ایک دوست کے توسط سے مجھ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ
پاکستان میں گلابی نمک کے بڑے ذخائر ہیں جن کی سالانہ آمدنی 12 ارب ڈالر
ہے۔ اس حوالے سے ملک کے پاس تقریباً 22 ارب ٹن قدرتی وسائل موجود ہیں، جو
زیادہ تر کالا باغ، ورچہ کھیوڑہ اور بہادر خیل کی سالٹ رینج کے علاقوں میں
ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ تقسیم ہند کے بعد بھی 60 سال تک بھارت دنیا کا
بہترین معدنی نمک، پاکستان سے کوڑیوں کے مول خرید کر پروسیسنگ کے بعد اسے
ہمالیائی گلابی نمک کا نام دے کر عالمی مارکیٹ سے اربوں ڈالر کماتا رہا ہے۔
جس کا عقدہ ابھی چند برس قبل کھلنے پر پاکستان نے بھارت کو گلابی نمک کی
فروخت روک دی۔ ایک حالیہ میڈیا رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں امریکی تجارتی
وفد نے پاکستان کے سفیر سے ملاقات کر کے کھیوڑہ سے نمک نکالنے، اس کی
پروسیسنگ اور عالمی سطح پر تقسیم میں 20 کروڑ ڈالر سرمایہ کاری کی پیشکش کی
ہے۔ اس سے ہمارے حکمرانوں کو اور نہیں تو کم از کم قدرت کی عطا کردہ اس بے
بہا نعمت کی قدرو قیمت کا تو اندازہ کر لینا چاہیئے ،جس کا فائدہ 60 سال
ہمارے ازلی دشمن بھارت نے اٹھایا ہے۔ حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ اس حوالے سے
جیو فزیکل انڈیکیشنر (جی آئی) قوانین تاخیر سے بنے، جس کا مقصد اپنے حقوق
دنیا پر واضح کرتے ہوئے ان کی حفاظت کرنا ہے۔گلابی نمک کے ذخائر پاکستان
میں ضلع جہلم سے کوہاٹ کے درمیانی پہاڑی سلسلے میں کم و بیش تین سوکلو میٹر
کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں ،جن کے حجم کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔
اس ضمن میں متذکرہ سرمایہ کاری اپنی جگہ اہم ہے،لیکن کیا ہی بہتر ہو اگر
کسی امریکی کی بجائے گلابی نمک کا کنٹریکٹ بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض ، میاں
محمد منشا اور ان جیسے اور محب وطن پاکستانی سرمایہ کاروں کویہاں سرمایہ
کاری کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ اس کا تمام تر فائدہ وطن عزیز کو ہو ۔
ڈالروں کو نادیدہ نگاہوں سے دیکھنا اب چھوڑ دیں اور معدنی وسائل کو بروئے
کار لاکر وطن میں بسنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں ۔یہاں یہ عرض کرتا
چلوں کہ قدرت نے ہمارے ملک کو قیمتی معدنی وسائل سے مالا مال رکھا ہے لیکن
کسی دور حکومت میں بھی اپنے قیمتی معدنی وسائل سے استفادکرنے کی سنجید ہ
کوشش نہیں کی گئی۔ قصہ مختصر جہاں کوششیں ہوئی ہیں، وہاں ہر قدم پر رکاوٹیں
کی جاتی رہی ہیں ۔ بلوچستان کا ریکوڈک کا منصوبہ اس کی بڑی مثال ہے ۔عالمی
طور پر بھی پاکستان کو سازشوں میں الجھا کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑدیا
جاتا رہا ہے۔ حالیہ ماہ و سال میں پاک چین اقتصادی راہداری امید کی ایک کرن
