حوا کی بیٹیاں کہاں جائیں

اہل عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے ،ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو زندہ جلا دیا جا تا تھا۔ عورت کو اسلام نے عزت بخشی ماں کے روپ میں اس کے پیروں تلے جنت کی خوشخبری سے نوازا۔ ’’عورت‘‘ جسے دین اسلام نے حقوق سے نوازا۔بہن ،بیٹی،بیوی کے درجہ میں اس کی عزت وناموس کی حفاظت کا ذمہ مردوں کے ذمہ پر رکھا۔ لیکن افسوس آج ان حوا کی بیٹیوں کی عزت کو پیروں تلے روندا جا رہا ہے۔
روندنے والا کوئی کافر ملک کا کافر انسان نہیں یہ اسلامک ملک جمہوریہ پاکستان کے کلمہ گو مسلمان کے یہاں پیدا ہونے والی ابلیس نسل کی اولادوں کا یہ کارنامہ ہے.
بہاولپور اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسرز اور اس ادارے کے چیف سیکیورٹی آفیسر کے کارنامے دیکھ کر انسانیت سے شرمند دگی ہوجاتی ہے. یہ ابلیس کی نسل کس طرح اپنی بہن ، بیٹی، بیوی سے نظریں ملاتے ہوئینگے. یہ ابلیس لوگ کس طرح ایک اسلامی مُلک اور اس کی اسلامک جامعیہ بہاولپور یونیورسٹی میں یہ کلمہ گو مسلمان بچیوں کے ساتھ ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے. یہ بدبو دار لوگ کتنے دنوں سے ماں ہوا کی بچیوں کے ساتھ یہ گناہ ونا کھیل کھیل رہے تھے. اتنے غلیظ کردار یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی افسر سید اعجاز حسین شاہ کی صورت میں یہ ریکٹ کام کررہا تھا. یونیورسٹی کی انتیظامیہ کدھر سوئی ہوئی تھی. یونیورسٹی کے سیکورٹی چیف سید اعجاز حسین شاہ کی گرفتاری کے ایک روز بعد کاروائی عمل میں آئی پولیس کے مطابق یونیورسٹی میں اساتذہ کا ایک گروپ منشیات کی فروخت اور طالبات اور اساتذہ کے جنسی استحصال میں ملوث ہے. پولیس نے مذکورہ عہدیدار کے قبضے سے آئس، جنسی گولیوں کے علاوہ طلبہ اور عملے کی قابل اعتراض ویڈیوز برآمد کی تھیں۔ پولیس نے انکشاف کیا کہ یونیورسٹی اساتذہ کا گروہ لڑکیوں کا استحصال/بلیک میل کرتا تھا اور منشیات (آئس، شراب اور چرس) کا استعمال کرکے انہیں پھنسا لیتا تھا، یہ گروہ اس قسم کی سرگرمیاں یونیورسٹی کے سیکیورٹی انچارج کی مدد سے انجام دے رہا تھا۔ اور اس میں ایک ممبر نیشنل اسمبلی کے ممبرز کا بیٹا بھی پوری طرح ملوث بتایا گیا ہے. جبکہ جنوبی پنجاب کے ہائیر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ (ایچ ای ڈی) کے سیکریٹری نے چیف سیکیورٹی افسر کے خلاف ممنوعہ مواد لے جانے/استعمال کرنے اور ان کے موبائل فون سے قابل اعتراض مواد برآمد ہونے پر درج مقدمے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے، سیکریٹری داخلہ نے 3 روز بعد رپورٹ طلب کر لی ہے۔
یہ باعث شرم ہے. ہمارے اداروں کو کیا ہوگیا ہے. کس طرح کے لوگ بھرتی کیے ہوئے ہیں . اس طرح کی پوسٹ میں ادارے کو چھ ماہ سے زیادہ ایک بندے کو ایک جگہ رکھنا اُس کی حوصلہ افزائی کرنا ہے . اس میں جو بھی قصوروار ہو ان غلیظ ابلیس نسل کرداروں کو فی الفور نوکریوں سے برخاست کرکے تفتیش کی جائے ان بدبختوں کو بالکل نہیں چھوڑنا چاہیے, چاہے وہ کسی بھی ادارے سے مُنسلق ہو سزا کا عمل جب تک نہیں ہوگا یہ چیزیں چلتی رہیں گی۔
دوسری جانب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب ( جن کی مورزخہ 29 جولائی کو استعفی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ) نے آئی جی پنجاب پولیس کے نام خط لکھ کر افسران کے خلاف مقدمے کو جھوٹا قرار دیا ہے۔ اگر یہ کیس جھوٹا اور من گھڑت ہے تو اس کی بھی صاف و شفاف تحقیقات ہونی چاہیے. کس نے اور کس کہ کہنے پر یہ سب کھیل کھیلا گیا وہ بھی عوام کے سامنے لایا جائے. اس طرح کے واقعات سے پورے ملک میں غم و غصہ کی لہر پائی جاتی ہے. یونیورسٹی انتیظامیہ اور پولیس کے متضاد موقف نے معاملات سلجھانے کے بجائے مذید الجھا دیے ہیں. چہ مگویوں کی وجہ سے اسلامی یونیورسٹی کے طلباء و طالبات اور ان کے والدین میں تشویش کی لہر دوڑنا حق بجا ہے. جب تک اس معاملے کو آخر تک نہیں پہنچایا جائیگا والدین اپنی بچیوں کے بارے میں فکرمند ہی رہیں گے. جبکہ ترجمان بہاولپور پولیس کے مطابق ان کا ادارہ “ صرف اور صرف بچوں کا مستقبل محفوظ بنارہا ہے “ اور پولیس کے پاس تمام ثبوت موجود ہیں، جو وقت پر ظاہر کیے جائینگے.
