حکومت سندھ کےمحکمہ صحت نے ’’ صحت سب کے لیے ‘‘ کے نعرے کے تحت عوام کو سستے یا مفت علاج کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کئی عشرے پہلے سے عملدرآمدی منصوبہ تشکیل دیا اور اسکا ڈھنڈورا الیکٹرک اور پرنٹ میڈیا میں خوب اشتہار چلایا گیا کہ ضلعی سطح پر سول ہسپتال، تعلقہ سطح پر تعلقہ ہسپتال سے لے کر یونین سطح تک بنیادی صحت مراکز ( بیسک ہیلتھ یونٹس) قائم کیے ہیں۔ لیکن نہ تو حکومت اپنے ان سرکاری ہسپتالوں کو درست طریقے سے چلاپارہی ہے اور نہ ہی صوبہ بھر میں اچھی دیکھ بھال کے نام پر قائم بے شمار چھوٹے بڑے ہسپتالوں کے لیے بھی کوئی عوام کے لیے بہترین علاج کی فراہمی کی پالیسیاں بنانے پر مناسب توجہ دے پائی ہے اور نہ ہی ان ہسپتالوں کی نگرانی کا کوئی اچھا نظام قائم کرنے میں اُس کی کاوشش نظر آتیں ہیں . پانچ کروڑ سے ذائد آبادی والے صوبے میں جتنے ہسپتال کام کر رہے ہیں، وہاں صرف 13 ہزار بستروں کی گنجائش موجود ہے۔ حالت یہ ہے کہ 1300 افراد کے لئے صرف ایک ڈاکٹر کی خدمات میّسر ہیں جبکہ انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق کم از کم دو ڈاکٹر موجود ہونے چاہئیں۔ نام نہاد ہیلتھ ریفارمز اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت صوبے کے ہسپتالو ں کو سرمایہ داروں کے حوالے کیا جا رہا ہے اور اب کچھ عرصہ میں ہر بڑے شہر کو ان سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کا پروگرام مرتب کیا جارہا ( جس طرح تعلیم کو پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کرکے اُس کا بیڑہ غرق کیا ہے اب ادھر بھی یہ ہی حال ہونے والا ہے ) جس سے علاج نا صرف مہنگا تو ہو گا بلکہ یہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو جائے گا ( جس طرح تعلیم عام آدمی کی دسترس سے دور ہوگئی ہے) سندھ میں سرکاری ہسپتالوں زبوں حالی کا شکار ہیں، سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر پرائیویٹ ہسپتالوں میں کام کر رہے ہیں، کروڑوں روپے بجٹ ہونے کے باوجود غریب مریضوں کو ادویات فراہم نہیں کی جاتیں ہیں. ہر بڑۓ شہر کے سول ہسپتالوں کا بجٹ کروڑوں میں ہوتا ہے تاہم ہسپتالوں میں مریضوں کو دوائیاں تک نہیں دی جاتیں نہ ہی ڈاکٹر و پیرامیڈیکل اسٹاف کا رویہ امریضوں سے بد تہذیبی جو آۓ دن پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی زینت بنا رہتا ہے.
