پاکستان میں حالیہ دنوں میں ڈینگی فیور اس
تیزی سے پھیلا کہ نہ تو عوام کواس مرض سے پوری طرح آگاہ ہونے کا موقع ملا
اور نہ ہی پے در پے ہونے والی اموات نے سرکاری اداروں کو اس مرض سے بچنے کے
لئے احتیاطی تدابیرعوام تک پہنچانے کا موقع دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ڈینگی سے
متعلق بہت سے غلط تصورات عوامی سطح پر مضبوط ہوتے چلے گئے۔ اور اب جو کچھ
بھی اقدامات عوامی یا سرکاری سطح پر اٹھائے جارہے ہیں وہ جلد بازی کا عنصر
لئے ہوئے ہیں۔ اس جلد بازی نے ایک طرح کی" پینک"یعنی افراتفری پھیلادی ہے۔
سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ مرض کوئی بھی ہو نقصان دے ہی ہوتا ہے ۔ اور جب
مرض کی صحیح معلومات اور تشخیص نہ ہو تو ایسے میں یہ خود بخود خطرناک
ہوجاتا ہے۔ بے شک ڈینگی بھی انتہائی خطرناک مرض ہے لیکن اس مرض سے متعلق
کچھ تصورات انتہائی غلط ہیں ۔ مثلاً ڈینگی کے ہر مریض کی زندگی کو خطرہ
لاحق نہیں ہوتا۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق بھی دنیا میں سالانہ پانچ
کروڑ افراد ڈینگی کا شکار ہوتے ہیں لیکن ان میں سے صرف 5.2فیصد افرادلقمہ
اجل بنتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق97فیصد مریضوں کی جان کو خطرہ نہیں ہوتا۔ ماہرین طب کے مطابق
70سے 85فیصد متاثرہ افراد میں ڈینگی وائرس پیچیدہ مرحلے میں داخل ہونے سے
قبل ہی اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ متاثرہ افراد کو بخار ہو
جاتا ہے۔ 55سے 60فیصد افراد کو ڈینگی مچھر کے کاٹنے کا علم ہی نہیں ہوتا۔
وہ موسمی بخار اور جسم میں درد تصور کر کے گلی محلے کے ڈاکٹروں کی عام دوا
لے کر ہی تندرست ہو جاتے ہیں کیونکہ وائرس خود ہی مر چکا ہوتا ہے۔ ماہرین
طب کے مطابق محض 5فیصد مریض تشویشناک حالت کو پہنچتے ہیں اور ان میں سے بھی
اوسطاً 3 فیصد کی ہی موت واقع ہوتی ہے۔
سری لنکا میں ڈینگی کے ساڑھے تین ہزار مریض، صرف ایک ہلاک
پاکستان میں ڈینگی پر قابو پانے میں مدد کے لئے آئی ہوئی سری لنکن ماہرین
کی ٹیم کا کہنا ہے کہ سن 2009ء میں سری لنکا میں ڈینگی کے 35ہزار مریض تھے
تاہم ان میں سے صرف 350افراد ایسے تھے جنہیں بچایا نہیں جاسکا لیکن اس کے
بعد اس مرض پر صرف عوامی آگاہی پیدا کرکے سو فیصد قابو پالیاگیا۔اس کامیابی
کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ سال یعنی دوہزار دس میں ڈینگی کے ساڑھے تین ہزار
مریضوں میں سے صرف ایک مریض ہلاک ہوا۔
ان ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس مرض سے ہلاکتوں کی وجہ اکثر مریضوں کا
شوگر اوردل کے امراض میں بھی مبتلا ہونا ہے، جو جسمانی اور نفسیاتی طور پر
ڈینگی کی شدت پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتے جبکہ صرف ڈینگی بخار سے
ہلاکتوں کا تناسب محض صفر اعشاریہ ایک فیصد ہے۔
ہیمرجک فیور اور شاک سینڈروم : ڈینگی کی دو مہلک اقسام
جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈینگی کی صرف 2
اقسام ڈینگی ہیمرجک فیور اور ڈینگی شاک سینڈروم مہلک ہیں جو مریض کو موت کے
منہ تک لے جا سکتی ہیں جس کا خطرہ 10سے 15فیصد متاثرین کو ہوتا ہے۔ ڈینگی
ہیمرجک فیور کے شکار افراد میں خون کو گاڑھا رکھنے والے سفید خلیوں کی
تعداد کم ہو جاتی ہے جو نارمل انسان میں ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے 4 لاکھ تک ہوتی
ہے جس مریض کے سفید خلیوں کی تعداد 25 ہزار ہو جائے اسے سفید خلیے لگا دئیے
جاتے ہیں۔
ڈینگی شاک سینڈروم میں مبتلا مریض کے خون میں موجود پانی رگوں سے نکل کر
جسم کے ٹشوز میں چلا جاتا ہے جس کے باعث 2 سے 3 فیصد مریض جانبر نہیں ہو
پاتے کیونکہ رگیں سکڑ جاتی ہیں اور دماغ کو خون کی سپلائی کم ہو جاتی ہے۔
عموما جب ایک مریض کو مادہ ڈینگی کاٹتی ہے تو وہ انسان 15 دن کے لئے ڈینگی
کا کیریئر بن جاتا ہے اب اگر اسے دوبارہ مادہ ڈینگی کاٹ لے یا اس کو کاٹنے
کے بعد کسی دوسرے شخص کو کاٹ لے تو اس سے کیس پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ طبی
ماہرین کے مطابق بیشتر ڈینگی متاثرین ابتدائی سٹیج پر ہی تندرست ہو جاتے
ہیں تاہم ٹیسٹ کرانا ضروری ہے۔
پنکچر شاپس: ڈینگی پھیلانے والے مچھروں کی آماجگاہیں
یونیورسٹی آف کراچی میں بطور سائنسدان خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر طارق
راجپوت کی تحقیق کے مطابق ہماری گلی محلے میں واقع ٹائر پنکچر شاپس ایڈیز
کی آماجگاہ ہیں ایڈیز ٹائر پنکچر شاپس میں موجود پانی کے ٹب یا ٹینک میں
انڈے دیتا ہے ، پنکچر ڈھونڈنے کیلئے جب ٹیوب یا ٹائر اس پانی میں ڈبوئے
جاتے ہیں تو مچھر کے انڈے ان پر چپک جاتے ہیں، ٹائر اور ٹیوب گاڑٰی میں
واپس لگا دیا جاتا ہے۔اور یوں گاڑیوں کے ذریعہ ڈینگی وائرس پھیلانے والے
ایڈیز مچھر کے انڈے ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچ
جاتے ہیں ۔
جب یہی ٹائر یا ٹیوب دوبارہ پنکچر لگانے کیلئے پانی میں ڈالاجاتا ہے تو
مچھر کے انڈے دوبارہ پانی میں داخل ہوکر ایک نئے مقام پر ڈینگی وائرس
پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ ڈاکٹر طارق راجپوت کے مطابق مچھر سے بچنے کیلئے
پانی میں مٹی کا تیل شامل کروائیں یا اسے روز تبدیل کیا جائے۔
ڈینگی وائرس سے بچاؤ کے لئے حکومتی کوششیں
محکمہ صحت سندھ نے ڈینگی وائرس سے بچاؤ کے لئے ڈسٹرکٹ، تعلقہ اور ٹاؤن
ایڈمنسٹریشن کی خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں جو گھر گھر اسپرے کررہی ہیں۔
دوسری جانب سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی نے شہر میں پہلی مرتبہ گھروں کے اندر
دیواروں پر جراثیم کش اسپرے مہم شروع کی ہے تاہم پہلے مرحلے میں ڈینگی
مریضوں کے اطراف کے گھروں میں اسپرے کیا جا رہا ہے ۔چار ماہ تک ان دیواروں
پر بیٹھنے والے تمام مچھر ہلاک ہوجائیں گے جبکہ اس اسپرے سے انسانی و
حیوانی جانوں کو کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی دیوار کے رنگ و روغن میں کوئی
فرق پڑے گا۔
ایڈمنسٹریٹر و ڈی سی اوکراچی محمد حسین سید کے مطابق150 افراد کو اس اسپرے
کے لئے خصوصی تربیت بھی دی گئی ہے اور 50 ہزار کلو سے زائد ادویات بھی
خریدی گئی ہیں۔ اس اسپرے کے لئے مختلف ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو ڈینگی مریضوں
کے متاثرہ گھروں اور ان کے اطراف کے گھروں کی دیواروں پر اسپرے کریں گی اور
ڈینگی کے جراثیم کا خاتمہ کرے گی۔
ایڈیز کی پہنچان ، بیماری کی تصدیق اور علامات:
مچھر کی وہ قسم جسے ایڈیز کہا جاتا ہے اس کی پہچان یہ ہے کہ اس کے جسم پر
زیبرا کی طرح سفید اور کالی دھاریاں ہوتی ہیں اوریہ طلوع و غروب آفتاب کے
وقت کاٹتے ہیں۔ انسانی جسم میں اس بیماری کے وائرس کی موجودگی کی تصدیق صرف
لیبارٹری میں خون کی چانچ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جبکہ اس مرض کی علامات میں
، جسم اور جوڑوں میں درد،آنکھوں کے ڈھیلے میں درد،جسم پر دھبوں کی
موجودگی،شدید سر درد ،نزلہ زاور زکام،خون میں سفید خلیات کی کمی،شدید
بیماری کی صورت میں جسم کے مختلف حصوں مثلاً منہ اور ناک سے خون کا جاری
ہوناوغیرہ شامل ہیں۔
وسیم اے صدیقی - کراچی |