16 جولائی کو کینیڈا میں خالصتان تحریک کے ریفرنڈم کے
دوسرے مرحلے میں ووٹنگ ہوئی ، اس دوسرے مرحلے میں 42000 سے زیادہ کینیڈین
شہریوں نے ووٹ ڈالے ہیں، یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت اقلیتوں کے
خلاف اپنے مظالم میں اضافہ کر رہا ہے جس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اب سکھ
اور مسیحی بھی شامل ہیں۔
اٹلی، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ، امریکا اور کینیڈا سمیت تقریباً 5 ممالک میں
ریفرنڈم کیلئے 10 لاکھ سے زائد افراد نے ووٹ دئیے جس سے پتہ چلتا ہے کہ
بھارت نے اقلیتوں کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے اور شاید ہی کوئی اقلیتی گروہ
مستقبل قریب میں بھارت میں اپنے قیام کو وسعت دینے کے متعلق سوچتا ہو۔
دراصل بھارت میں ہندوتوا کے پیروکار ناقابلِ بیان مظالم ڈھا رہے ہیں اور
معاشرے کی اکثریت ہندوتوا کی پیروکار دکھائی دیتی ہے جس میں شدت پسندی،
وحشت وبربیت اور ظلم و جبر کے سوا کچھ نہیں۔
بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی ریاستی دہشت گردی اور ظلم و ستم میں
ملوث ہے جہاں گرفتاریوں، زیر حراست تشدد، قتل اور عصمت دری کے واقعات کی
تعداد ہوشربا ہے۔
اگست 2019ء سے لے کر نومبر 2021ء تک 87 شہریوں کو جموں و کشمیر میں مسلح
افراد نے قتل کردیا جبکہ بھارتی فوج کشمیریوں کے قتلِ عام اور ماورائے
عدالت قتل سمیت دیگر جنگی جرائم، خاص طور پر پیلٹ گنز کے استعمال میں ملوث
ہے۔
خود بھارت میں شہریت کا کالا قانون سی اے اے ہو یا دیگر کالے قوانین جو
اقلیتوں کی حالت کو بد سے بد تر کرنے کا باعث بنتے ہیں، ان کا خیال تھا کہ
سکھ بھی خاموش ہوسکتے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ خالصتان تحریک کے لوگ یہاں
نہیں رکیں گے اور بھارت میں آزادئ اظہار سمیت انسانی حقوق کی پامالیوں کو
بے نقاب کرکے ہی دم لیں گے۔
کینیڈا کو ضرور اس پر کچھ ایکشن لینا ہوگا۔سکھ برادری نے بھارتی ہائی کمشنر
کو نکالنے کا مطالبہ کیا ہے جو قدرے مشکل ہوسکتا ہے۔ مشکل اس لیے کیونکہ
بھارت اور کینیڈا ایف پی اے کے مستقبل کے معاہدے کو چلانے کے کم و بیش
آخری مراحل میں ہیں اور ہمیں اپنے اذہان میں یہ بات بھی رکھنی چاہئے کہ
بھارت کی امریکا اور کینیڈا سمیت اس کے اتحادیوں سے جو اسٹرٹیجک صف بندی
ہے، وہ کسی صورت نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔
اس لیے ہائی کمشنر کو نکالنے جیسا انتہائی اقدام بے حد مشکل ہوگا تاہم ایک
بات تو یقینی ہے کہ کینیڈا میں مسلم اقلیت سمیت دیگر مذہبی اقلیتوں کے حقوق
کے تحفظ کی باتیں ہوتی ہیں اور بھارت میں مجموعی طور پر ا س کا الٹ ہوتا
ہے۔
تاہم سکھ برادری کی طرف سے لکھے گئے خط کا کینیڈین حکومت کو جواب تو دینا
ہی ہوگا۔ اس تناظر میں بھارت شاید اس بار کینیڈا میں اور دوسری جگہوں میں
بھی لابنگ کرے تاہم سکھ فار جسٹس موومنٹ جنبش تیزی اور جنبش اختیار کرتی
جارہی ہے اور صحیح طریقے سے اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی ہے، جس سے دیگر
اقلیتوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔
اس حقیقت سے قطعِ نظر کہ کینیڈا امریکا کا اتحادی ہے لیکن کینیڈین سوسائٹی
بذاتِ خود کسی دوسرے ملک کی مداخلت برداشت نہیں کرسکتی کہ وہ کینیڈین
خیراتی ادارے میں اس انتہائی اہم اور مناسب نکتے پر مداخلت کرے جس پر روشنی
ڈالی گئی۔ کینیڈا میں اگر قتل عام کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جائے تو
ایسا ممکن نہیں ہوسکتا بلکہ اس کی تحقیقات کرنا ایک لازمی امر بن جاتا ہے۔
دوسری جانب بھارتی حکومت نے سکھ فار جسٹس (ایس ایف جے) موومنٹ کی ایپس ،
ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بلاک کردیا ہے۔ پنجاب پولیس نے 2
افراد کو خالصتان کے نعرے لگاتے ہوئے گرفتار کر لیا اور کہا یہ جارہا ہے کہ
ان لوگوں نے اس عمل کیلئے 80 ہزار روپے وصول کیے تھے جو منفی پراپیگنڈا ہی
کہا جاسکتا ہے جبکہ ٹورنٹو میں بھارتی قونصلیٹ کے سامنے ایک سکھ کو اس لیے
گرفتار کیا گیا کیونکہ وہ خالصتان کی آزادی کی بات کر رہا تھا۔
بلاشبہ کسی بھی ملک میں رہتے ہوئے اس ملک سے الگ ہونے کی بات کو قانون کی
زد میں لایا جاتا ہے تاہم بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک جس طرح
پوری قوم کا وطیرہ بن گیا ہے اور جس طرح لوگ فیشن کے نام پر بھی مسلمانوں
سے اور سکھوں سے دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور لوگوں کے جتھے کسی ایک شخص
کو پکڑ کر اسے جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کرتے اور بعد ازاں قتل کر
ڈالتے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرکے ان
سے حب الوطنی کی توقع کی جارہی ہے جو کہ کسی بھی طرح درست نہیں اور اس کے
منفی نتائج ضرور برآمد ہوکر رہیں گے، جیسا کہ خالصتان تحریک کی اب تک کی
کامیابی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
بطور بھارتی شہری سکھ ، مسیحی اور مسلمان شہریوں نے فوج میں بھرتی ہو کر
بھارت کی حفاظت کیلئے اپنی جان تک دینے سے دریغ نہیں کیا، تاہم بھارت کی
جانب سے اقلیتوں سے ناروا سلوک ایسے خاندانوں کیلئے بھی شرمناک ہے جن کی
نسلوں کی نسلیں بھارتی فوج میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے پل کر جوان ہوئیں۔
ایسے ملک کیلئے کون خدمات انجام دینا چاہے گا جہاں حب الوطنی کیلئے ہندو
مذہب کو اپنانا ضروری قرار دیا جائے جبکہ وہ ملک خود کو دنیا کی سب سے بڑی
جمہوریت اور سیکولر ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہو۔ مودی حکومت اور بی جے پی کو
اس تمام تر ظلم و ستم کے نتائج کبھی نہ کبھی تو بھگتنا ہی پڑیں گے ۔
|