دنیا اب ہاتھی،گدھے کے مکروہ کھیل سے تنگ آچکی ہے۔ اس سیاسی کھیل پر دنیا بھر میں سینکڑوں کتب رسائل اور ہزاروں مضامین لکھے اور چھاپے جا چکے ہیں۔ ہاتھی،گدھا گو الگ الگ شناختیں اور ٹائٹل رکھتے ہیں،مگر ایک ہی نظام یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے تابع مرضی ہیں۔ ہاتھی نشان کی حامل ریپبلکن پارٹی کو امریکی سیاسی اصطلاح میں دائیں بازو یا قدامت پرست کہتے ہیں اور اس کے صدارتی امیدوار ٹرمپ جو ہار کر امریکی تاریخ میں ایک اضافی سیاہ باب کے ساتھ رخصت ہوئے۔ گدھے نشان کی حامل ڈیموکریٹ پارٹی کو سیاسی اصطلاح میں بائیں بازو یا ترقی پسند جماعت کہا جاتا ہے، اس کے صدارتی امیدوار جوبائیڈن جو امریکی صدارتی الیکشن جیت کر پچیس ہزار نیشنل گارڈز کی سخت ترین سکیورٹی اور دارالحکومت میں ایمرجنسی کے سایہ میں حلف اٹھا چکے ہیں۔ اس چہرہ تبدیلی کی رسم سے کوئی یہ امید کرکے توقع کرے کہ اب دنیا میں کوئی عادلانہ، مساویانہ،منصفانہ معاشی انقلاب یا کوئی بڑی تبدیلی واقع ہونے جا رہی ہے تو ایسا کچھ بھی نہیں،کیونکہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح امریکی صدارتی انتخابات میں بھی چہرے بدلتے ہیں نظام نہیں،اگر پردہ سکرین سے چہرے ہٹا دیئے جائیں تو آپ دیکھ پائیں گے کہ ہاتھی،گدھا پالیسیوں کے اعتبار سے کتنی مماثلت اور کتنی یکسانیت رکھتے ہیں۔ پہلے ان دو بڑی امریکی سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشانات کا پس منظر دیکھتے ہیں جو حقیقت سے خالی نہیں "تھامس ناسٹ" یہ ایک امریکی کارٹونسٹ تھا جو امریکی سیاست کو ایک سرکس تصور کرتا تھا اور دونوں پارٹیوں پر اپنے طنزیہ خاکوں سے خوب تنقید کرتا تھا دونوں جماعتوں کو گدھے اور ہاتھی سے تشبیہ دیتا تھا یہ خاکے اتنے مشہور ہوئے کہ ریپبلکن پارٹی نے باضابطہ طور پر ہاتھی کو بطور پارٹی نشان اپنا لیا اور ڈیموکریٹس کے حصہ میں گدھا آیا جو آج امریکہ کی حکمراں جماعت ہے۔ دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت کا دعوے دار اور خود کو ساری دنیا میں جمہوریت کا ٹھیکیدار کہلوانے والا امریکہ اور اس کی دونوں بڑی جماعتیں اور اس کے اتحادی دراصل ایک ہی باپ یعنی "سرمایہ دارانہ اور طاغوتی نظام" کی اولادیں ہیں ایسا نظام جس کو دنیا کا کوئی بھی مذہب سپورٹ نہیں کرتا جو اس باطلانہ،جابرانہ اور ظالمانہ نظام کے خالق ہیں وہ تمام کے تمام مذہب پرست ہیں وہ خدا اور اپنے اپنے رسولوں، اپنی اپنی الہامی کتابوں پر ایمان کے دعویدار بھی ہیں مگر نہ ہی خدا اور نہ ہی ان کے رسول نہ ہی ان کی نازل کردہ کتابیں اس موجودہ باطل نظام کی تائید کرتی ہیں۔ بلکہ اس سرمایہ دارانہ نظام نے تو مذاہب کو بوقت ضرورت استعمال کر تے آئے ہیں۔ پوپ کو بھی کہنا پڑا کہ" سرمایہ دارانہ نظام انسانوں کے تحفظ میں ناکام ہو گیا ہے" امریکہ کی یہ دو بڑی جماعتیں اس نظام سرمایہ داری کی صرف محافظ ہی نہیں بلکہ عسکری بل بوتے پر غیر منصفانہ اقتصادی تعلقات دنیا بھر پر مسلط کر رکھے ہیں۔ معاشی، سیاسی، عسکری اور جاسوسی آلات سے دنیا کوجکڑ رکھا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ترقی پذیر ممالک سے ہر سال تقریبا ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ترقی یافتہ ملکوں کی طرف منتقل ہوتا ہے ۔ آج بھی اس نظام کی بدولت مغربی بینکوں میں ترقی پذیر ممالک کے سات ہزار ارب ڈالر موجود ہیں اس نظام کی پیداکردہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ کھسوٹ کا عالم یہ ہے کہ ہر سال غریب ممالک سے 600 ارب ڈالر صرف ٹیکس چوری کرتیں ہیں۔ امریکہ کی ہر دو پارٹیوں کا اتفاق ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک خاص کر غریب ملکوں کے اندرونی معاملات میں داخل رہیں اور ان مداخلتوں کے محرکات ایسی حکومتوں کا قیام اور قوانین تشکیل دینا ہے جس سے امریکا کے معاشی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ مداخلت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آج دنیا میں امریکہ وہ واحد ملک ہے جس کی افواج دوسرے ملکوں کی سرزمین پر موجود ہے، دنیا میں 60 سے 65 ممالک ایسے ہیں جہاں امریکی عسکری تنصیبات موجود نہیں۔ امریکی مداخلت کا عالم یہ ہے کہ وہ چاہیں تو ملکوں ملکوں مارشل لاء لگ جائیں وہ چاہیں تو خود ساختہ جمہوری حکومتیں بحال ہوجائیں وہ چاہیں تو ایمرجنسی کا نفاذ ہو جائے وہ چاہیں تو جمہوری حکومتیں منھ کے بل گر جائیں وہ چاہیں تو بادشاہت اس دور میں بھی قائم رہ جائیں وہ چاہیں تو حکمران قیادتوں کو معزول کرادیں چاہیں تو کسی بھی قیادت کو قتل کر دیں یا کروادیں۔ گدھے، ہاتھی کی حامل جماعتوں کو ترقی پذیر اور خاص مسلم ممالک میں کہیں بھی آزاد سیاسی قد کاٹھ کے حامل رہنما درکار نہیں ان کو صرف "ایجنٹوں" "غلاموں" اور اطاعت گزاروں کی ضرورت ہے امریکی ایجنٹ بادشاہ ہو یا فوجی وردی میں ملبوث آمر یا جمہوری رہبر امریکہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس کو ایجنٹ ہر لباس میں پسند ہیں، ایسے ظالمانہ،جابرانہ،
غیرمنصفانہ استحصالی نظام اور اس کے محافظوں کو اب زمین بوس ہو جانا چاہیے کیونکہ یہ نظام دنیا کو ایک عادلانہ منصفانہ معاشی نظام دینے سے از خود گریزاں رہا ہے بلکہ لوٹ کھسوٹ اور استحصال سے دنیا کی دولت کا بیشتر حصہ چند ہاتھوں میں مرکوز کر دیا ہے۔ جس سے عالمی بھوک مری میں بے پناہ اضافہ ہوا دوسرا یہ کہ یہ نظام افراد کے انسانی حقوق، وقار اور حیات کا دشمن رہا ہے۔ کیونکہ ان کے جنگی ساز وسامان نے لاکھوں افراد کی جان ہی نہیں لی بلکہ ماحولیات کو بھی تاریخ کا سب سے بڑا نقصان پہنچایاہے۔ایک محقق جغرافیہ کا کہنا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی فوج کی موجودگی کا مطلب لازمی طور پر ماحول کی تباہی ہے۔ امریکی فوج تو دنیا کے ہر خطے میں موجود ہے ویتنام جنگ بھی تو امریکی کارنامہ ہے۔ ہیروشیما دو لاکھ کی آبادی کے اس شہر میں ایک لاکھ سے زائد انسان ہلاک اور باقی زخمی ہوئے،زمین فصل دینے سے آج بھی قاصر ہے۔ سرد جنگ بھی تو امریکی مہذب جمہوریت کے کھاتے میں پڑی ہوئی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی ہر دو جماعتوں کی کیا پالیسی رہی ہے؟ جواب تیل کی بھوک، اس بھوک نے عراق میں کئی ایسی جنگوں کو جنم دیا ہے ۔ ماہرین جانتے ہیں کہ پٹرولیم اور جنگ کے درمیان کتنا گہرا رشتہ ہے جدید جنگ کا انحصار تیل پر ہے تو کیوں نہ مشرق وسطی کو گھیر کر رکھا جائے اور جنگی خوف میں مبتلا رکھا جائے اور جہاں جہاں تیل کے عالمی کنوئیں موجود ہیں وہاں ان کی بادشاہتوں اور غیر جمہوری حکومتوں کی سرپرستی جاری رکھی جائے۔ نئی امریکی انتظامیہ مشرق وسطی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لائے گی بلکہ حسب معمول اسرائیلی ساہوکاروں کے مطابق کام کرتی رہے گی اور مسئلہ فلسطین کا بیانی جمع خرچ حل نکالنے کی کوشش کرتی رہے گی۔ اسی جماعت کے سابق صدر اوباما نے امن کا نوبل انعام لے کر بھی فلسطین کے لیے کیا کیا؟امریکہ کےلئے اب وہ ساز گار ماحول نہیں رہا۔ اب مزید مسائل ہی مسائل کھڑے انتظار کر رہے ہیں۔مشرق وسطی خود ایک سنگین ترین مسئلہ ہے۔عرب ایران توازن بھی مسئلہ ہے، پھر اس پر اسرائیلی ناراضگی بھی مسئلہ ہے،گولان پہاڑیاں اور یروشلم امریکی سفارت خانہ پر کیا نظر ثانی کی جائے گی؟ جو ممکن نہیں لبنان اور پھر شام کا پیچیدہ مسئلہ بھی تو ایک خطرناک مسئلہ ہے،ایران کے بڑھتے ہوئے چین،روس تعلقات بھی تو امریکہ کےلئے نہ ہضم ہوتا مسئلہ ہے"جوہری معاہدہ ایران" میں جانا نہ جانا بھی ایک سلگتاہوا مسئلہ تو ہے جس معاہدے کا خالق خود بائیڈن تھا اب واپسی سے اسرائیلی ناراضگی بھی تو ایک مسئلہ بنےگا،افغانستان پر 20 سالہ مسلط جنگ جو اب تک ختم نہ ہو سکی افغانستان سے فوجوں کے انخلاء سے ایران،چین کے اثرات بڑھنے کے مترادف نہ ہو گا؟ افغانستان سے نکلنا بھی مسئلہ نہ نکلنا بھی مسئلہ، پاکستان گو کہ امریکہ سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے مگر یہ خواہش بھی رکھتا ہے کہ امریکا اس کے ساتھ اپنے تعلقات کو افغانستان تناظر میں نہ دیکھے،مگر موجودہ حالات پاکستان کا چین پر معاشی اور فوجی انحصار اور امریکی صدر بائیڈن کی افغان امن معاہدے پر نظرثانی دلالت کرتی ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کا محور افغانستان تک ہی محدود رکھا جائے گا۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ امریکی دباؤ پاکستان پر مزید بڑھے گا اندیشہ موجود رہے گا کہ اب پاکستان مزید دباؤ برداشت کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے یا نہیں یہ بھی ایک مسئلہ رہے گا۔چین کی بڑھتی معاشی، فوجی طاقت اور دنیا میں بڑھتے معاشی اثرات اور اوپن منڈیوں تک رسائی بھی امریکہ کےلئے ایک حقیقی چیلنجز کا درجہ رکھتی ہے، اس کے ساتھ ہی تائیوان کا مسئلہ۔ یہ تمام مسائل اور اس طرح کے دیگر خارجی مسائل اپنی جگہ پر مسلمہ حقیقت ہیں مگر امریکہ کے داخلی مسائل بھی کوئی کم درجہ نہیں رکھتے سرفہرست امریکہ کو معاشی انحطاط کا سامنا ہے دوسرا کورونا تیسرا منقسم امریکہ چوتھا نسلی تعصب پانچواں بےروزگاری اور اس طرح کے دیگر مسائل بھی ایک طوفان کھڑا کر سکتے ہیں۔ تو دیکھتے ہیں کہ بائیڈن اور اسکی انتظامیہ ان مذکورہ داخلی و خارجی کشیدہ حالات سے کیسے نکلتے ہیں اور اس باطل نظام کو کیسے بچاتے ہیں۔ جو مکروہ اور استحصالی جال دنیا کےلئے بچھایا گیا تھا آج امریکہ اور اس کا نظام بری طرح لپیٹ میں ہے۔ محققین اقتصادیات تو کہتے آرہے ہیں کہ اس نظام کو ایک معاشی جھٹکا 1929ء اور ایک 2008ء کو خود ان کی وضع کردہ پالیسیوں کی بدولت لگ چکا ہے۔اب کا موجودہ عالمی بحران تو ابھی شروع ہوا ہےاس کے حتمی نتائج ابھی انا باقی ہیں۔ بقول علامہ اقبال کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
|