پی ٹی آئی بمقابلہ پی ٹی ایم
(Umair kham, BAJAUR)
تصویر پی ٹی ایم کی اسلام آباد جلسے کی ہے
اسلام آباد میں پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے کے بعد سوشل میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف اور پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں میں بحث کی نئی جنگ چھڑ گئی ہے۔
منظور احمد پشتین کی بےباک باتیں اور ریاستی اداروں بالخصوص اسٹبلشمنٹ کو کھل عام تنقید کا نشانہ بنانے پر پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کا خیال ہے کہ منظور آج تک زندہ کیسے ہیں ؟
بظاہر تو اس بات میں کوئی لاجک نہیں ہے کیونکہ ان کی نزدیک منظور احمد پشتین تب تک اسٹبلشمنٹ کا بندہ رہےگا جب تک اسکو خدا نخواستہ مار نہیں دیا جاتا، وہ منظور احمد پشتین کو مقتدر حلقوں کا بندہ کیوں قرار دیتے ہیں اس کی ایک اہم وجہ وہ عدم اعتماد کے ووٹ میں محسن داوڑ اور علی وزیر کا شہباز شریف کو ووٹ دینا سمجھتے ہیں ۔
اس سے پہلے کہ ہم محسن داوڑ اور علی وزیر کے شہباز شریف صاحب کو ووٹ دینے کی وجوہات جاننے ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان نے پی ٹی ایم کو را اور این ڈی ایس ( RAW, NDS) کے ایجنٹ قرار دیا تھا یہ تب کی بات ہے جب پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان سوشل میڈیا پر ففتھ جنریشن وارئر ہوا کرتے تھے۔
اب ہم عدم اعتماد کے ووٹ میں شہباز کو ووٹ دینے کی وجوہات جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یاد رہے کہ محسن داوڑ اس وقت پشتون تحفظ موومنٹ کا حصہ نہیں ہے، محسن داوڑ پارلیمانی سیاست میں عملی طور پر داخل ہوچکے ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنی ایک پارٹی بنائی ہے ' نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ ' کے نام سے، یاد رہے کہ اسلام آباد جلسےمیں دعوت کے باوجود بھی محسن داوڑ نے شرکت نہیں کی.
دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو پشتون تحفظ موومنٹ ایک غیر سیاسی تحریک ہے جو پرامن مزاحمت پر یقین رکھتی ہے۔ منظور احمد کو کئی دفعہ سیاسی جماعتوں کے بارے میں سخت موقف اپنانے پر پشتون نشنلسٹ پارٹیوں بلخصوص عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
اب آتے ہیں عدم اعتماد کےووٹ کی طرف ۔
یاد رہے کہ پی ٹی ایم نے خان صاحب کی حکومت سے پہلے اپنے مظاہرے عملی شکل میں شروع کردی تھی ، جسکے بارے میں خان صاحب نے خود کہا کہ " یہ تحریک اسلئے اٹھی کیونکہ وہاں کے لوگوں کیساتھ بڑی زیادتیاں ہوئی ہے"
جب الیکشنز کا وقت آگیا تو علی اور محسن داوڑ نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ، لیکن منظور احمد پشتین اس وقت سے یہ کہتے آرہے تھے کہ اگر کوئی پی ٹی ایم کے نام پر ووٹ مانگنے آجاتا ہے تو اسکو پی ٹی ایم کی وجہ سے ووٹ نہ دیا جائے کیونکہ پشتون تحفظ موومنٹ
ایک غیر پارلیمانی تحریک ہے۔
جب الیکشنز ہوگئے تو علی اور محسن آزاد حیثیت سے کامیاب ہوگئےاور خان صاحب کی دعوت کے باوجود بھی انہوں نے حکومت جوائن نہیں کی اور آزاد حیثیت سے سیاست جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
