پاک ہے وہ پروردگار کی ذات جس نے اس کائنات کو لفظ کُن سے پیدا فرمایا۔ الامام الفقیہ المجتہد محی السنہ امام بغوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ:- نام و پیدائش :- مکمل نام: محی السنہ قاری محمد حسین الفراء البغوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تاریخ پیدائش: امام بغوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 436ھ یا قبل کچھ پہلے ”بغ“ میں پیدا ہوئے. ( تذکرہ الحفاظ ۵۴/۴- وبستان المحدیثین،ص:۵۲) تعارف:- امام بغوی رحمتہ اللہ تعالی علیہ پانچویں صدی کے آخر سے لیکر چھٹی صدی کے عظیم بزرگ ہیں۔ آپ خراسان کے بڑے نامور محدث، مفسر اور مصنّف میں سے تھے ۔آپ کو حدیث میں کمال حاصل تھا آپ فقہ و حدیث کے ہر معاملات کو انتہائی غور و فکر کے ساتھ دیکھتے تھے پھر اس کے بعد اپنا اظہارِ خیال بیان کرتے تھے ۔ آپ کو فقہ و شافعی میں مہارت حاصل تھی۔ مسلک: شافعی امام بغوی کا وطن:- امام بغوی ہرات اور مرو کے نزدیک خراسان کے ملک میں رہتے تھے اس وطن کی وجہ سے آپ بغوی کہلاتے ہیں وہاں علماۓ کرام اور اکابرین کو جاۓ ولادت ہونے کا شرف محصول ہے۔ انہیں میں امام صاحب کو ایک سب سے اعلیٰ مقام حاصل ہے۔اسی طرح آپ کے والد محترم چمڑے کے کھالوں کی لین دین کا کام کرتے تھے روزی روٹی کمانے کے لئے اس لئے آپ فراء اور رابن فراء کہلاۓ۔ حوالہ:- (بستان المحدثین، ص:52) (تذکرۃ المحدثین ،ص:131) علم حدیث میں امام بغوی کی مہارت امام بغوی رح اپنے وقت کے عظیم رہنما اور علم و فن میں مہارت رکھنے والے امام تھے۔ آپ نے ہر قدم پہ علمی تعلیم ہی کو اپنا پیشوا بنایا آپ محدث فقیہ بھی تھے ۔ آپ کو بہت عظیم القاب سے نوازا گیا جو اس طرح ہیں محی السنہ، رکن الدین، الامام الحافظ،الفقیہ المجتہد آپ ان نام سے جاننے جاتے تھے۔ علامہ ابن نقطہ الحنبلی فرماتے ہیں : ’’امام حافظ ثقۃ صالح‘‘ ترجمہ:- ’’وہ ایک بہت بڑے امام ،حافظ ،ثقہ اور صالح تھے‘‘- حوالہ:- (اکمال الاکمال ،جز:1،ص :420) علامہ ابن خلکان فرماتےہیں : ’’کان بحرًا فی العلوم‘‘ ’’وہ علوم کے سمندر تھے ‘‘- حوالہ:- (وفیات الاعیان ،جز:2،ص:136) ابو المحاسن علامہ جمال الدین، النجوم الزاھر ہ میں اُن کی امامت و جلالت کو بیان کرتے ہُو ئے ارشاد فرماتے ہیں : ’’کان اماماحافظا رحل الی البلاد و سمع الکثیر ‘‘ ’’وہ امام اور حدیث کے حافظ تھے انہوں نے علم کیلئے مختلف شہروں کا سفر اختیا ر کیا اور بہت سےعلماء سے احادیث کا سماع کیا ‘‘- حوالہ:- (النجوم الز اہرہ ،جز: 5،ص:223) امام بغوی رح کے مشہور شیوخ کے نام۔ احمد بن نصر تو قافی ، حسان بن محمد معینی ، قاضی حسین، ابوالفضل زیاد بن محمدحنفی ، ابو الحسن عبد الرحمن بن محمد داؤدی ، ابو عمر عبد الواحد بن احمد ملیحی ، ابو الحسن علی بن یوسف جوینی، ابوالحسن محمد بن محمد شیرازی، ابوبکر محمد بن بیثم ترانی اور ابوبکر یعقوب بن احمد صیرفی۔ یہ تمام آپ کے مشہور اساتذہ تھے جن سے آپ نے علم حاصل کیا۔ قاضی حسین صاحب تعلیقہ فقہ میں بڑے صاحب کمال تھے، ان کا شمار اجل شوافع میں ہوتا ہے، امام بغوی رح کےآپ خاص تلامذہ میں سے تھے اور آپ نے فقہ کی تعلیم انہی سے حاصل کی تھی۔ حوالہ شرح السنہ ج۱ ص،۳۱ تلامذه ابو منصور محمد بن اسعد عطاردی المعروف بابن حفد و، ابو الفتوح محمد بن محمد طائی آپ کے مشہور شاگرد ہیں، امام بغوی رح کے آخری شاگرد جن کو ان سے روایت کی اجازت حاصل تھی، ابوالمکارم فضل اللہ بن حمد توقانی تھے، یہ چھٹی صدی ہجری تک طالقان میں بقید حیات رہے اور علامہ ذہبی کے شیخ فخرالدین علی مقدی کو ان سے اجازت حاصل تھی۔ حوالہ تذکرہ الحفاظ۔۴/۵۴-۵۵، طبقات الشافعیہ (ابن سبکی)۴ ۔ ۳۱۴/۳۱۵ شرح السنہ ج1 ص، 32 تصانیفِ مبارکہ:- امام بغوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ ایک عظیم محدث، مفسر، فقہاء ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قابل مصنف بھی تھے آپ نے بہت سی تصانیف لکھی جو اپنے آپ میں کمال رکھتی ہیں ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ • معالم التنزیل:- یہ امام بغوی رح کی مشہور کتاب ہے جس میں آپ نے قرآن کریم کی قدروقیمت، اس کی ابتداء، اس کے مقاصد سب درج کئے ہیں اس تصانیف تابعین تابع و تابعین کے قول و اقوال ان کی تفسیر علماۓ کرام کے حوالے سے بھی ذکر کیا گیا ہے۔ایک مشہور مفسر کی راۓ کے مطابق امام بغوی رح کی یہ کتاب معالم التنزیل ایک بہت ہی بلند اور اعلی مقام کے حامل ہے۔ • مصابیح السنہ:- امام صاحب کی یہ کتاب حدیث کی سب سے مشہور اور معتبر کتاب ہے۔جس کو دو حصوں میں بانٹا گیا ہے ایک حصہ اس کا ابواب پر مشتمل ہے اور دوسرا حدیثوں پر دو حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں صحیح ستہ کے آئمہ کرام کا بھی ذکر ہیں جیسے امام بخاری، امام ترمذی، صحیح مسلم ، ابو داؤد، ابن ماجہ، سنن نسائی ان کی حدیثوں کو اکٹھا کر کہ اس کتاب کو مکمل کیا گیا ہے ایک کتاب میں تقریباً ساڑھے چار ہزار حدیثیں موجود ہیں اور کم و بیش شرح السنہ:- امام صاحب کی یہ کتاب سب اہم اور مشہور تصانیف ہیں جس میں تمام مشکلات کے مسائل کا حل ، فقہی مسائل، ہر طرح پہلو کو اس کتاب میں درج کیا گیا ہے۔ • التہذیب فی الفقہ اس کتاب میں امام شافعی کے درج شدہ فقہی جزئیات کی تہذیب درج کی گئ ہے۔ اس کے علاوہ امام بغوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے مزید دیگر تصانیف لکھی جن کے نام درج ذیل ہیں ۔ • ارشاد الانوار فی شمائل النبی المختار • ترجمۃ الاحکام فی الفروع • الجمع بین الصحیحین • الکفایہ فی الفقہ • الکفایہ فی القراءت • معجم الشیوخ (ہدیۃ العارفین،جز:1،ص :312 ) وفات: آپ کی وفات ۵۱۰/۵۱۶ ھ میں ہوئی آپ کا مزار شریف آپ کے استاذ قاضی حسین کے مقبرے کے ساتھ موجود ہے۔ آپ کو طالقان میں مدفن کیا گیا۔ (ایضاً و ابن خلکان:۲۵۹/۱ ٬۲۶۰)
|