مظفر آباد شہر کے ضمنی انتخاب کے
نتائج نے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کی واضع نشاندہی کر دی ہے۔عثمان عتیق
حکومت پاکستان، حکومت آزادکشمیر ، چھ جماعتی اتحاد مسلم کانفرنس،پی پی پی،
جمعیت علمائے اسلام، مرکزی جمعیت اہل حدیث، جمعیت العلمائے جموں وکشمیر اور
اسلامک فرنٹ جموں و کشمیرکے مشترکہ امیدوارتھے اور انہیں دو سابق وزراءاعظم
کے بیٹے اور پوتے ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ جن کو بینظیر انکم سپورٹ
پروگرام کے دستی چیکوں، ترقیاتی سکیموں، ملازمتوں کے وعدووں اور دھیرکوٹ کے
باشندوں کے جعلی طور پر درج کردہ پچیس سو ووٹوں کی پیشگی امداد بھی حاصل
تھی۔ جن کی مہم میں وزراءاور وزیراعظم نے دن رات ایک کیا ہوا تھا۔ جسے
عثمان عتیق زرداری کے لقب سے یاد کیا جا رہا تھا،وہ ایک نوخیز سیاسی کارکن
مسلم لیگ اور جماعت اسلامی آزادجموں کشمیر کے متفقہ امیدوار مات کھا گیا۔
مظفر آباد سے سردار عبد القیوم خان بھی ہزیمت اٹھا چکے تھے لیکن سردار عتیق
پیپلز پارٹی میں ضم ہونے کے بعد اتنے پر امید تھے کہ انہیں اپنے باپ سے
زیادہ اپنے بیٹے پر اعتماد تھا۔ ان کے خیال میں ریاستی وسائل اور زرداری
صاحب کی پشت پناہی سے وہ اپنے بیٹے کو کامیاب کروا کر اپنی حالیہ شکست کو
فتح میں بدلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اہلیان مظفرآباد نے جس طرح سرکاری
ترغیبات، بینظیر انکم سپورٹ کے چیکوں، ترقیاتی سیکموں اور نوکریوں کے
جھانسوں کو مسترد کرتے ہوئے ایک نوخیز مقامی کارکن پراپنے اعتماد کا اظہار
کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ کشمیری قوم کو نہ حکومتی عہدہ سے ڈرایا جا
سکتا اور نہ بھاری رقموں سے خریدا جا سکتا ہے۔
چھ جماعتوں کے اشتراک اور حکومتی وسائل کی موجودگی میں بیرسٹر گیلانی کا
میدان میں اترنا اور موجود رہنا ہی ایک مشکل کام تھا۔ انہیں میدان سے باہر
رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ ایسے میں ایک مرد میدان نے ثابت قدمی دکھائی
اور مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنان نے دن رات محنت کرکے
عوام کو موروثی سیاست کے خاتمے، مفادتی مفاہمت اور پلانٹڈ قیادت کے نقصانات
سے آگاہ کیا۔ عوام نے سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا اور موروثیت کا خاتمہ کرتے
ہوئے اپنے اندر سے ایک مقامی کارکن کو اپنی قیادت کرنے کا مینڈیٹ دیا۔ یہ
اہل مظفر آباد کی سیاسی بصیرت کا عکاس ہے، جس نے کشمیری قوت کے عزت اور
توقیر میں اضافہ کیا ہے۔ ان نتائج میں مظفر آباد کو صدارت سے محروم رکھنے،
غیر مقامی اور موروثی سیاست کو فروغ دینے والے امیدوار اور پی پی پی مسلم
کانفرنس کے مفاداتی اشتراک نے بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ اگر پیپلزپارٹی
خواجہ فاروق کو سامنے لاتی تو با آسانی یہ سیٹ جیت سکتے تھے اور حکومت کو
جگ ہنسائی سے بچا سکتے تھے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔جو لوگ نصف
صدی سے قوم کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں انہیں خواص میں پذیرائی تو حاصل ہے
لیکن عوام ان لوگوں کو مسترد کر چکے ہیں۔ عوام کے موڈ سے لگتا ہے کہ وہ خطے
میں تبدیلی کے خواہاں ہیں اور آزمائے ہوئے لوگوں پر وہ بھروسہ کرنے پر تیار
نہیں۔
اب اگلا مرحلہ پونچھ کے ضمنی انتخاب کا ہے، وہاں بھی گزشتہ چالیس سالوں سے
سرگرام پارٹی کارکنوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صدر ریاست نے اپنی بیٹی کو
امیدوار بنوا لیا ہے۔ صدر صاحب خود بھی پارٹی میں نئے مہمان ہیں۔ ان کا
تحریک عمل سے پیپلز پارٹی تک کا سیاسی سفر عوام کے سامنے ہے اور وفاداریاں
بدلنے والوں کا انجام بیرسٹر سلطان سے زیادہ مختلف کبھی نہیں ہوتا۔ انہوں
نے کمال مہارت سے قصر صدارت تک کا سفر طے کرلیا ہے لیکن پونچھ کے مخصوص پس
منظر میں کسی خاتون کو کامیاب کروانا، شائید ان کے بس کی بات نہ ہو۔ صدارت
کی طرح پارٹی ٹکٹ شائید ان جیسے صاحب ثروت فرد کے لیے کوئی مسئلہ نہ ہو
لیکن مخصوص پس منظر، اسلامی روایات کے پاسدار قبائلی ووٹڑوں اور موروثی
سیاست سے نفرت کرنے والے عوام سے مینڈیٹ لینا خاصا مشکل نظر آتا ہے۔ اگر
مظفر آباد کی طرح مسلم لیگ اور جماعت اسلامی مشترکہ امیدوار لانے میں
کامیاب ہوگئیں تو حکمرانوں کو عباسپور اور مظفر آباد کے بعد پونچھ میں بھی
ناکامی سے دوچار ہونا پڑے گا۔
آزادکشمیرکے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو عوامی رجحانات کو مدنظر رکھنا
چاہیے۔ عوام اب برادری ازم، موروثی سیاست اور پانٹڈ قیادت کو قبول کرنے پر
تیار نہیں۔ عباسپور اور مظفرآباد کے نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ حکمران کی
پالیسیوں سے عوام نے اتفاق نہیں کیا۔ یہ بھی امر واقع ہے کہ جن پارٹیوں میں
کارکنان کو نظرانداز کرنے کا چلن عام ہو جائے وہ بھی عوامی اعتماد کھو جاتی
ہیں۔ کاروباری اور ذاتی مفادات کی سیاست چند لوگوں کا مستقبل تو سنوار سکتی
ہے لیکن عوام اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ جو بھی سیاسی جماعت کارکنان
اور عوام پر آمرانہ فیصلے مسلط کرے گی اسے ناکامی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ |