دنیا میں روشنی پھیلانے کی ایلیٹ کلاس درسگاہوں کی نہیں ایسے طالب علم کی ضرورت ہے

آج کل اخبارات و الیکٹرونک میڈیا میں کیمبرج سسٹم کے تحت امتحانات کی بازگشت جس طرح پھیل رہی ہے اور میڈیا میں جس طرح اس کی کوریج دی جارہی ہے. اس سے پاکستان کے تعلیمی سسٹم پر جس طرح مذاق و جگتیں کیں جارہی ہیں. ایسا لگتا ہے بس تعلیم ان کیمبرج سسٹم میں ہی ہے. اور ادھر ایلیٹ کلاس کے بچے جو ان درسگاہوں سے نکلیں گے وہ ہی اس ملک کی بہترین زہن ہیں . جبکہ پاکستانی تعلیمی سسٹم کو ناکارہ اور مفلوج زدہ سسٹم قرار دیا جارہا ہے. جس طرح ان کیمبرج سسٹم میں والدین اپنے بچوں کی لاکھوں روپیہ فیس ادا کرکے بچوں کو تعلیم دلوارہے ہیں. اپنے بچوں پر کروڑوں روپیہ لگاکر باہر بھیج کر اعلی تعلیم دلوارہے ہیں .مگر پھر وہ بچے کوئی تخلیقی کام کرکے نہ ملک اور نہ ہی اپنے والدین کا نام روشن کررہے ہیں . جبکہ ان کے بڑوں نے جو ان پر پیسہ لگایا وہ کس طرح سے حاصل کررہے ہیں وہ اس ملک کا ہر فرد جانتا ہے.
جبکہ دنیا میں روشنی پھیلانے کی ایلیٹ کلاس درسگاہوں کی نہیں ایسے طالب علم کی ضرورت ہے. وہ غربت ہو یا پسماندگی جب وہ محنت کرنے کی طرف جستجو میں لگ جاتے ہیں. پھر اُنہیں دنیا کی کوئی طاقت چاہے دو طبقاتی تعلیمی نظام لے آئے. تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم رائج کردے، قابلیت کو پس پُش ڈالدے. درسگاہوں کا پھیلاؤ پر روک لگا دے مگر جو طالب علم ایک طرح آگے بڑھنے کی جستجو میں لگ جائے پھر دنیا کی کوئی طاقت اُس کا راستہ نہیں روک سکتی . اس ہی جستجو میں یہ پولینڈ کی لڑکی نے کر دیکھایا.
پولینڈ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک غریب لڑکی رہتی تھی۔
اس کا نام مانیا سکلوڈو وسکا تھا۔
وہ ٹیویشن پڑھا کے گزر بسر کرتی تھی۔
19 برس کی عمر میں وہ ایک امیر خاندان کی دس سال کی بچی کو پڑھاتی تھی۔
بچی کا بڑا بھائی اس میں دلچسپی لینے لگا۔ وہ بھی اس کی طرف مائل ہوگئی، چنانچہ دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
جب لڑکے کی ماں کو اس معاملے کا پتہ چلا تو اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اس نے مانیا کو کان سے پکڑا اور پورچ میں لا کھڑا کیا۔ اس نے آواز دے کے سارے نوکر جمع کئے اور چلا کر کہا، دیکھو!
یہ لڑکی جس کے پاس پہننے کیلئے صرف ایک فراک ہے۔ جس کے جوتوں کے تلووں میں سوراخ ہیں۔ اور جسے 24 گھنٹے میں صرف ایک بار اچھا کھانا نصیب ہوتا ہے، اور وہ بھی ہمارے گھر سے۔
یہ لڑکی میرے بیٹے کی بیوی بننا چاہتی ہے۔
یہ میری بہو کہلانے کی خواہش پال رہی ہے۔ تمام نوکروں نے قہقہہ لگایا اور خاتون دروازہ بند کر کے اندر چلی گئی۔ مانیا کو یوں محسوس ہوا، جیسے کسی نے اس کے اوپر تیزاب کی بالٹی الٹ دی ہو۔ وہ توہین کے شدید احساس میں گرفتار ہوگئی۔ اور اس نے اسی پورچ میں کھڑے کھڑے فیصلہ کیا، وہ زندگی میں اتنی عزت، اتنی شہرت کمائے گی، کہ پورا پولینڈ اس کے نام سے پہچانا جائے گا۔
‏یہ سن 1891ء تھا۔ وہ پولینڈ سے پیرس آئی۔ اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا، اور فزکس پڑھنا شروع کردی۔
