شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (قسط نمبر 39)

آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، صوبہ سرحد اور آزاد جموں وکشمیر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کے لیے منظور ہوچکی ہیں
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، گیارہ کتابیں صوبہ سرحد اور گیارہ کتابیں حکومت آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں کے لیے منظور ہوچکی ہیں
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

(قسط نمبر 39)
سوال ۔ لودھی صاحب آپ کی کہانی پڑھنے کے بعدمجھے تو یقین ہوچکا ہے کہ ابتدائی زندگی میں آپ اور آپ کے والدین کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
اسلم لودھی ۔ شہزاد صاحب ۔ میری پوری زندگی مشکلات اور آزمائشوں میں ہی گھری رہی ۔میں جب پیچھے مڑکے دیکھتا ہوں تو اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھے زندگی کے آکری حصے میں کچھ آسانی عطا فرمائی ہیں جس پر میں ان کادل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں ۔
...................
پچھلی قسط میں لنڈے سے پتلون خریدنے کے حوالے سے گفتگو ہورہی تھی ۔والد صاحب سارا مہینہ اپنے سر پر یہ کہہ کر چٹکیاں کٹواتے رہتے کہ تنخواہ پر لاہور چلیں گے وہاں سے تمہیں ایک نئی اور خوبصورت پتلون خرید کر دوں گا۔ میں تصورات کی دنیا میں کھو کر سوچنے لگتاکہ ابا جی جو میرے لیے پتلون خریدیں گے وہ کس رنگ کی ہوگی۔ اس کے پائنچے کتنے کھلے ہوں گے۔اس کے اوپر والی بیلٹ کیسی ہوگی۔ بلکہ کئی مرتبہ تو میں خواب میں ابا جی کی انگلی پکڑے لاہور پہنچ جاتا۔ جہاں پر دکان پر رنگ برنگی پتلونیں، رنگ برنگے کوٹ، خوبصورت سے خوبصورت باندر ٹوپے اور مفلر لٹکے ہوئے دیکھتا ۔ چونکہ یہ سب کچھ ابھی خواب کی حد تک محدود تھا۔ اس لئے دل ہی دل میں دعا مانگتا کہ اے اﷲ اس تنخواہ پر ابا جی مجھے لاہور لے ہی جائیں۔ جہاں نہ صرف لاہور کی سیر کا موقع ملے گا‘ بلکہ پتلون بھی مرضی کی لیں گے۔ چونکہ ایک قصباتی شہر کے رہنے والے بچے کے لئے لاہور کا تصور بہت خوبصورت تھا، اس لئے ڈرتا تھا کہ کوئی مجھے لاہور دیکھنے کے الزام میں پکڑ ہی نہ لے۔ انہی دنوں ایک لطیفہ بھی بچوں میں مشہورہوا کہ ایک پینڈو لاہور کی ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ مال روڈ پر چہل قدمی کر رہا تھا۔ راستے میں واپڈا ہاؤس کی بلند و بالا اور خوبصورت بلڈنگ آگئی۔ اب پینڈو کے لئے یہ ایک حیران کن عمارت تھی۔ گاؤں میں چونکہ یک منزلہ گھر ہوتے ہیں اس لئے یہ بلند و بالا بلڈنگ اس کے لئے پر کشش تھی۔ ابھی وہ حیرت اور تجسس سے بلڈنگ کودیکھ ہی رہاتھا کہ اس کے قریب سے لاہور شہر کا ایک ٹھگ گزرا۔ اس نے پینڈو کی حیرت اور سادگی دیکھ کر بڑے غصے کے عالم میں پوچھا، اوئے تم یہاں کیا کر رہے ہو۔ پینڈو پہلے تو چونکا پھر اس کے دل میں خیال آیا کہ شاید اس نے عظیم الشان عمارت کو دیکھ کر کوئی جرم کیا ہے۔ اس پر پینڈو نے پہلے خود کو سنبھالا پھر جرات کرکے بولا، اس عمارت کی منزلیں گن رہا ہوں۔ ٹھگ نے پوچھا، کتنی منزلیں گنی ہیں اس نے کہا، پانچ۔ ٹھگ نے کہا اچھا تو پھر نکالو پانچ روپے۔ پینڈو نے نہایت سادگی سے جیب میں ہاتھ ڈالا اور پانچ روپے کا نوٹ نکال کر ٹھگ کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ پیسے لے کر ٹھگ رفوچکر ہوگیا۔ پینڈو بیچارہ حسرت سے ہاتھ ملتا رہ گیا۔ اسٹیشن کی جانب واپسی پر اسے پیاس لگ گئی۔ شہر میں اسے کمیٹی کا نلکا نظر آگیا جس سے خود بخود پانی نکل رہا تھا۔ وہ نلکا بھی پینڈو کے لئے ایک حیران کن چیز تھا اس نے ڈرتے ڈرتے نلکے سے پانی پینا شروع کر دیا۔ پانی پینے کے بعد وہ نلکے کو بندکرنا بھول گیا۔ اسٹیشن پر پہنچ کر اسے احساس ہوا کہ وہ نلکا تو کھلا ہی چھوڑ آیا ہے۔ وہ یہ سوچ کر مزید خوف زدہ ہوگیا کہ اس سے بہت بڑا جرم سرزد ہوگیا ہے۔ کہیں وہ اس جرم کی پاداش میں دھر نہ لیا جائے ۔ اپنے گاؤں پہنچ کر اس نے بڑی فخریہ انداز میں اپنے دوستوں کو یہ کہانی سنائی اور ساتھ ہی کہا، لاہوریئے بڑے چالاک بنتے ہیں۔ میں واپڈا ہاؤس کی گیارہویں منزل کی گنتی کررہا تھا۔ پیسے صرف پانچ منزلوں کے دیئے۔ میں کمیٹی کا نلکا بھی کھلا چھوڑ آیا ہوں جس کی وجہ سے لاہور شہر اس وقت تک ڈوب چکا ہوگا۔
جب بچوں میں ان واقعات کی بازگشت ہوتی تو لاہور دیکھنے کی آرزو دل میں مچلنے لگتی۔اب مسئلہ یہ درپیش تھا کہ ہر ماہ کی پانچ تاریخ کو اسٹیشن پرجاکر اس گاڑی کاانتظار کرتا جس میں تنخواہ دینے والا ریلوے کا کیشئر آتا تھا۔ یہ کیشئر عہدے کے اعتبار سے تو کلرک ہی تھا لیکن اس کا ریلوے ملازمین پر رعب دبدہ بہت تھا۔ اس کی صوابدید پر تھا کہ وہ کسی کو تنخواہ دے یا نہ دے۔ اس کے آگے بولنے والا ہمیشہ پچھتاتاتھا۔کیونکہ اایک مرتبہ تنخواہ واپس چلی جاتی تو وہی تنخواہ دوبارہ لینے کے لئے ایک تنخواہ کے برابررشوت دینی پڑتی۔
یہی وجہ تھی کہ وہ کیشئر پوری تنخواہ دینے کی بجائے آٹھ دس روپے ریلوے یونین کا چندہ اور چار پانچ روپے جبراً کاٹ لیتا تھا۔ چونکہ کیشئر کا انتظار کرنے والوں میں‘ میں بھی شامل ہوتا اس لیے اسے دیکھنے کی مجھے بہت جستجو ہوتی۔ جس دن تنخواہ ملتی اس دن ریلوے ملازمین کے گھروں میں جشن کا سماں ہوتا۔ ابا جی میری والدہ کے ہاتھ پر 70روپے رکھ کر کہتے کہ اس سے پورے مہینے کا خرچ چلانا ہے جب ابا جی میری پتلون کے پانچ روپے اپنے پاس رکھے بغیر سارے پیسے والدہ کو دے دیتے تو مجھے پتہ چل جاتا کہ اس مرتبہ بھی ابا جی مجھے لے کر لاہور نہیں جائیں گے اور پتلون خریدنے کی میری خواہش ، خواب ہی رہے گی۔ بہرکیف چار پانچ تنخواہیں گزرنے کے بعد وہ لمحہبھی آ ہی گیا جب ابا جی نے مجھے اپنے ساتھ لاہور چلنے کی خوشخبری سنائی۔ جس صبح ہمیں لاہور جانا تھا اس رات میں خوشی سے سو نہیں سکا ۔ نہ جانے لاہور کیسا ہوگا۔ وہاں کے لوگ کیسے ہوں گے۔ وہاں کی رونقیں ، رنگ برنگی بتیاں اور آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں کتنی خوشنما لگتی ہوں گی۔ بہرکیف جاگتی آنکھوں سے ساری رات لاہور کے سپنے دیکھتا رہا۔ بالاخر وہ صبح بھی آپہنچی جب مجھے ابا جی کے ساتھ لاہور جانے والی گاڑی پر سوار ہونا تھا، گڑ والی کالی سیاہ چائے کے ساتھ رات کی باسی روٹی کھا کر بڑے فخر سے چلتا ہوا ابا جی کے ساتھ ریلوے اسٹیشن پہنچا اور بڑی بے تابی سے اس جانب دیکھنے لگا، جس طرف سے ٹرین کی آمد متوقع تھی۔ میرے دل میں یہ خوف موجود تھا کہ گاڑی اگرلیٹ ہوگئی تو اباجی کا ارادہ بدل بھی سکتا ہے۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ لاہور جانے والی گاڑی پلیٹ فارم پر آ کر رُکی۔جس میں بیٹھنے کے لئے تو جگہ نہ تھی لیکن کھڑے ہونے کی گنجائش ضرور تھی۔ میرے لاہور جانے کی اطلاع محلے کے دوسرے لڑکو ں کوہو چکی تھی۔ ٹرین چل پڑی ۔ میں راستے میں آنے والے ہر منظر کو اپنی آنکھوں میں محفوظ کر لینا چاہتا تھا۔ جو مجھے چلتی ہوئی ٹرین سے دکھائی دے رہے تھے ۔ پتوکی گزرنے کے بعد گاڑی واں کھارا جا پہنچی ۔جب وہاں سے چلی تو سامنے مٹی کے بڑے بڑے پہاڑ دکھائی دیئے ۔یہ مٹی کے پہاڑ اس بڑی نہر کے اردگرد موجود تھے جو قادر آباد کے مقام سے دریائے چناب سے نکل کر چونیاں کی جانب جاتی تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس نہر سے بہت خوف آتا تھا۔ اس لیے جیسے ہی ٹرین واں کھارا سے چلی تو میں ٹرین میں کھڑے ہوئے لوگوں کے پیچھے چھپ گیا ۔ٹرین جیسے ہی اس نہرکے اوپر پہنچی تو ایک خوفناک آواز نے سارے ماحول کو اپنے حصار میں لے لیا ۔میں ابا جی کے ساتھ چمٹ گیا۔ جیسے ہی ٹرین نے نہر عبور کی تو چھانگا مانگا کا جنگل شروع ہو گیا ،جس میں خوفناک درندوں کی موجودگی کی خبریں بچوں کی زبانی میں پہلے ہی سن چکا تھا۔ کچھ لوگ چھانگا مانگا سے شہتوت کھا کر بھی گئے وہ ان کے ذائقے کی تعریف کیاکرتے تھے۔چونکہ چھانگا مانگا جنگل میں تنہا جانے کی ہمیں اجازت نہ تھی اس لئے میں بغیر شہتوت کھائے ہی ان کا ذائقہ محسوس کر لیا جاتا۔ اس سے اگلا اسٹیشن کوٹ رادھا کشن تھا۔ پھر پریم نگر آیا جہاں کچھ عرصہ ابا جی بسلسلہ ملازمت رہ چکے تھے۔ جب رائے ونڈ آیا تواس اسٹیشن کی شان بان دیکھ کر اس کی سیر کرنے کو دل للچایا۔ پھر دل میں خیال آیا کہ اگر رائے ونڈ اتنا خوب صورت ہے تو لاہور کی شان کیا ہوگی۔ اب ہر لمحے چلتی ہوئی ٹرین لاہور کے قریب سے قریب ہوتی جا رہی تھی۔ کوٹ لکھپت سے گزر کر جب والٹن کا ریلوے اسٹیشن آیا تو یہ دیکھ کر مجھے حیرانی ہوئی کہ یہاں تو ہوائی اڈہ بھی ہے۔ جہاں سے اڑتے ہوئے جہاز بھی دکھائی دیئے۔ اب تک جو کچھ بھی دیکھا تھا ان میں یہ سب سے حیران کن منظر تھا۔ اڑتے ہوئے جہاز کو دیکھنے اور ہوائی اڈے کا تصور میری آنکھوں اور دل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔ (یہاں یہ بتاتا چلوں کہ 1984ء سے 2014ء تک میں اسی والٹن ہوائی اڈے کے قریب مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ لاہور میں رہائش پذیر رہ چکا ہوں،لیکن اب بچپن والا احساس موجود نہیں۔)کہ جہاز کب اور کیسے اڑتا ہے۔