یونیورسٹی انتیظامیہ کو یونیورسٹیوں کو طلبہ کی فلاح و بہبود کے لئے حقیقی تشویش کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ صرف اپنی ساکھ کے لئے یونیورسٹیوں کو نگرانی کی ذمہ داری کو ختم کرنے سے آگے بڑھ کر تمام طلباء کے لئے ایک محفوظ کیمپس بنانے کی طرف دیکھنا چاہئیے۔
اس میں زیادہ تر قصوروار ہماری حکمران جماعتیں ہوتی ہیں. جب بھی پاکستان کی تمام جامعات کی ہائی پروفائل نوکریاں میں بھرتی کو میرٹ پر نہیں لائینگے اس طرح کے واقعات کو روکنا نااہل انتیظامیہ کے بس کی بات نہیں یہ سیاسی بھرتیاں کو قابلیت پر فوقیت دیکر کسی نااہل فرد کو اتنی اہم پوسٹ پر وائس پرنسپل پر لگاوگے وہ تو پپٹ بن کر اپنے آقاؤں کی جی حضوری میں ہی لگا رہیگا. اگر اہل لوگوں کو ان اہم عہدوں پر لیکر آؤگے تو وہ اس طرح کے حالت پر یونیورسٹی کو پہنچے ہی نہیں دیتا. ادھر تو ہر حکمرانوں نے ہر اداروں میں کٹہ کا کٹہ سفارشوں سے بھرا ہوا ہے. ہر اُمیدوار کو قابلیت پر انتیخاب کیا جائے. یہ سیاسی وغیرہ بھرتیوں پر فی الفور پابندی لگائی جائے کیونکہ جو بھی نااہل آئیگا وہ پھر نااہل لوگوں کو ہی آگے لائیگا. جس کا خمیازہ یہ ملک تقریبا 75 سال سے ہر مختلف اداروں کی تباہی کی صورت میں بھگت رہا ہے. اس وقت مُلک کے تمام گورنمنٹ اسکول و کالج اپنی تباہی کے آخری سانس لے رہے ہیں. انہیں ایک باقاعدہ منظم سازش کے تحت تباہ و برباد کردیا ہے. اب یہ ہی مافیہ پاکستان کی جامعات میں بھی کاری ضرب لگانے پہنچ گیا ہے مختلف کرداروں کی صورت میں اگر حکمرانوں نے جامعہ بہاولپور پر صیح و شفاف تحقیقات سے چشم پوشی کی تو آئندہ اگر اس طرح کا کوئی حادثہ ( اللہ نہ کرے ) رونما ہوگیا تو اللہ کی بارگاہ الہی میں سب کی پکڑ ہوئیگی اور ایسی پکڑ ہوئیگی کہ کیا انتیظامیہ، کیا حکمران، کیا ادارے غرض ہر وہ فرد جو اسکا ذمہ دار ہے. جس نے زنا کاری پر ان بچیوں کو زبردستی لگایا اُس کی پکڑ میں ایسا آئیگا دنیا میں تو زلیل و خوار ہوئیگا آخرت میں بھی جہنم ہی اُس کا مقام ہوگا..

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 191573 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.