کریم تپتی دھوپ میں ویران سڑک پر بھاگا جارہا تھا یہ سڑک مارکیٹ سے کچی آبادی کو ملانے والا ایک مختصر راستہ تھی جس پر ٹریفک بہت کم ہوتی تھی اور اس وقت ویسے بھی گرمیوں کی دوپہر تھی جب لوگ عموماً آرام کر رہے ہوتے ہیں۔
بھاگتے بھاگتے کریم کا سانس پھول رہا تھا لیکن وہ رکنا نہیں چاہتا تھا۔ سڑک کے آس پاس خوبصورت بنگلے تھے جن کو وہ کبھی کبھار رک کر دیکھا کرتا تھا لیکن اس وقت اس کا دھیان گھر کی طرف تھا۔ کریم مکینک کی دکان پر کام کرتا تھا، اس سے جو قلیل سی تنخواہ ملتی، اس سے بمشکل گھر چلتا۔ اس کی چار چھوٹی چھوٹی بیٹیاں تھیں اور اب اس کی بیوی دوبارہ امید سے تھی۔ کریم اور اس کی بیوی نے بہت دعائیں مانگی تھیں کہ رب اس بار انھیں بیٹا دے دے۔۔ امید جو اندھیرے میں روشنی کی مانند ہے، امید جس پہ دنیا قائم ہے۔ یہ امید جو کسی انسان سے نہیں بلکہ خدا کی ذات سے ہو تو اس میں یقین شامل ہو جاتا ہے کہ وہ زمین و آسمان کا مالک سب کی سنتا ہے!
سڑک کے کنارے ایک پتھر سے کریم کو ٹھوکر لگی تو وہ رک کر اپنا زخمی پاؤں دیکھنے لگا، معمولی خراش تھی اس لئے محنت کش کریم دوبارہ بھاگنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں اپنی بیوی ناعمہ کا چہرہ تھا اور کانوں میں ہمساۓ کی آواز گونج رہی تھی جس نے اسے کال کر کے بتایا تھا کہ بھابھی کی طبیعت خراب ہے، جلدی گھر پہنچو۔۔ یہ ایک کچی آبادی تھی جہاں زیادہ گھر مٹی سے بنے ہوۓ تھے، اکا دکا پختہ بھی تھے، کچھ جھگیاں تھیں اور کچھ خیمے تھے لیکن غریبوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ بندھے تھے۔ دکھ سکھ میں شامل ہوتے تھے۔
کریم اپنی گلی میں داخل ہوا تو دیکھا کہ اس کے گھر کے سامنے محلے کی عورتیں جمع ہیں۔ جیسے ہی وہ قریب پہنچا، وہ کہنے لگیں، کرمو بھائی مبارک ہو۔۔
کریم کچھ خوشی اور کچھ بے یقینی کی سی کیفیت میں گھر داخل ہوا تو اماں صفورہ نے اس کے ہاتھ میں کپڑے میں لپٹا ہوا کچھ پکڑادیا۔۔ وہ اپنے میلے لرزتے ہاتھوں سے اس کو پکڑتے ہوۓ ڈر رہا تھا، جب اماں صفورہ نے کہا
مبارک ہو کرمو، خدا نے بیٹا دیا ہے!
اس نے اس ننھے منے وجود کو دیکھا بے اختیار بول اٹھا، شکر ہے تیرا مالک، لاکھ بار!