لاہور چھاؤنی سے ہوتی ہوئی گاڑی لاہور اسٹیشن پر جا پہنچی۔ لاہور کا تصور جیسا میرے ذہن میں موجود تھا۔ وہ بالکل ویسا ہی تھا۔ وسیع وعریض رقبے پر پھیلا ہوا لاہورریلوے اسٹیشن بہت سے پلیٹ فارموں پر مشتمل تھا جہاں مختلف شہروں سے ریل گاڑیاں آتیں اور مسافروں کو لے کر منزل مقصود کی طرف روانہ ہوجاتی۔ اسٹیشن پرکالی وردی پہنے ہوئے ریلوے کے باؤ بھی دکھائی دیئے۔ جو لوگوں سے ٹکٹ طلب کر رہے تھے۔ میں اس خوف سے ابا جی کے ساتھ چمٹ گیا کہ کہیں وہ مجھے ہی نہ پکڑ لیں۔ چونکہ میں مقامی بچوں سے مختلف اور واضح طور پر پینڈو لگ رہا تھا۔ اس لئے یہ خوف میرے دل میں ہر لمحے موجود رہا۔ اس خیال سے میں اسٹیشن کے اردگرد بنی ہوئی عمارتوں کو آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی نہیں رہا تھا کہ کوئی یہ بھی نہ پوچھ لے کہ کتنی منزلیں گنی ہیں۔ ابا جی لنڈے بازار جانے سے پہلے ڈی ایس آفس کسی کام کے سلسلے میں گئے ۔واپسی پر انہوں جو راستہ اختیار کیا وہ بکروں کی سریوں کابازار تھا۔ وہاں جتنی بھی دکانیں کھلی تھیں ہردکان کے باہر بکروں کی گردنیں سجی ہوئی تھیں۔چونکہ مجھے بچپن سے ہی مردہ جانوروں سے خوف آتا ہے، اس لئے اس بازار سے گزرتے وقت میں بہت پریشان ہوا۔ اس بازار سے گزرتے ہوئے لاہور کا جو تصور میرے ذہن میں مو جود تھا ،وہ سارا چکنا چور ہوگیا۔ خدا خدا کرکے وہ بازار ختم ہوا ۔اب ہم اس لنڈے بازار کی طرف گامزن تھے۔ جسے دیکھنے کے لئے میں نے کئی ماہ تک ابا جی کے سر پر چٹکیاں کاٹی تھیں۔ لنڈے بازار سے پہلے نولکھا بازار آتا ہے جس کی ہر دکان سجی ہوئی تھی، اسے دیکھ کر میری آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں۔ دل چاہتا تھا کہ ابا جی سے یہیں رہنے کی اجازت لے لوں۔ لیکن ایسا کیسے ممکن تھا۔کچھ ہی دیر چلنے کے بعد ہم دائیں جانب مڑے تو ہر دکان پر پرانی کوٹ پینٹ، پرانے بوٹ، باندر ٹوپے سجے ہوئے تھے ۔ ڈرتے ڈرتے میں نے ابا جی سے پوچھا ، اباجی کیا یہی لنڈا بازار ہے۔ میری بات کو سن کر انہوں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔اب میں خود کو دنیا کا سب سے خوش تصور کرنے لگا۔ کیونکہ بے تحاشا پتلونیں اور پالش سے چمکے ہوئے پرانے جوتے میرے سامنے تھے۔ جو زمین پر بیٹھے ہوئے لوگوں نے مرمت کر کے فروخت کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ ابا جی جس دکان میں لے کر جاتے وہاں پتلون کی قیمت بتا دی جاتی ۔ خریدنے کی استطاعت تو صرف ایک پتلون کی تھی ،لیکن پسند مجھے بہت سی پتلونیں آ گئیں۔ میں یہ بھی چاہتا تھا کہ پتلون قینچی چپل پر تو پہنی نہیں جاسکے گی اس لئے پتلون کے ساتھ اگر ابا جی پرانے جوتوں کا ایک جوڑا بھی لے دیں تو میں پہلے سے دوگنی تعداد میں ان کے سر پر چٹکیاں کاٹوں گا۔
چونکہ بات پیسوں کی تھی جو والد صاحب کے پاس صرف پانچ روپے تھے اس لئے یہ خواہش میرے دل ہی میں محفوظ رہی۔ ۔ بالآخر کئی دکانیں پھرنے کے بعد فروزی رنگ کی ایک پتلون پسند بھی آگئی اور اس کا بھاؤ پانچ روپے طے بھی ہوگیا۔ جوتے اس لئے خریدے نہ جاسکے کہ اس کے لئے ابا جی کے پاس پیسے نہیں تھے۔ پتلون خرید کر والد صاحب مجھے اپنے ساتھ لے کر اسٹیشن پہنچ گئے جہاں ٹرین روانگی کے لیے تیار کھڑی تھی۔ اس لئے ہم دونوں جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اور شام ہونے سے پہلے اپنے گھر پہنچ گئے جہاں ماں سمیت دوسرے بھائی ہمارے منتظر تھے۔ ( جاری ہے)
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 790602 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.