وہ دن میں 20 گھنٹے پڑھتی تھی۔ اس کے پاس پیسہ دھیلا تھا نہیں، جو کچھ جمع پونجی تھی، وہ اسی میں گزر بسر کرتی تھی۔ وہ روز صرف ایک شلنگ خرچ کرتی تھی ( یعنی چند پیسے ) اس کے کمرے میں بجلی، گیس اور کوئلوں کی انگیٹھی تک نہیں تھی۔ وہ برفیلے موسموں کی راتیں کپکپا کر گزارتی تھی۔ جب سردی برداشت سے باہر ہو جاتی تھی، تو وہ اپنے سارے کپڑے نکالتی تھی۔ آدھے بستر پر بچھاتی تھی، اور آدھے اپنے اوپر اوڑھ کے لیٹ جاتی تھی۔ پھر بھی گزارہ نہ ہوتا، تو وہ اپنی ساری کتابیں حتیٰ کہ اپنی کرسی تک اپنے اوپر گرا لیتی تھی۔
پورے پانچ برس اس نے ڈبل روٹی کے سوکھے ٹکڑوں اور مکھن کے سوا کچھ نہ کھایا۔
نقاہت کا یہ عالم ہوتا تھا وہ بستر پر بیٹھے بیٹھے بے ہوش ہو جاتی تھی، لیکن جب ہوش آتا تھا، تو وہ اپنی بے ہوشی کو نیند قرار دے کر خود کو تسلی دے لیتی تھی۔
وہ ایک روز کلاس میں بے ہوش ہوگئی، ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کرنے کے بعد کہا، آپ کو دواء کی بجائے دودھ کے ایک گلاس کی ضرورت ہے۔
اس نے یونیورسٹی ہی میں پائری نام کے ایک سائنس دان سے شادی کر لی تھی۔
وہ سائنس دان بھی اسی کی طرح مفلوک الحال تھا۔
شادی کے وقت دونوں کا کل اثاثہ دو سائیکل تھے۔ وہ غربت کے اسی عالم کے دوران پی ایچ ڈی تک پہنچ گئی۔
مانیا نے پی ایچ ڈی کیلئے بڑا دلچسپ موضوع چنا تھا۔
اس نے فیصلہ کیا وہ دنیا کو بتائے گی یورینیم سے روشنی کیوں نکلتی ہے۔ یہ ایک مشکل بلکہ ناممکن کام تھا۔ لیکن وہ اس پر جت گئی۔
تجربات کے دوران اس نے ایک ایسا عنصر دریافت کر لیا، جو یورینیم کے مقابلے میں 20 لاکھ گنا زیادہ روشنی پیدا کرتا ہے۔ اور اس کی شعاعیں لکڑی، پتھر، تانبے اور لوہے غرض دنیا کی ہر چیز سے گزر جاتی ہیں، اس نے اس کا نام ریڈیم رکھا۔
یہ سائنس کی دنیا میں ایک بہت بڑا دھماکہ تھا۔
لوگوں نے ریڈیم کا ثبوت مانگا، مانیا اور پائری نے ایک خستہ حال احاطہ لیا، جس کی چھت سلامت تھی اور نہ ہی فرش۔
اور وہ چار برس تک اس احاطے میں لوہا پگھلاتے رہے۔
انہوں نے تن و تنہا 8 ٹن لوہا پگھلایا۔ اور اس میں سے مٹر کے دانے کے برابر ریڈیم حاصل کی۔
یہ چار سال ان لوگوں نے گرمیاں ہوں یا سردیاں اپنے اپنے جسموں پر جھیلیں۔
بھٹی کے زہریلے دھوئیں نے مانیا کے پھیپھڑوں میں سوراخ کر دیئے۔ لیکن وہ کام میں جتی رہی، اور اس نے ہار نہ مانی۔
یہاں تک کہ پوری سائنس اس کے قدموں میں جھک گئی۔
یہ ریڈیم کینسر کے لاکھوں کروڑوں مریضوں کیلئے زندگی کا پیغام لے کر آئی۔
ہم آج جسے شعاعوں کا علاج کہتے ہیں، یہ مانیا ہی کی ایجاد تھی۔
اگر وہ لڑکی چار سال تک لوہا نہ پگھلاتی، تو آج کیسنر کے تمام مریض مر جاتے۔
یہ لڑکی دنیا کی واحد سائنس دان تھی جسے زندگی میں دوبار نوبل پرائز ملا۔
جس کی زندگی پر 30 فلمیں اور سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں۔
اور جس کی وجہ سے آج سائنس کے طالب علم پولینڈ کا نام آنے پہ سر سے ٹوپی اتار اس ملک کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
جب دنیا نے مادام کیوری کو اس ایجاد کے بدلے اربوں ڈالر کی پیش کش کی، تو اس نے پتہ ہے کیا کہا؟
اس نے کہا۔ میں یہ دریافت صرف اس کمپنی کو دوں گی، جو پولینڈ کی ایک بوڑھی عورت کا مفت علاج کرے گی۔
جی ہاں! وہ امیر پولش عورت جس نے کبھی کیوری کو کان سے پکڑ کر باہر نکال دیا تھا۔ وہ عورت کینسر کے مرض میں مبتلا ہو چکی تھی اور وہ اس وقت بستر مرگ پر پڑی تھی🍁🍂۔۔۔

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 193010 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.