ایک رپورٹ کے مطابق محکمہ صحت سندھ میں بھی ایسے کئی گھوسٹ ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل اسٹاف جو اپنی ڈیوٹیوں سے غیر حاضر یا صیح طرح اپنی ڈیوٹی انجام نہیں دیتے ان غیر حاضر ڈاکٹروں کی وجہ سے پورے ملک میں شعبہ صحت شدید زبوں حالی اور ابتری کا شکار ہے، کسی بھی صوبہ کو اس حالت سے باہر قرار نہیں دیا جاسکتا، خاص کر سرکاری ہسپتالوں کی حالت بد سے بدترین ہوتی جارہی ہے، صفائی ستھرائی کا تو کیا کہنا ناقص صورتحال کی وجہ سے یہ سرکاری ہسپتال بیماریوں کی جڑ بن گئے ہیں. دور دراز اور اندرون سندھ چھوٹے شہروں، گاؤں دیہات کے رہائشی اپنے مریضوں کے علاج کے لیے بڑے شہروں کی طرف رخ کرنے پر مجبور ہیں۔ ان مریضوں کو ان کے آبائی علاقوں میں علاج کی سہولیات مہیا کرنے میں سندھ گورنمنٹ یکسر ناکام ہوچکی ہے۔ لاکھوں روپے تعلیم پر خرچ کرنے والے ڈاکٹرز سرکاری ہسپتالوں میں تعیناتی کے بعد بھاری تنخواہیں تو وصول کرتے ہیں لیکن عوام کی خدمت کرنے کے بجائے اپنے ذاتی پرائیوٹ کلینکس کو ٹائم دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے کلینکس میں رش رہتا ہے مسیحاؤں کا یہ طرز عمل شرمناک اور شعبہ طب کی عظمت پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔ حکومت سندھ کو شعبہ صحت کی بہتری کے لیے فوری اقدامات کے ساتھ ایسے ڈاکٹرز کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لانی چاہیے۔ صوبہ سندھ میں کل تقریبا 23 کالجز ہیں جن میں 15نجی تعلیمی ادارے شامل ہیں، سندھ میں بارہ نجی ڈینٹل کالج ہیں جبکہ پانچ پرائیوٹ میڈیکل یونیورسٹی موجود ہیں ادھر سندھ کے ہسپتالوں کا کیا کہنا ، پورے پاکستان میں صحت کی سہولیات ناکافی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحت کا شعبہ انتہائی بدترین حالت میں پایا جاتا ہے۔
پاکستان میں 60 فیصد سے ذائد لوگ نجی ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور نجی ہسپتالوں بھی اب خدمت کے نام پر نوٹ چھاپ رہے ہی کچھ سال پہلے انٹرنیشنل ہسپتالوں کی رینکنگ کے عالمی ادارے ’’رینکنگ ویب آف ہاسپیٹلز‘‘ نے ہسپتالوں کی رینکنگ جاری کی ، جس کے مطابق پاکستان کا کوئی سرکاری ہسپتال دنیا کے ساڑھے5 ہزار بہترین ہسپتالوں میں شامل نہیں۔اسلام آباد کا “پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘‘ یعنی پمز جسے پاکستان کا بہترین ہسپتال مانا جاتا ہے وہ بھی دنیا کے بہترین ہسپتالوں کے مقابلے میں کچھ نہیں۔دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں پمز کی رینکنگ 5911 نمبر پر رہی ہے یہ ہمارے ملک اور اسکی عوام کے لیے شرم کا مقام ہے . کہ ہمارے ملک کے اسپتالوں کا دنیا میں یہ مقام ہے .ملک کی آبادی 23 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے، ہسپتالوں کی یہ تعداد انتہائی ناکافی ہے لہٰذا چھوٹے شہروں اور قصبوں کو تو جانے دیجیے، بڑے شہروں میں سرکاری ہسپتال زبوں حالی کی منہ بولتی تصویر بنے ہوئے ہیں۔متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ (جو کل آبادی کا 70فیصد کے لگ بھگ ہیں) انہی سرکاری ہسپتالوں میں علاج کروانے پر مجبور ہیں، جہاں ہر قسم کی طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ناقص حکمت عملی اور غیر سنجیدہ رویئے کے باعث صحت کی صورتحال سنگین اور مختلف بیماریوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، پاکستانی کبھی ڈینگی، سوائن فلو اور خسرہ جیسی وباؤں سے مر رہے ہیں تو کبھی پولیو جیسی بیماری عمر بھر کی معذوری دے کر ان کی زندگی کو موت سے بھی بدتر بنا دیتی ہے۔ اندرون سندھ میں کتے اور سانپ کے کاٹنے کے انجکشن نہ ہونے کے برابر ہیں کئی بچے کتے کے کاٹنے سے موت کی وادی میں بھی جاچکے ہیں.
