ان دنوں ہمارے ملک ہندوستان میں موجودہ حکومت کی جانب سے
یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی جو تیاریاں چل رہی ہیں اور اسکے خلاف ملک بھر
میں ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے علاوہ دوسرے مذاہب کی جانب سے بھی
یکساں سیول کوڈ کے خلاف احتجاج بلند ہورہا ہے۔ مسلمان خاموشی کے ساتھ
انتشار پیدا کئے بغیر یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے خلاف دستوری حق کو ملحوظ
رکھ کر حکومت کو اپنے فعل سے باز آنے کی کوشش کروارہے ہیں۔ہندوستانی
مسلمانوں نے جس طرح اپنے ملک کی آزادی کیلئے جانیں قربان کیں ہے اس کا
اندازہ شاید موجودہ ہندوتوا قائدین و رہنماؤں کو نہیں ہے یا پھر وہ نہیں
چاہتے کے ملک میں دیگر مذاہب کے ماننے والے رہیں۔ وطن عزیز کیلئے آج بھی
ہندوستانی مسلمان ہندوتوا فرقہ پرستوں کے ظلم و ستم کے باوجود صبر و تحمل
کے ذریعہ قربانی دے رہے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کو بے شک اس ملک کے شہری
ہونے پر ناز ہے کیونکہ اس ملک میں جس طرح ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے
اور تمام مذاہب کے ساتھ مل جل کر رہنے کا موقع ملتا ہے اس سے عالمی سطح پر
ملک کا سربلند ہوتا ہے۔ ملک کی ترقی و خوشحالی میں مسلمانوں کا عمل دخل رہا
ہے اور مستقبل میں یہ جاری رہے گا اور اسی میں ملک کی سلامتی، خوشحالی اور
ترقی مضمر ہے۔11؍ جولائی کو ایک تقریب ممتازسعودی عالم و سکریٹری جنرل مسلم
ورلڈ لیگ شیخ محمد بن عبدالکریم عیسیٰ کے اعزاز میں انکے دورے ہندوستان کے
موقع پر خسروفاؤنڈیشن اور انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کے زیر اہتمام منعقدتھی
جس میں وہ مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے ۔ اس موقع پر سکریٹری جنرل
مسلم ورلڈ لیگ شیخ محمد بن عبدالکریم نے کہا کہ ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی
شہریت پر فخر اور دستور پر ناز ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان امن کا علمبردار
ہوتا ہے۔ اسلام سبھی کے لئے کھلی کتاب ہے اور وہ رواداری کو فروغ دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان ہندواکثریتی ملک ہے لیکن اس کا دستور سیکولر ہے۔
ہندوستان اپنے تنوع کے ساتھ سبھی مذاہب کے بقائے باہم کا بہترین نمونہ ہے ۔
سکریٹری جنرل نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ عالمی دہشت گردی میں ہندوستانی
شہریوں کی شمولیت بے حد کم ہے۔ انہوں نے ہندوستان کو ایک ذمہ دار طاقت
بتایا۔ مشیر قومی سلامتی اجیت دوول نے کہا کہ دہشت گردی کا کسی بھی مذہب سے
کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ تقریباً 200ملین ہندوستانی
مسلمان ہونے کے باوجود عالمی دہشت گردی میں ہندوستانی شہریوں کا رول غیر
معمولی حد تک کم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا
مرکز ہے اور صدیوں سے یہاں سب مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ اجیت دوول نے کہا کہ
ہندوستان جمہوریت کی ماں ہے ، یہ سب سے بڑی جمہوریت ہے اور یہ وہ مقام ہے
جہاں کئی ثقافتیں اور نسلیں مل جل کر رہتی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ایک جامع
جمہوریت کی حیثیت سے ہندوستان نے کامیابی کے ساتھ اپنے تمام شہریوں کو جگہ
دی ہے چاہے ان کا مذہب ، ذات پات ، او رتہذیبی شناخت کچھ بھی ہو۔ اجیت دوول
نے مزید کہا کہ ملک کے مذہبی گروپوں میں اسلام کو ایک منفرد اور اہم باعث