ہے اگر خدا پاکستانی حکمرانوں اسے مکمل کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔عمران
خان تو اس اہم ترین منصوبے کو لپیٹ کے رکھ چکے تھے۔ پاکستان کے پاس موجودہ
بدترین حالات سے نکلنے اور تجارتی خسارہ ختم کرنے کے لیے ایسے منصوبوں پر
خاص طور پر توجہ کی بے حد ضرورت ہے جس کے نتیجے میں برآمدات میں اضافہ ہو
اور قیمتی زرمبادلہ کمایا جاسکے۔ قدرت نے وطن عزیز کو کیسی بے نظیر، نایاب،
شاندار اور بیش بہا قیمتی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے، انسان اس پر غور
کرے تو حیران وششدر رہ جاتا ہے۔ کہیں کوئلے کے بے پناہ معدنی ذخائر موجود
ہیں جسے بلیک گولڈ کا نام دیا گیا تھا تو کہیں پر سونے کے پہاڑوں سے ربّ
تعالیٰ کی ذات کریم نے اس دھرتی کو سجا رکھا ہے۔ اس پاک دھرتی میں سے کہیں
تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہورہے ہیں۔ ابھی چند ہفتے پہلے کی بات ہے کہ
صوبہ خیبر پختون خوا کے علاقے "لکی مروت "کے نواح میں تیل اور گیس کا بڑا
ذخیرہ دریافت ہوا جس کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ اس کنویں سے پاکستان
کی ضرورتوں کا ایک تہائی حصہ پورا کیا جاسکے گا۔کوہاٹ کے نواح میں بھی ایسا
ہی تیل اور گیس کا بڑا کنواں ملنے کی خوشخبری مل چکی ہے ۔ کوہ سلیمان سے
بھی ایسی ہی خبر یں سننے میں آ رہی ہیں ۔گلگت بلتستان کی سرزمین سے بھی
انتہائی قیمتی دھاتوں کے بارے اہم ترین خبریں یو ٹیوب پر دیکھنے اور سننے
کو مل رہی تھیں ۔جبکہ بلوچستان کے صحرائی اور پہاڑی علاقے (جہاں ہمارے
حکمران جاتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں ) قیمتی معدنی وسائل سے مالا مال ہیں لیکن
قیمتی معدنی دولت نکالنے کی جانب اس توجہ نہیں دی جارہی کہ غیر ملکی قرضوں
کی دلدل میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ قرضے اتارنے کرنے کے لیے بھی ہمیں اپنی
غیرت اور آزادی قربان کرنی پڑ رہی ہے ۔ بہرکیف ’’گلابی سونا‘‘ یعنی کھیوڑہ
کی کان کو جنوبی ایشیا میں قدیم ترین اور دنیا میں خوردنی نمک کا دوسرا بڑا
ذخیرہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ اس عظیم ذخیرے کی یہ کان زیر زمین 110 کلو
میٹر دور تک پھیلی ہوئی ہے اس میں انیس منزلیں بنائی گئی ہیں جن میں گیارہ
منزلیں زیر زمین ہیں ۔اس ذخیرے کی بلندی 2200 فٹ سے 4490 فٹ تک ہے۔ یہاں سے
نمک نکالتے وقت 50فی صد نمک نکالا جاتا ہے جبکہ 50فی صد بطور ستون اور
دیواروں میں باقی رکھا جاتا ہے۔ اس کان میں سے سالانہ 370000 ٹن نمک حاصل
ہو رہا ہے۔کھیوڑہ کے مقام پر موجود نمک کی ان کانوں کو ارضیاتی عجائب گھر
قرار دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نمک کے ان ذخائر کا تعلق کرہِ ارض کے قدیم
ترین دور پری کیمبیرین سے ہے ۔یوں تو کھیوڑہ میں موجود نمک کی ان کانوں کی
دریافت کے حوالے سے بہت دلچسپ داستانیں اور روایات ملتی ہیں۔ لیکن ایک