ڈاکٹر، ادویات اور دیگر سہولیات سے محروم ان غریب مریضوں کاسرکاری ہسپتالوں میں کوئی پْر سانِ حال نہیں شعبہ صحت کی بدحالی کے ذمہ دار صرف حکمران ہی نہیں، اس تباہی میں بیوروکریسی ہسپتالوں کی انتظامیہ، ڈاکٹرز و دیگر اسٹاف نے بھی کردار ادا کیا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان آج بھی مجموعی قومی پیداوار کا صرف 2 فیصد شعبہ صحت پر خرچ کرتا ہے۔ 23 کروڑ کی آبادی کے لئے چند ہزار سرکاری علاج گاہیں اور ان میں بھی ادویات، ڈاکٹر، پیرا میڈیکل ا سٹاف، بیڈز اور دیگر مشینری کی کمی نے مسائل کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ شعبہ صحت کے انتظامی معاملات، سروس اسٹرکچر اور سیکیورٹی جیسے معاملات۔ تمام سرکاری ہسپتالوں کے حالات یہ ہیں کہ انسانیت ہسپتالوں کی راہ داریوں میں سسکتی رہتی ہے. سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز مریضوں کو پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کا مشورہ دیتے ہیں. جس کی بڑی وجہ ہسپتالوں کی لیبارٹریوں میں تعینات ناتجربہ کار اور سفارشی عملہ اور جدید مشینری کی کمی ہے. حکومت کی طرف سے سرکاری ہسپتالوں کو عوام کے علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کیلئے اربوں روپے کے فنڈز فراہم کیئے جاتے ہیں اس کے باوجود عوام کو وہ سہولتیں نہیں فراہم کی جاتیں جس کے وہ حقدار ہیں دوائیاں بھی مریضوں کو فراہم نہیں کی جاتیں جس کے وہ حقدار ہیں
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو صحت کی سہولیات کے لحاظ سے فہرست میں سب سے نیچے آتے ہیں۔ حکومت جی ڈی پی کا صرف 0.9فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرتی ہے اور اس کا بھی ایک بڑا حصہ حکومتی نمائندوں، افسر شاہی اور محکمہ صحت کے انتظامی اہلکاروں کی کرپشن اور بد عنوانی کی نظر ہو جاتا ہے صوبہ سندھ میں سرکاری صحت کے مراکز کی تعداد تقریباً ڈھائی ہزار ہے جن میں سے اکثریت عدم توجہ کے باعث کھنڈرات بن چکے ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ دستیاب وسائل پر ہی ایمانداری سے توجہ دی جائے تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے. سرکاری سطح پر بڑے ہسپتالوں سمیت صحت کے ڈھائی ہزار کے قریب مراکز ہیں لیکن صوبے کی 55 فیصد عوام سرکاری سطح پر علاج سے محروم ہیں۔ جب کہ صحت کے بجٹ میں مختص رقم ماہانہ 100 روپے سے بھی کم ایک شخص کے لیے خرچ ہوتے ہیں۔محکمہ صحت کے حکام بھی اعتراف کرتے ہیں کہ صوبے میں صرف 45 فیصد افراد کی پہنچ میں سرکاری سطح پر صحت کی سہولیات ہیں۔ حکمران شعبہ صحت کی بحالی میں کس قدر سنجیدہ ہیں، اس کا ایک اندازہ ہیلتھ بجٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان آج بھی مجموعی قومی پیداوار کا صرف 2 فیصد شعبہ صحت پر خرچ کرتا ہے۔اس حوالے سے ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ صحت کے لئے مختص بجٹ بھی شفاف طریقے سے مکمل طور پر استعمال ہی نہیں کیا جاتا اور مالی سال ختم ہونے پر فنڈز واپس چلے جاتے ہیں. پاکستان میں صحت کے انفرا سٹرکچر کی مایوس کن صورتحال کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم ایسے ماہر ڈاکٹروں کو تیار کرنے میں ناکام ہورہے ہیں جو اپنے مقدس پیشہ کا وقار بلند رکھیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے میڈیکل کے پیشہ کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ بد ترین بد عنوانیوں میں ملوث رہیں۔ کیونکہ جو فنڈ دئیے جاتے ہیں وہ آپس میں خردبرد کرلے جاتے ہیں کسی ادارے کو کوئی سروکار نہیں جو ان سے بازپرس کرسکے..
|