فخر مؤقف حاصل ہے۔ اس موقع پر مشیر قومی سلامتی اموراجیت دوول نے سکریٹری
جنرل مسلم ورلڈ لیگ شیخ محمد بن عبدالکریم العیسیٰ کو اعتدال پسند، اسلام
کی معتبر عالمی آواز اور اسلام کی گہری سمجھ رکھنے والے اسکالر قرار دیا۔
غرض کہ ہمارے ملک ہندوستان کو عالمی سطح پر جس طرح عزت و احترام کی نگاہ سے
دیکھا جاتا ہے اس کا شیرازہ بکھیرنے کی کوششیں ہندوتوا فرقہ پرستوں کی جانب
سے گذشتہ چند سالوں کے دوران ہورہی ہے اوراسکی پشت پناہی مرکزی و بعض
ریاستی حکومتوں کی جانب سے کی جارہی ہے اس سے عالمی سطح پر ہندوستان کا
مقام گھٹ سکتا ہے ۔موجودہ حکومت یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کو بالائے طاق رکھ
کر ملک کی ترقی و خوشحالی اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو انکے اپنے مذہب
کے مطابق حقوق فراہم کرنے کی سعی کریں اور ملک کے تمام شہریوں کو آزادانہ
طور پر جینے کی راہیں فراہم کریں ۔ ملک میں ماب لنچنگ کے واقعات میں آئے دن
اضافہ ہوتاجارہا ہے ۔ مسلمانوں کو کسی نہ کسی بہانے ہندوتوا تعصب پرست
نشانہ بنارہے ہیں اگر ان حالات پر قابو نہ پایا گیا تو ملک کی صورتحال بدل
سکتی ہے کیونکہ ظلم برداشت کرنے کی ایک حد ہوتی ہے اور اگر یہ حد پار کرلی
جائے تو پھر حالات کے ذمہ دار موجودہ حکمراں ہونگے۰۰۰
ماسکو میں روس اور جی سی سی ممالک کے درمیان مشترکہ اجلاس
عالمی سطح پردہشت گردی سے پاک ،امن و سلامتی کی فضاء کو بنائے رکھنے ،بین
الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے درمیان بہتر سے بہتر مضبوط تعلقات ،معیشت
کے استحکام ، اور عوام کو خوشحال زندگی فراہم کی کوششیں موجودہ حکمرانوں کی
اچھی کوشش ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے درمیان اسلام اور مسلمانوں کو جس طرح
دہشت گردی کا لیبل لگاکر نشانہ بنایا گیا اس سے دشمنانانِ اسلام کو فائدہ
بھی ہوا اور ناکامی بھی۰۰۰فائدہ تو ایک ملک کو دوسرے ملک کے خلاف لڑاکر
کروڑوں ڈالرس کے جنگی اسلحہ سپلائی کئے گئے ، اسلامی ممالک عراق، شام، یمن،
مصر، لیبیا،افغانستان، پاکستان وغیرہ میں لاکھوں مسلمانوں کو نشانہ بناکر
ہلاک کیا گیا۔ آج دشمنانانِ اسلام کو احساس ہوگیا ہے کہ مسلم ممالک کے
حکمراں اگر متحد ہوجائیں تو ان کی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے اسی کے پیشِ
نظر عالمی سطح پر سوپر پاور کہلائے جانے والے ممالک اسلامی ممالک کے قریب
آرہے ہیں اور ان سے دوستانہ تعلقات بنائے رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ عالمی
سطح پر اگر مسلمان متحد ہوجائیں اور ان دشمنانانِ اسلام ممالک کا بائیکاٹ
کریں تو انکی معیشت تباہ و برباد ہوجائینگی۔یہی ڈر ہے جس کی وجہ سے ہر
سوپرپاور ملک اسلامی ممالک کے قریب ہونا چاہ رہے ہیں۔ امریکہ، فرانس
،روس،انگلینڈاور چین جیسے ممالک مسلم ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ روابط
بڑھانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ گذشتہ دنوں روس کے دارالحکومت ماسکو میں جی سی
سی ممالک اور روس کا مشترکہ وزارتی اجلاس منعقد ہوا اس اجلاس میں سعودی
وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے شرکت کی۔ اجلا س کے دوران جی سی سی،
روس تعلقات اور مختلف شعبوں میں انہیں بڑھانے اور ترقی دینے کے طریقوں کا
جائزہ لیا گیا۔روس، یوکرین بحران کے حوالے سے پیشرفت اور بحران کو سیاسی
طور پر حل کرنے کیلئے بین الاقوامی کوششوں اور ان تمام کوششوں کی حمایت کا