اور اپنے آنسو صاف کرتا ہوا بیوی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
وقت پر لگا کر اڑتا گیا۔ سڑک کے کنارے بنگلوں میں اضافہ ہوچکا تھا۔ ناعمہ پہلے تین گھروں میں ماسی کا کام کرتی تھی، بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریبوں کے چولھے بجھا دئیے تو ناعمہ نے دو بڑی بیٹیوں کے ساتھ کچھ نئے گھروں میں بھی کام کرنا شروع کر دیا۔ گھر میں چھوٹی بیٹیاں سارادن بھائی کو سنبھالتیں۔ بھائی میں ان کی جان تھی، نام تو اس کا بلال تھا لیکن وہ پیار سے اسے ببلو کہتیں وہ جتنا اس کا خیال رکھتیں، اتنا ہی وہ اپنی شرارتوں سے انھیں تھکاتا رہتا۔
شام کو ابا آجاتا تو وہ ببلو کو اپنے ساتھ سلا لیتا تو ان کو ذرا دم لینے کو مل جاتا۔ ایک دن ابا کو بخار تھا، اس دن ابا کام پہ نہیں جاسکا تو ننھا ببلو جو اب پاؤں پاؤں چلتا تھا۔۔ بار بار ابا کی چارپائی کے پاس آکے دیکھتا کہ آج وہ اٹھ کیوں نہیں رہا؟ پھر اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اسے چھوتا، تاکہ وہ اٹھ جاۓ۔ شام کو ناعمہ تھکی ہاری گھر آئی تو کریم کی حالت دیکھ کے پریشان ہوگئی، الٹے پاؤں حکیم صاحب کے گھر کی طرف بھاگی۔ حکیم صاحب کی بیوی نے بڑی منت ترلے کے بعد دوائی دی کیونکہ ناعمہ نے پچھلا ادھار بھی نہیں چلایا تھا۔ بہرحال دوائی کھا کے کریم کا بخار ہلکا ہوگیا تو ناعمہ کو پتہ نہیں چلا کہ کب وہ اس کی چارپائی کی پائنتی کے ساتھ بیٹھے بیٹھے ہی نیند کی آغوش میں چلی گئی۔
سڑک کے کنارے بنے بنگلوں میں سے ایک سیٹھ زاہد کا تھا جو اپنے سیکرٹری کو فون پہ ہدایات دے رہے تھے۔۔
سلیم صاحب، یہ بنگلہ آپ نے 5 کروڑ سے کم پہ ہرگز نہیں دینا ہے۔ مجھے اس کی اصل قیمت معلوم ہے لیکن جیسا میں کہہ رہا ہوں ویسا کریں۔ پچھلی بار آپ نے 3 میں دے دیا تھا، دوبارہ وہی غلطی نہیں ہونی چاہئے۔۔
سیٹھ زاہد کا پراپرٹی کے کاروبار کا ایک معتبر نام تھے اور ان کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ فون بند کرکے انھوں نے بیٹے کے کمرے سے آتی میوزک کی تند و تیز آوازوں کو سنا تو اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئے لیکن راستے میں انھیں بیگم زاہد نے انہیں روک دیا۔ سیٹھ صاحب نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو کہنے لگیں کہ بیٹے کے دوست آۓ ہوۓ ہیں، انھیں انجواۓ کرنے دیں۔ سیٹھ صاحب ایک ٹھنڈی سانس لے کے صوفے پہ بیٹھ گئے۔
کچی آبادی میں آندھی نے بہت گند پھیلادیا تھا۔ ناعمہ نےبیٹی سے کہا کہ دوبارہ سے گھر کی صفائی کردے اور خود روٹیاں پکانے لگی، پھر کھانا لگادیا۔ ناعمہ نے روٹی کا نوالہ بنا کے اچار کے ساتھ ببلو کی طرف بڑھایا تو وہ منہ بسورنے لگا۔۔ کیا بات ہے بلال؟ ناعمہ نے پوچھا۔۔
اماں، آج میں بھی ابا کے ساتھ کام پہ جاؤں گا، چار سالہ ببلو ضد کر رہا تھا۔۔
نہ بیٹا نہ۔۔ کریم نے کھانا کھاتے ہوۓ اسے سمجھایا۔۔ ابھی تیری عمر نہیں کام کی۔۔ بڑا ہو کے ساری زندگی کام ہی کرنا ہے۔۔ ابھی تو چھوٹا ہے پتر!