خان صاحب کی حکومت میں پی ٹی ایم پر ہر غیر انسانی حربہ استعمال کیا گیا، منظور کو کئی بار گرفتار کیا گیا ، پاکستان کے بڑے شہروں میں جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ، آئی ڈی کارڈ بلاک ، سم کارڈ بلاک ، بم بلاسٹ ، خڑ کمر واقعے میں درجن سے زیادہ پی ٹی ایم کے کارکنان کو شہید کردیا گیا، محسن کو کئی بار گرفتار کر دیا گیا ، علی وزیر ،حنیف پشتین چار سال جیل میں رہے جبکہ سینکڑوں اب بھی جیلوں میں ہیں ، میڈیا پر انکا انا بند کردیا گیا۔
چونکہ علی وزیر اور محسن داوڑ اس علاقے سے تھے اور پی ٹی ایم سے انکا تعلق بھی تھا تو ظاہر ہے وہ دونوں اس مظالم کیخلاف اسمبلی فلور پر آواز اٹھاتے تھے لیکن پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اول تو انکو بولنے نہیں دیا جاتا تھا اور جب بولتے تو مراد سعید ، شہریار آفریدی ،علی محمد
خان اور باقی رہنما الٹا ان ہی کو مورد الزام ٹھہراتے
تھے اور ملک دشمن را، NDS
ایجنٹ قرار دیتے تھے، فارن فنڈرز کہا کرتے تھے کیونکہ اس وقت بڑے صاحب سے لڑائی نہیں ہوئی تھی انکی ، تو اسی طرح PTI نے پی ٹی ایم کو ستانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور انکو غدار ثابت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
جبکہ اسکے برعکس PDM نے ptm کیلئے نرم گوشی سے کام لیا اور ان سے قربت بڑھانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی ، مریم نواز اور بلاول کی ٹویٹس اور بیانات on the record ہے ، بیچ میں محسن نے اپنی پارٹی کا اعلان کیا جبکہ علی وزیر نے آزاد ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔
اب جب عدم اعتماد کا معاملہ آیا تو PDM نے محسن داوڑ اور علی وزیر سے رابطے بڑھانے کی کوششیں تیز کردی، تب تو محسن داوڑ ایک سیاسی پارٹی کا سربراہ بھی تھا تو اس نے سیاسی فیصلہ کردیا اور علی چونکہ PTI کے دور میں شروع سے جیل میں تھے اور اوپر سے ان سب کو حد سے زیادہ ٹارچر کیا گیا تھا pti کی طرف سے اور pti نے کوئی ایسا خانہ خالی نہیں چھوڑا تھا جس کی بنیاد پر علی اور محسن عدم اعتماد میں پی ڈی ایم کا ساتھ نہ دیتے ، اور اوپر سے PDM نے ان سے کافی وعدے بھی کیے تو اصولی طور پر انکے پاس PDM کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا اسلئے انہوں نے رجیم چینج میں شہباز کو ( جو کہ بظاہر ایک جمہوری طریقہ تھا ) سپورٹ کیا۔
اب پی ٹی ایم کی نزدیک پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم حکومت میں کوئی خاص فرق نہیں تھا بلکہ منظور کے مطابق پی ڈی ایم حکومت نے سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی کی، لیکن جب علی اور محسن یہ مظالم اسمبلی فلور پر بیان کرتے تھے تو انکو جواب دینے کیلئے مراد سعید اور شہریار آفریدی جیسے لوگ نہیں تھے تو انکو کم از کم بولنے دیا جاتا رہا اور الٹا مورد الزام بھی نہیں ٹھہرایا گیا۔
تو یہ تھ سارا پس منظر ۔
اب پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ شاید منظور احمد پشتین کو کھلی چھوٹ اسلئے دی گئی ہے کیونکہ خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کے ووٹ کو توڑنے کی کوششیں کی جا رہی ہے جبکہ منظور احمد پشتین بارہاں واضح کر چکے ہیں کہ پی ٹی ایم ایک غیر سیاسی تحریک ہے جس میں ہر سیاسی کارکن کو شرکت کرنی چاہیے بھلے ووٹ اپنی پارٹی کو دیا کرے ۔