اعادہ کیا گیا تاکہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کا مقصد حاصل کیا جا
سکے۔اجلاس میں اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے اور بین الاقوامی پائیدار ترقی
کے اہداف کے حصول کے علاوہ کئی علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر مشترکہ
کوآرڈینیشن کو تیز کرنے اور کثیر الجہتی اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کیا
گیا ہے۔عرب نیوز کے مطابق خلیج تعاون کونسل کے سیکریٹری جنرل جاسم البدودی
نے مشاورتی اجلاس کے دوران کہا ہے کہ ’جی سی سی ممالک روس کے ساتھ ہر طرح
کے تعاون کو بڑھانے کے خواہشمند ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ’ اوپیک پلس کے اندر
روس کے ساتھ تعاون کا تیل کی مارکیٹ پر مثبت اثر پڑا ہے‘۔ روسی وزیر خارجہ
نے اجلاس میں کہا کہ ’ماسکو مسئلہ فلسطین کے حل میں تیزی لانے کے حوالے سے
خلیجی ممالک کے موقف کا حامی ہے‘۔ روسی وزیر خارجہ نے زور دے کر کہا کہ ’
اتحادیوں کے ساتھ مل کر کسی بھی ملک کو خطرات لاحق کرنا نہیں چاہتے۔اجلاس
کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ۔جس میں روس اور جی سی سی میں
شامل ممالک نے جدہ میں سوڈان کے متحارب فریقوں کے درمیان امن مذاکرات کی
مکمل حمایت کا اعلان کیا ۔اعلامیے میں جی سی سی ممالک میں تیل تنصیبات اور
جہاز رانی کو درپیش خطرات سے نمٹنے اور سمندری امن کے تحفظ کی اہمیت پر زور
دیا گیا۔٭ سوڈان میں صورتحال معمول پر لانے کیلئے کی جانے والی کوششوں میں
تعاون اور جدہ میں امن مذاکرات کی حمایت کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ ٭مشترکہ
اعلامیے میں یمن کے تمام فریقوں سے درخواست کی گئی کہ وہ اقوام متحدہ کے
تحت براہ راست مذاکرات فوراً شروع کریں۔ ٭ روس اور خلیجی ممالک نے کہا کہ
لیبیا سے تمام غیرملکی افواج، غیرملکی جنگجو اور اجرتی جنگجو انخلا کریں
اور ملک میں انتخابات کرائے جائیں۔واضح رہے کہ اسلام کے تقدس کو نقصان
پہنچانے والوں کے خلاف عالمی سطح پر ایسا احتجاج کریں جس سے انکی معیشت کو
شدید نقصان پہنچے۔
مذہبی منافرت کے خلاف عالمی قرارداد کا خیر مقدم
سعودی عرب ، ترکیہ، پاکستان اور دیگر ممالک کی جانب سے مذہبی منافرت کے
خلاف عالمی قرارداد کا خیر مقدم کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب نے چہارشنبہ کو
یورپ میں قرآن مجیدکی بے حرمتی اورایک نسخہ کو جلائے جانے کے واقعہ کے
تناظر میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے مذہبی منافرت کو
روکنے کیلئے مزید اقدامات پر زور دینے سے متعلق قرار داد کا خیر مقدم کیا
ہے۔ سویڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی اور جلائے نذرآتش کئے جانے واقعہ کے
بعد سعودی عرب نے مملکت میں مقیم سویڈن سفیر کو کو طلب کرکے اس کی شدید
مذمت کی ۔ سعودی عرب نے عندیہ دیا کہ’ وہ مکالمے، رواداری اور اعتدال کی
سپورٹ میں اپنی تمام کوششیں جاری رکھے گا۔ نفرت اور انتہا پسندی پھیلانے کی
تمام کارروائیوں کو مسترد کرتے ہیں‘۔قبل ازیں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے
انسانی حقوق کے سربراہ نے سویڈن میں قرآن مجید نذرآتش کرنے کے واقعے پر کہا
تھا کہ ’وہ ان لاکھوں افراد سے بے حد ہمدردی رکھتے ہیں جن کے عقائد اور
اقدار کو نشانہ بنایا گیا‘۔عرب نیوز کے مطابق اقوام متحدہ کے کمشنر برائے
انسانی حقوق والکر ٹرک کا کہنا تھا کہ ’قرآن مجید کو جلانے سمیت دیگر