ضد کر رہا ہے تو ویسے ہی لے جاؤ۔۔ ماں نے سفارش کی۔
بھلئے لوکے، تجھے کیا پتہ؟ استاد بڑی گندی زبان بولتا ہے اور جتنے بال وہاں کام کرتے ہیں، سب اس کی مار کھاتے ہیں، میں اسے وہاں کے ماحول میں نہیں لے جانا چاہتا، جب تک میں زندہ ہوں میرا پتر گھر بیٹھ کے کھاۓ گا۔ کریم نے بیٹے کو سینے سے لگا لیا۔
سیٹھ صاحب مسلسل فون پہ بزی تھے اور ڈرائیور پاس کھڑا کبھی ایک پاؤں پہ وزن ڈالتا، کبھی دوسرے پر۔۔ آخر سیٹھ صاحب نے بات ختم کی تو ایک ترچھی نظر اس پہ ڈالی۔۔
صاحب، میرا بچہ بہت بیمار ہے۔۔ مجھے دو دن کی چھٹی چاہیے۔۔ اس نے عاجزی سے کہا۔۔ لیکن سیٹھ صاحب اگلا نمبر ملارہے تھے۔۔
انسپکٹر، یہ مارکیٹ میں تیسری واردات ہے، کہاں ہے آپ لوگ؟ کیا کر رہے ہیں؟ ہماری جان مال کا تحفظ آپ کی زمہ داری ہے۔۔ اگر یہ چور ڈکیت یوں ہی کھلے پھرتے رہے تو ہمارا کاروبار تباہ ہو جاۓ گا۔۔ میرے بھائی کی دکان وہیں اس دکان کے ساتھ ہے جہاں چوری ہوئی ہے۔۔ پھانسی پہ لٹکاؤ ان کو۔۔ سیٹھ صاحب کا بی پی ہائی ہونے لگا۔۔ جب وہ اپنی بھڑاس نکال چکے تو ان کی نظر پھر ڈرائیور پہ پڑ گئی۔۔
تم ابھی تک یہیں کھڑے ہو؟ انھوں نے کہا۔
سر۔۔ میرا بچہ۔۔ ڈرائیور نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔ جاؤ!
انھوں نے ناگواری سے اشارہ کیا۔۔ لیکن سنو۔۔
ڈرائیور رک گیا۔
میں دو دن کی تمھاری تنخواہ کاٹوں گا۔۔ یہ کہہ کے سیٹھ صاحب باہر نکل گئے۔۔
وقت گزرتا جارہا تھا۔۔ آج ناعمہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور وہ کام پہ نہیں جاسکی تھی۔ دو سال قبل کریم کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور وہ شریف بندہ اللہ کو پیارا ہوگیا۔۔ اس کے بعد گھر کا سارا بوجھ ناعمہ کے ناتواں کندھوں پر آن پڑا۔۔ ببلو اب دس سال کا ہوچکا تھا۔ نہ چاہتے ہوۓ بھی ناعمہ مجبور ہو کے اسے مکینک کی دکان پہ چھوڑ آئی اور گھر آکے کتنی دیر روتی رہی۔ دس سال کا بچہ سارا دن استاد کی جھڑکیاں کھاتا اور شام کو کچھ پیسے لاکے ماں کے ہاتھ پہ رکھ دیتا۔۔ ماں کو اب بیٹیوں کی شادی کی فکر لگی تھی اور وہ اپنا پیٹ کاٹ کے کچھ پیسے جمع کر رہی تھی۔ ایک دن ببلو نے گھر آنے میں دیر کردی تو ماں کا دل ہولنے لگا، وہ دروازے پہ جا کے کھڑی ہوگئی۔۔
کچھ دیر بعد اسے ببلو آتا دکھائی دیا۔۔ انتہائی سست روی سے قدم اٹھا رہا تھا۔۔ کیا ہوا پتر؟ آج دیر کیوں لگادی؟ ماں نے پوچھا۔۔
اماں، پچھلی گلی میں چور کھڑے تھے۔۔ انھوں نے مجھے مارا اور سارے پیسے چھین لئے۔۔ ببلو رونے لگا تو ماں نے اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔۔ بس کر میرا بچہ۔۔ وہ اس کے آنسو صاف کرنے لگی۔
اماں میں نے سارا دن اتنی محنت کر کے پیسے کماۓ اور وہ بھی چور لے گئے۔۔ اماں یہ چور کہاں سے آتے ہیں؟ یہ کوئ کام کیوں نہیں کرتے؟
الیکشن مہم زوروں پہ تھی۔۔ جگہ جگہ جلسے ہورہے تھے، عوام کو وعدوں اور نعروں سے نئے نئے سبز باغ دکھاۓ جارہے تھے۔۔
ببلو۔۔ میرے ساتھ چل۔۔ وہاں جلسے میں بریانی مل رہی ہے۔۔ اللہ دتا کہہ رہا تھا۔۔
اچھا چل پھر۔۔ ببلو بھی اس کے ساتھ الیکشن کے جلسے میں چلا گیا۔۔
بہت بڑا پنڈال سجا ہوا تھا۔۔ جھنڈے لہرا رہے تھے۔۔ لاوڈ سپیکر پہ کوئی آواز گونج رہی تھی۔۔
ہم اس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں، اب عوامی حکومت آۓ گی، آپ ہمیں اپنا ووٹ دیں۔۔ اب آپ کا وقت ہے!
