اس وقت جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں 15ویں برکس سمٹ منعقد ہو رہی ہے۔حالیہ برسوں میں دنیا کے متعدد ممالک نے برکس میں گہری دلچسپی لی ہے۔ تاحال 40 سے زیادہ ممالک نے برکس گروپ آف نیشنز میں شامل ہونے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے، جن میں سے 22 نے باضابطہ طور پر درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہی ہے کہ برکس ممالک نے جب سے "برکس" کو "برکس پلس" میں تبدیل کیا ہے، اس دن سے یہ گروپ ترقی پذیر ممالک اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے۔ ترقی پذیر دنیا کے لئے عملی تعاون اور مضبوط آواز کی فراہمی کے ساتھ ، برکس اتنا پرکشش بن چکا ہے کہ یہ برکس پلس کے ایک نئے فریم ورک میں شاندار انداز سے ترقی کر رہا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تجارت، مالیات، سائنس و ٹیکنالوجی، زراعت، ثقافت، تعلیم، صحت، تھنک ٹینک وغیرہ میں تعاون کے مختلف طریقہ کار وضع کیے گئے ہیں۔ ان میں نیو ڈیولپمنٹ بینک (این ڈی بی) اور برکس ایمرجنسی ریزرو انتظامات نمایاں ہیں۔ سنہ2015 میں اپنے آغاز کے بعد سے ، این ڈی بی نے 30 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ مالیت کے تقریباً 100 قرض کے منصوبوں کی منظوری دی ہے ، جو ابھرتی ہوئی مارکیٹ اور ترقی پذیر معیشتوں میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور پائیدار ترقی کے لئے مضبوط ضمانت فراہم کرتے ہیں اور عالمی ترقی میں حصہ ڈالتے ہیں۔سب کے لیے مشترکہ ترقی کو فروغ دینے کی خاطر بینک 2022 سے 2026 تک 30 ارب ڈالر کی مالی معاونت فراہم کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے جس کا ہدف ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ یہ برکس ممالک کے قریبی تعلقات اور جنوب جنوب تعاون کے لئے ان کے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ حقائق کے تناظر میں آج برکس کا اثر و رسوخ پانچ ممالک سے آگے بڑھ چکا ہے۔ یہ کئی ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک اہم تعاون پلیٹ فارم بن گیا ہے ۔ اس سے عالمی گورننس کو بہتر بنانے میں بھی مدد مل رہی ہے اور بین الاقوامی تعلقات میں زیادہ سے زیادہ جمہوریت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔اس وقت برکس ممالک عالمی آبادی کا تقریباً 42 فیصد، عالمی معیشت کا 25 فیصد اور عالمی تجارت کا 20 فیصد ہیں۔ گزشتہ برس 2022 تک، 05 ممالک کو مجموعی طور پر عالمی بینک میں ووٹنگ کی طاقت کا 14 فیصد سے زیادہ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) میں مجموعی تناسب کا 14 فیصد سے زیادہ حاصل ہے.برکس پلس فریم ورک میں توسیع کا مطلب بین الاقوامی میدان میں ایک بڑا کردار ہوگا۔ یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ برکس کو جیو پولیٹیکل گیمز یا زیرو سم سوچ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جب کچھ بڑی طاقتیں بالادستی اور یکطرفہ تسلط پسندی کی عادی ہیں ، برکس حقیقی کثیر الجہتی کی نمائندگی کر رہا ہے۔ برکس کے نزدیک عالمی معاملات کا فیصلہ کسی ایک ملک یا ممالک کے گروپ کو نہیں کرنا چاہیے،عالمی مسائل پر ہر قوم کو بحث کرنی چاہیے،اس سے قطع نظر کہ چاہے وہ بڑی ہو یا چھوٹی۔2010 میں برکس ممالک کی درخواست پر ترقی یافتہ معیشتوں نے عالمی بینک کے 3.13 فیصد ووٹنگ حقوق اور آئی ایم ایف کے 6 فیصد حصص ترقی پذیر ممالک کو منتقل کرنے پر اتفاق کیا۔ عالمی اقتصادی منظر نامے میں یہ بڑی تبدیلی عالمی اقتصادی گورننس ڈھانچے میں اصلاحات میں اہم پیش رفت کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس طرح ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی اور آواز بہت بلند ہوئی ہے۔آج کثیر الجہتی کا دفاع کرتے ہوئے برکس ممالک سرد جنگ کی ذہنیت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور منصفانہ اور مزید شفاف بین الاقوامی اقتصادی نظام کے امکانات پیش کر رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ برکس ممالک ایک نئی قسم کے بین الاقوامی تعلقات کے حق میں ہیں جس میں باہمی احترام، برابری، انصاف اور جیت جیت پر مبنی تعاون شامل ہو۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہر ملک کےمختلف قومی حالات ہیں لہذا ہر ملک کے بنیادی مفادات اور اہم خدشات کا احترام کیا جائے۔ ہر ملک نے اپنے طور پر جن ترقیاتی راستوں اور ماڈلز کا انتخاب کیا ان میں مداخلت سے گریز کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ برکس کھلے پن اور شمولیت کی وکالت کرتا ہے اور مختلف تہذیبوں، نظاموں اور ترقی کے راستوں والے ممالک کا خیرمقدم کرتا ہے۔برکس کے قیام کے بعد سے، یہ ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر معیشتوں کی ترقی کے لئے توقعات کی علامت رہا ہے۔حالیہ برکس سمٹ سے یہ توقع ہے کہ برکس نہ صرف کامیابی کے ساتھ اپنی رکنیت میں توسیع کرے گا بلکہ کثیر الجہتی تعاون کو بھی اعلیٰ سطح تک فروغ دے گا۔ "برکس پلس" زیادہ سے زیادہ ممالک کو اتحاد، شمولیت اور مشترکہ خوشحالی کی حامل ترقی کی راہ پر لے جائے گا۔
|