واقعات غصے کو بھڑکانے، تفرقہ پیدا کرنے اور نقطہ نظر کے اختلاف کو نفرت
اور تشدد میں بدلنے کے لیے کیے جاتے ہیں‘۔جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے
53 ویں سیشن میں قرآن مجید جلانے کے واقعے اور مذہبی منافرت کے مسئلے پر
بحث ہوئی تھی۔والکر ٹرک کا کہنا تھا کہ ’مذہبی علامتیں بہت گہری اہمیت کی
حامل ہوتی ہیں۔ ایک ہلال، ایک ستارہ، ایک کراس، ایک بیٹھی ہوئی شخصیت: کچھ
کے لیے، یہ خاص معنی نہیں رکھتیں لیکن لاکھوں لوگوں کیلئے ان کی بہت زیادہ
اہمیت ہے۔‘’سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کا خاص کردار ہوتا ہے کہ وہ تمام مقدس
مقامات اور علامتوں کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہوئے جارحانہ کارروائیوں کو
روکیں۔’ان سب کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ اشتعال انگیزی کے ذریعے تشدد کو
جائز نہیں قرار دیا جا سکتا چاہے وہ حقیقی ہو یا فرضی۔‘بین الاقوامی قانون
کے اصولوں پر زور دیتے ہوئے، والکر ٹرک کا کہنا تھا کہ ریاستوں کو قومی،
نسلی یا مذہبی منافرت جو امتیازی سلوک، دشمنی یا تشدد پر اکساتی ہو پر
پابندی عائد کرنی چاہیے۔’تاہم آزادی رائے اور اظہار رائے کی بالادستی کے حق
پر کسی بھی قومی پابندی کو وضع کیا جانا چاہیے تاکہ ان کا واحد مقصد افراد
کے تحفظ کو یقینی بنانا ہو، بجائے اس کے کہ مذہبی نظریے کو تنقیدی جائزے سے
بچایا جائے۔‘انہوں نے تمام ممالک پر زور دیا تھا کہ’ وہ مذہب یا عقائد کی
بنیاد پر عدم رواداری کا مقابلہ کرنے کیلئے اقوام متحدہ
کے ایکشن پلان پرعمل درآمد کے لیے اپنی کوششوں کو بڑھائیں‘۔
ترک صدر رجب طیب اردغان نے ولنیئس میں نیٹو کے سربراہی اجلاس کے بعد ایک
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے
قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی مذمت اور اسے مذہبی منافرت قرار دینے والی
قرارداد کی منظوری کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ لوگوں کی مقدس اقدار پر حملہ
سوچ کی آزادی نہیں ہے۔ یہ بربریت اور دہشت گردی کی ایک قسم ہے۔صدر طیب
اردغان کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی ہمارے لئے سرخ لکیر ہے اور ہم
چاہتے ہیں کہ تمام اتحادی ممالک بھی اس حوالے سے اپنا موقف واضح رکھیں۔صدر
ترکیہ نے لتھوانیا کے حکام اور خاص طور پر نیٹو کے سیکرٹری جنرل کی مہمان
نوازی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے دوستوں کو ہمیشہ یاد رکھیں گے
جنہوں نے 6 فروری کے ہولناک زلزلوں کے بعد ہماری مدد کی، ہمارے 50 ہزار سے
زیادہ شہری ان زلزلوں سے شہید ہوئے تھے۔واضح رہے کہ صدرترکیہ رجب طیب
اردغان نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرکے ترکیہ کے لیے پچاس برس سے
یورپی یونین کے بند دروازے کھولنے کی راہ ہموار کردی۔ انکا کہنا تھا کہ
یورپی یونین میں شامل ہو کر اسلام اور مسلمانوں کا مقدمہ لڑیں گے اور اپنے
نظریے اور پیغام کو فروغ دیں گے۔عالمی سطح پر سعودی عرب، ترکیہ اور دیگر
اسلامی ممالک نے جس طرح متحدہ طور پر قرآن مجید کی عظمت اور اسلام کے تقدس
کیلئے آواز اٹھائی اور منافرت پھیلانے والے اسلام دشمنوں کے خلاف مذمت کی
ہے اس سے بین الاقوامی سطح پر اچھا اثر پڑا ہے اور اب دشمنانانِ اسلام کو
سمجھ جانا چاہیے کہ اسلام کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی تو اگلا
قدم ان دشمنانانِ اسلام کے خلاف معاشی بائیکاٹ کیا جانا چاہیے ۔
**** |