ببلو بھی پنڈال میں بیٹھ گیا۔
کچھ سال مزید گزر گئے۔۔ اب نفسا نفسی کا دور تھا۔۔ ہر کوئی اپنی بقا کی جدوجہد میں لگا ہوا تھا۔۔ عوام کے حالات بدلنے تو کیا تھے۔۔ مزید ابتر ہوتے چلے گئے۔
سیٹھ صاحب جلدی سے گاڑی میں بیٹھے اور تھوڑی دیر میں گاڑی ہائی وے پہ فراٹے بھر رہی تھی، آج انھوں نے ایک کمپنی سے بزنس ڈیل کرنی تھی اور لاکھوں روپے ان کے بریف کیس میں ساتھ رکھے ہوئے تھے۔ نجانے سائیڈ سے ایک گاڑی کیسے اچانک سامنے آگئی اور ایک دھماکے کی آواز کے ساتھ سیٹھ صاحب کا دماغ اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔ نجانے کتنی دیر کی بے ہوشی کے بعد ان کی آنکھ کھلی تو سامنےمیلے سے لباس میں ایک ٹین ایجر لڑکا کھڑا تھا، اس نے جیسے ہی سیٹھ صاحب کو آنکھیں کھولتے دیکھا، اس کے سادہ سے چہرے پہ بہت پاکیزہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
تم کون ہو؟ سیٹھ صاحب بمشکل بولے۔
میں بلال ہوں جی، آپ کے پچھلے ڈرائیور کا بیٹا۔ آپ کی گاڑی کا حادثہ ہوا تو میں وہیں تھا۔ میں نے ریسکیووالوں کو فون کیا تو وہ آپ کو ہسپتال لے آئے۔
اچھا یہ بتاؤ، میرے ساتھ ایک بلیک بریف کیس بھی تھا؟ سیٹھ صاحب نے بے تابی سے پوچھا۔
جی، صاحب جی، یہ رکھا ہے بریف کیس! ببلو نے اشارہ کیا۔ حادثے کے وقت یہ کھل گیا تھا، میں نے دوبارہ بند کردیا ہے۔ اس نے بریف کیس اٹھا کے سیٹھ صاحب کو دیا تو وہ پیسے گنتے گنتے حیران آنکھوں سے ببلو کو دیکھنے لگے۔ ببلو، تم میرا بریف کیس لے کر بھاگ سکتے تھے لیکن تم نے ایسا نہیں کیا، کیوں؟
وہ جی، ہر طرف چور ہی چور ہیں۔ کوئی تو ایمان دار ہونا چاہئے نا؟
ماشاءاللہ، سیٹھ صاحب اتنی بڑی بات سن کے حیران رہ گئے۔ آج سے تم ورکشاپ میں نہیں بلکہ میرے گھر کام کروگے اور اپنی والدہ کے ساتھ ہمارےگھر رہو گے۔ سیٹھ صاحب نے کہا تو ببلو کا چہرہ بھی چمک اٹھا۔
|