آج سے تقریباََ 236سال پہلے
شمالی امریکہ ،افریقہ اور ایشیا ءمیں ایک ایسی بیماری پھیلی تھی کہ جس میں
مریضوں کو اچانک تیز بخار ہوجاتا،کچھ کے پیٹ میں دردہوتا اور خون کی الٹیاں
آتیں تھی ، اس مرض کا مریض 7سے 10دن کے اندر زندگی کی بازی ہار جاتاتھا ۔اس
مرض نے ایسی وبائی صورت اختیار کی کہ لوگوں نے خوف و ہراس کی وجہ سے ان
علاقوں سے ہجرت شروع کر دی ۔ اس وقت کے ڈاکٹروں کی تحقیق نے اس مرض کا سبب
مچھر وں کو قراردیاکہ یہ جان لیوا مرض مچھروں کی وجہ سے پھیلتا ہے اور اس
مرض کو ڈینگو بخارDANGUE FEVERکا نام دیا گیااس وقت اس مرض کو ”گندی روح“
کی بیماری کا نام بھی دیا گیا ۔
ڈینگی بخار کیسے پھیل رہا ہے اور اس کو کیسے روکا جاسکتا ہے ؟ڈینگو بخار
کالے رنگ کے مچھروں سے ہوتا ہے ۔جس کی ٹانگیں دیگر مچھروں سے لمبی ہوتی ہیں
اور یہ صاف پانی میں پیدا ہوتا ہے ۔یہ مچھر صبح آفتاب سے لے کر 8بجے تک اور
شام غروب آفتاب کے وقت باہر نکلتے ہیں اورانسانون کو کاٹتے ہیں ان اوقات
میں کافی احتیاط برتنی چاہئے۔
WHOکے مطابق ڈینگو بخار کی شرح اموات 4%ہے اور آج تک اس کی کوئی دوائی
ایجاد نہیں ہوسکی۔1950میں اس بیماری سے جنوب مشرقی ایشیاءمیں ہزاروں کی
تعداد افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر تعداد بچوں کی تھی ۔1975-1980تک یہ
بیماری عام تھی ۔2002میں برازیل کے جنوب مشرق میں واقع ریاست Rio
Dejaheiroمیں یہ بیماری وباءکی صورت اختیار کر گئی تھی جس سے کثیر تعداد
میں ہلاکتیں ہوئیں ایک اندازے کے مطابق اس وقت تقریًبا 10لاکھ افراد کی
اموات واقع ہوئیں ،جس میں 16سال سے کم عمر کے بچے زیادہ تھے۔ 2006میں
Domincan Republicمیں 44افراد ہلاک ہوئے ۔فلپائن میں جنوری سے اگست 2006کے
دوران 13468لوگ اس مرض کا شکار ہوئے جن میںسے اس جان لیوا مرض نے
167انسانوں کی جان لے لی ۔آجکل اس بیماری نے پاکستان میں وبائی شکل اختیار
کی ہوئی ہے ۔1994میں کراچی میں پہلا ڈینگی کا مریض سامنے آیاتھا ۔WHOکے
اعدادوشمار 2006کے مطابق کراچی میں ڈینگو بخار کے مریضوں کی تعداد 4800سے
زائد تھی جبکہ 50سے زائد افراد اس مرض میں مبتلا ہوکر زندگی کی بازی ہار
گئے ۔لاہور میں ڈینگی کا پہلا مریض 2007میں سامنے آیا تھا ۔
امریکہ کی ایک تحقیق کے مطابق وہاں ڈینگو بخار کا مرض امریکی بندر گاہ پر
پرانے برآمد شدہ ٹائر وں میں کھڑے پانی کی وجہ سے پھیلا۔پاکستان میں بھی
کراچی بندر گاہ بھی اسکی وجہ سے بنا اور وہاں سے مرض پورے پاکستان میں پھیل
رہا ہے۔لاہور شہر میں ڈینگو بخار کے زیادہ تر مریض لاہور ریلوے اسٹیش اور
ڈرائی پورٹ سے ملحقہ علاقوں سے ہیں۔
ڈینگو بخار کی عام علامات میں تیز بخار ہونا ،شدیدسر درد اور جسم سے خون کا
رساﺅ ہے ۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ڈینگی وائرس کے شکار مریضوں کی
تعداد 2000سے زائد ہو چکی ہے اور اس مرض کی واحد دوا ”پیراسیٹامول“ ہے جو
بلیک مارکٹینگ کی بدولت بازاروں سے نایاب ہوگئی ہے اور اس کی قیمت 50پیسے
سے 10روپے تک کردی گئی ساتھ ساتھ غیر معیاری ”پیراسیٹامول “ کی گولیاں بھی
بازاروں میں آگئی ہیں جن کی بدولت مریض جلد اﷲکو پیارے ہو جاتے ہیں ۔جبکہ
ڈسپرین ،بروفین اور زیادہ طاقت کی اینٹی بائیوٹک مریض کو فائدہ دینے کے
بجائے وقت سے پہلے موت کے منہ میں لے جا سکتی ہیں۔
اس وقت ہسپتالوں میں ڈینگی بخار کے لئے بنائی گئی مخصوص وارڈوں میں بیڈ ختم
ہونے سے ہسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹر مریضوں کو داخل نہیں کر رہے ہیں مریضوں
کی اکثر یت کو گھروں کو بھیجا جا رہا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق یہ بیماری
ہر4سے5سال میں نمودار ہوتی ہے اور جو شخص ایک مرتبہ اس کا مریض بنتا ہے
اگلی دفعہ بھی اسی مرض کا شکار ہوتا ہے۔
WHOکے مطابق ابھی تک ڈینگو بخار کی کوئی دوائی ایجاد نہیں کی جا سکی مگر
پاکستان طب کے مطابق ایک چمچ شہد ایک ایک کپ نیم گرم پانی میں ملا کر صبح
نہار منہ جبکہ دوپہر ورات کھانے سے ایک گھنٹے قبل استعمال کرنا چاہئیے یا
سیب کے جوس میں چند قطرے لمبوں کے ملا کر پیئں جائیں اور اپنے اردگرد کے
ماحول کو صاف رکھیں ۔ان تدابیر سے مرض میں فرق پڑتا ہے۔
پاکستان میں اس مشکل کی گھڑی میں علماءحضرات بھی لوگوں کو اللہ کی طرف رجوع
کرنے کو کہہ رہے ہیں کہ یہ سب وبائیں ہمارے شامت اعمال کا نتیجہ ہیں اس لیے
اللہ کے حضور اپنے گناہوں پر توبہ کرنی چاہئے۔ |