ نہ کچھ لکھا جائے لیکن وقت کی کمی اور حالات نے میرا ساتھ نہ دیا خیر موضوع کی طرف واپس آتے ہیں اکثر آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہوگا کہ آپ کوئی چیز ڈھونڈ رہے ہوں گے اور اس چیز کی تلاش میں کسی ایسے انسان کی مدد لیں جس کو پتہ ہو کہ وہ چیز کہاں ہے وہ آپ کو جگہ کی نشاندہی کرے بتائی ہوئی جگہ پر آپ وہ چیز پھر تلاش کریں پھر بھی آپ کو نہ ملے تو وہ شخص جس نے نشاندہی کی ہو وہ جگہ آئے اور وہ اسی جگہ سے آپ کو تلاش کر کے دے دے قوم انسان پریشان ہو جاتا ہے میں نے ابھی تو یہاں دیکھا تھا کچھ بھی نہیں تھا لیکن اس کو مل گیا میری نظر میں یہ سب زاویے کی بات ہوتی ہے۔

جس زاویے سے سیاست شخص معاشرہ دنیا یا کسی بھی چیز کو دیکھتا ہوں ضروری نہیں کہ آپ بھی اسی زاویے سے ان چیزوں کو دیکھیں ہر کسی کہ دیکھنے کے زاویہ الگ الگ ہو سکتا ہے۔

اب آج کل کی ملکی صورتحال پر بات کر لیتے ہیں۔ ج کل اسلام اباد کی فضا میں یہ خبریں گردش میں ہیں کہ نگراں حکومت کی مدت ائین میں تجویز کردہ وقت سے کسی طرح بڑھا دی جائے جو اب کوئی نئی چیز نہیں رہی یہ چیز ہم پنجاب اور پختون خواہ میں بھی دیکھ رہے ہیں اور یہ سب کسی ایک کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ہو رہا ہوتا ہے اور میرے تجزیے کے مطابق اس میں طول اور شدت بڑھتی جائے گی اور اگر ہو سکا تو الیکشن جب بھی ہوئے کسی ایک کو سیاست کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ب یہ باتیں کاغذوں میں تو اپ منوا لیں گے لیکن لوگوں کو کس طرح منوائیں گے پھر وہی بات ہے زاویے کی کہ ہمارے معتبر طبقہ جس زاویے سے ان چیزوں کو دیکھ رہا ہے اس زاویے سے لوگ نہیں دیکھ رہے۔

اسی زاویےکا مسئلہ ہمارے سیاستدان میڈیا اور اس میڈیا میں بھی تشہیری اور بالخصوص برقی میڈیا اور ہمارے مقتدر حلقوں میں نظر آرہا ہے یہ عوام کے اوپر اپنا زاویہ مسلط کرنا چاہ رہے ہیں جو میری نظر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ یہ بری طرح سے ناکام ہوتا جارہا ہے۔ مجھے تو اس چیز کا خدشہ ہے کے قاسم نام کی مشہوری کی وجہ محمد بن قاسم سے ہٹ کر محترمہ شوکت خانم کے فرزند کے جو بیٹے ہیں تاریخ میں ان کی وجہ سے نا یاد کی جائے۔ 2008 سے آج تک کے جو واقعات ہیں ذاتی طور پر تو مجھے اس میں کوئی ارتقاء نظر نہیں آتی بس یہ کہہ سکتے ہیں کے عوام کے دیکھنے کے زاویے میں کچھ فرق تو پڑا ہے ورنہ تو 47 سے لے کر اب تک اس ملک کی تاریخ نے اپنے آپ کو بارہا دہرایا ہے اب دیکھنے کی بات یہ ہے کس تاریخ کے گول گول چکر سے یہ ملک اس بار نکل پائے گا اور اپنے دیکھنے کا زاویہ درست کر پائے گا۔ مجھے اس موقع پر فیض احمد فیض کا ایک شیر بہت یاد آ رہا ہے
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
شام تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں نہ جانے کب صبح کا سورج تلو ہوتے دیکھیں گے۔

 

Syed Shahmeer Mobeen
About the Author: Syed Shahmeer Mobeen Read More Articles by Syed Shahmeer Mobeen: 3 Articles with 1987 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.