روایت ایسی ہے جس پر سب سے زیادہ اتفاق پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کھیوڑہ
میں نمک کی دریافت 222 ق م میں اس وقت ہوئی، جب دریائے جہلم کے کنارے سکندر
اعظم اور راجا پورس کے درمیان جنگ لڑی گئی۔ سکندر اعظم کی فوج کی کھیوڑہ کے
پتھروں میں دلچسپی کے سبب اس مقام پر نمک کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا۔
گیارھویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی نے ہندو فوج کو شکست فاش سے دوچار کیا
تو یہاں جنجوعہ خاندان کو حکمران بنا دیا۔ تب یہ نمک کا خزانہ بھی ان کے
دائرہ اختیار میں دے دیا، جبکہ مغلیہ دور حکومت میں یہ کانیں شاہی خاندان
کی تحویل میں رہیں۔ تاریخ پر لکھی گئی معروف کتاب ’’آئین اکبری‘‘ میں یہاں
سے حاصل کیے جانے والے نمک کو باہر کے ممالک کو برآمد کرنے کا حوالہ بھی
ملتا ہے۔ پاکستان پر کل قرضہ تقریباً 100ارب ڈالر ہے۔ بھارت، پاکستانی نمک
بیچ کر سالانہ 129ارب ڈالر کما چکا ہے۔ اس وقت پاکستان کو اپنا زرمبادلہ
زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی بین الاقوامی منڈی میں جاکر ایک لیٹر تیل اور
500گرام گلابی نمک کی قیمت معلوم کرے، تو تیل کی قیمت ،نمک کے مقابلے میں
بہت کم دکھائی دے گی۔اگر میں یہ کہوں کہ یہ نمک نہیں ،سونا ہے تو غلط بات
نہ ہوگی۔ جیسے عربوں کو اﷲ تعالی نے تیل کی دولت سے نوازا ہے اور وہ زمین
سے آسمان پہنچ گئے،اسی طرح قدرت نے وطن عزیز پاکستان کو گلابی نمک کی بیش
قیمت دولت عطا کی ہے ۔ اگر کوئی اس جانب توجہ دے تو مجھے یقین ہے کہ دنیا
کے تمام خوشحال ممالک پاکستان کے قدموں میں گرسکتے ہیں، ان کی ڈیمانڈ ایک
ہی ہو گی کہ ہم اربوں ڈالر دیتے ہیں آپ ہمیں گلابی نمک فروخت کردیں۔ اگر ہم
صرف اپنی نمک کی کان کی طرف ہی توجہ دیں تو یہاں پر آنے والے سیاح اور یہاں
سے نکلنے والے خوبصورت گلابی نمک کی فروخت پاکستان کی قسمت بدل سکتی ہے۔
چند سال پہلے ہمارا ازلی دشمن بھارت پاکستان سے 35پیسے فی کلو کے حساب سے
کھیوڑہ کا گلابی نمک لے رہا تھا۔ اور آگے 19یورو (3373 روپے) فی کلو کے
حساب سے دوسرے ملکوں کو فروخت کر رہا تھا۔ کھیوڑہ کے مقام سے نکلنے والا یہ
گلابی نمک، دیگر معدنیات اور تیل کے ذخائر سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ جسے دنیا
میں موجود مختلف ممالک کو فروخت کر کے پاکستان ایک سال کے اندر اپنے ذمہ
واجب الادا تمام غیر ملکی قرضے آسانی سے اتار سکتا ہے۔ اسے میں بدقسمتی ہی
قرار دوں گا کہ پاکستانی حکمرانوں کا اب تک اس طرف دھیان ہی نہیں گیا ۔ اگر
پاکستان بہتر منصوبہ بندی کر کے اس گلابی نمک کے عظیم قومی اثاثہ پر توجہ
دے کر یہ خوردنی نمک اپنے سرمایہ کاروں کے ذریعے دنیا بھر میں فروخت کرے تو
سالانہ100ارب ڈالر سے زیادہ کما سکتا ہے۔بشرطیکہ یہ کنٹریکٹ امریکیوں کو
دینے کی بجائے اپنے محب وطن سرمایہ کاروں کو دیا جائے۔(بشکریہ ریسرچر)
|