پاکستان کی الٹی کہانی

(Muhammad Ishaq, Ghanche)

حسب معمول ایک رات سونے کے لیے میں نے اپنا سر تکیے پر رکھا ہی تھا۔ اچانک ایک سوچ نے مجھے اپنی نرغے میں لے لیا کہ آخر میرے اس ملک کی بربادی کا اصل ذمہ دار ہے کون؟ اسی دوران اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مجھے نیند آ گئی۔


خواب میں میری ملاقات موجودہ پی ڈی ایم کے منتخب کردہ وزیر اعظم جناب عزت ماٰب شہباز شریف صاحب سے ہوئی۔ میں نے موقعے کو غنیمت جان کر ذہن میں موجود سوال کو میاں صاحب کی طرف داغ دیا۔ میاں صاحب بلا تامل بول پڑے میرے اس وطن عزیز کو اس دہانے تک پہنچانے میں سب سے زیادہ ہاتھ اس عمران خان نیازی کا ہے۔

میں وہاں سے اٹھ کر اسی سوال کا جواب جاننے عمران خان کے زمانے میں جا پہنچا اور ان سے بھی یہی سوال پوچھنے کی جسارت کی۔ عمران خان نے اپنی کڑاکے دار آواز میں کہنے لگے۔ دیکھو میرے پاکستانیو! میاں صاحبان نے اس ملک کو لوٹ کر باہر لے گئے۔ اس طرح اس ملک کی حالت غیر ہو گئی۔ یعنی ذمہ دار میاں صاحب کو قرار دیا۔


اس طرح میں اسی سوال کو لے کر میاں صاحب کے زمانے میں جا پہنچا اور یہی سوال پوچھنے کی گستاخی کی۔ میاں صاحب بڑے طمطراق سے بول پڑے یہ انگریزوں کے کتے نہلانے والے زرداری! تم نے اس ملک کے پیسوں کو چوری کر کے سوس بینکوں میں لے گئے اور پاکستان کا بیڑہ غرق کر دیا۔

زرداری کا نام سنتے ہی میں زرداری دور میں حاضر ہو کر زرداری صاحب سے یہی سوال پوچھ ڈالا۔ زرداری نے اٹکتے اٹکتے فوجی امر کو ان سب حالات کے ذمہ دار قرار دیا۔

میں جلدی جلدی مشرف دور میں پہنچ تو گیا۔ لیکن کسی فوجی جنرل کے سامنے سوال رکھنے سے تھوڑا ہچکچایا۔

بہرحال ہمت کر کے یہی سوال مشرف صاحب کے سامنے رکھ دیا۔ مشرف صاحب نے ملک کی بگڑتی ہوئی حالات کا ذمہ دار مفرور شخص نواز شریف کو قرار دیا۔

ایک ایک کر کے یہی ایک سوال لے کر آخر کار بندہ ناچیز بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے خدمت میں پہنچ گیا۔ اور نہایت ہی ادب کے ساتھ لب کشائی کی۔ جناب قائد ملت میں تمام پاکستان کے صدور اور وزرائے اعظم سے ایک سوال لے کر مل کے آیا ہوں کہ پاکستان کے خراب حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ سب نے الزام اپنے سے پہلے والے پر لگاتے لگاتے آخر میں اپنے زمانے سے چل کر آپ کے زمانے تک پہنچا ہوں۔ اب مجھے امید ہے کہ آپ مجھے اس کا معقول جواب عطا کریں گے۔

قائد اعظم نے ایک لمبی آہ بھری اور کوئی بھی جواب دیے بغیر کام کا بہانہ بنا کر وہاں سے تشریف لے گئے۔


اتنے میں بندہ حقیر خواب سے باہر آ گیا تھوڑی دیر آنکھیں ملنے کے بعد کچھ نتیجہ اخذ کرنے بیٹھ گیا۔ پہلا یہ کہ بانی پاکستان نے آخر آہ کیوں بھری؟ لیکن تھوڑی دیر بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ آہ کو سمجھنا ہر شخص کے بس کا روگ نہیں ہے اس کے لئے بندے کو حساس ہونا بے حد ضروری ہے۔ اس لئے اب میں قائد ملت کی خاموشی سے کچھ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد مجھے ہمارے بڑے بزرگوں کا ایک قول یاد آ گیا۔ وہ قول ہے خاموشی نیم رضا مندی۔ یعنی قائد نے خاموش رہ کر ان سب بربادیوں کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔

میں نے بھی دو وجوہات کے سبب قائد اعظم کو ذمہ دار سمجھا۔ پہلا یہ کہ اتنا بڑا ملک بنا رہے ہو کیا خود کے بعد کوئی اہل، مخلص اور ایماندار شخص ہے جو پاکستان کا بیڑہ پار کر سکے؟ دوسرا یہ کہ اگر کوئی اہل شخص مستقبل میں نظر نہیں آ رہا تو اتنا بڑا ملک آزاد کر کے کیوں دیا گیا؟ میرے تجزیے کے مطابق دونوں صورتوں میں قصور قائد اعظم ہی کے بنتے ہیں۔

اس طرح میں نے تمام تر بحرانوں کی ذمہ داری قائد اعظم کے نازک شانوں پر ڈالی اور ایک گلاس لسی منہ کے ذریعے معدے میں انڈیل کر پھر لمبی تان کر سو گیا۔

Muhammad Ishaq
About the Author: Muhammad Ishaq Read More Articles by Muhammad Ishaq: 2 Articles with 1142 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.