کالی بھیڑوں کی اہمیت سے کون
انکار کرسکتا ہے کہ ان کی باز گشت پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالتوں میں بھی
سنائی دے رہی ہے، کراچی کی افسوسناک صورت حال پر سپریم کورٹ کی کاروائی میں
پولیس کا ذکر نہ آئے یہ کیسے ممکن ہے ، اور پولیس کا ذکر ہو تو کالی بھیڑوں
کا نام نہ آئے یہ بھی کیسے ممکن ہے؟ نہ جانے کس نے یہ اصطلاح ایجاد کی تھی،
اور یہ رنگ بدنامی کے ہی زمرے میں کیوں آتا ہے، بھیڑوں کا عمومی رنگ تو
سفید ہی ہوتا ہے ، لیکن بھیڑوں میں بھورے اور کالے دھبے بھی ہوتے ہیں، تاہم
مکمل طور پر کالی بھیڑیں کم ہی ہوتی ہیں،یہ بھولا ساجانور کالے رنگ میں بھی
بھلا لگتاہے۔
کالی بھیڑوں نے اس قدر نام کمایا ہے کہ اب یہ بھیڑوں کی اصطلاح نہیں رہی ،
بلکہ اس کا اطلاق انسانوں کے ریوڑوں پر زیادہ ہوتا ہے ۔ تاہم زیادہ تختہ
مشق دو محکمے بنتے ہیں، ان میں بھی پہلی پوزیشن پولیس کی ہے اور دوسرے نمبر
پر محکمہ تعلیم کا نام آتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بہت سے کرپٹ محکموں کا
ذکر تک نہیں آتا، شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ ان میں اب کالی بھیڑیں نہیں
پائی جاتیں ، بلکہ ان کے ریوڑ کے ریوڑ ہی کالے ہوچکے ہونگے۔ کالی بھیڑ بہت
سی سفید بھیڑوں میں منفرد تو نظر آتی ہے ، مگر اس کو برائی کی علامت بنا
دینا مناسب نہیں لگتا۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کالی بھیڑیں بیوروکریسی میں کیوں نہیں پائی
جاتیں؟ کیا بیوروکریسی میں فرشتے بھرتی ہوتے ہیں، کیا سینئر بیوروکریٹس کی
اکثریت کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل نہیں کررہے،کیا زندگی بھر سرکاری
عیاشیوں کے بعد ملازمت سے فراغت بھی ملک کے اندریا باہر لوٹ مار کے پیسے سے
نہیں گزرتی؟ کیا ان کی رقوم بیرون ملک کے بینکوں میں نہیں پڑیں؟کالی بھیڑوں
کا وجود سیاستدانوں میں کیوں نہیں ہوتا؟کیا سیاستدانوں کی ایک نمایاں تعداد
کرپشن میں ملوث نہیں، ملک کی آج تک باگ ڈور سنبھالنے والوں میں دیانتدار
افراد کس تناسب میں آئے؟ حساس ادارے ان سے کیسے محفوظ ہیں، کیا ملک میں
کرپشن ، نااہلی اور غفلت کے مرتکب صرف پولیس اور تعلیم والے ہی ہوتے ہیں؟
بہتر ہوکہ سپریم کورٹ ان کالی بھیڑوں کا بھی از خود نوٹس لے لے ، ہر محکمہ
کے سربراہ کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے محکمے سے کالی بھیڑیں نکال کر
عدالت کے روبرو پیش کرے، یوں کچھ ہی عرصہ میں ملک کالی بھیڑوں سے پاک
ہوجائے گا ، روز روز کی چخ چخ ختم ہوجائے گی۔ لیکن ایک مسئلہ درپیش ہوسکتا
ہے، کہ اتنی کالی بھیڑوں کا کیا مصرف ہوگا؟ اول انہیں برآمد کرکے اپنے زر
مبادلہ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے،چونکہ ملک میں اس قسم کی بھیڑیں بڑی بھاری
تعداد میں پائی جاتی ہیں، اس لئے اس تجارت سے بھر پور آمدنی حاصل ہوسکتی ہے۔
دوم؛ ان کا دوسرا اور بہتر مصرف عید قربان پر ان کی قربانی بھی ہوسکتا ہے،
چونکہ عید زیادہ دور نہیں، اس لئے بہت سی کالی بھیڑیں اس موقع کو غنیمت
جانتے ہوئے اس نیک کام میں استعمال کی جاسکتی ہیں۔
اس منصوبے پر عمل کرنے سے ایک بہت بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،
کہ دیکھتے ہی دیکھتے محکموں کے محکمے خالی ہو جائیں گے، سب سے پہلے پولیس
کے محکمے میں کہیں دور دراز ہی کوئی افسر یا سپاہی نظر آئے گا، سکولوں میں
کہیں کہیں کوئی استاد ہوگا،بیوروکریٹس بھی تلاش بسیار کے بعد ہی کوئی ملے
گا، ممکن ہے کئی محکمے بند ہی ہوجائیں، ظاہر ہے جہاں سفید بھیڑ ہوگی ہی
نہیں، اس نے بند تو ہونا ہی ہے۔ امید ہے کراچی سے فارغ ہوتے ہیں عدالت عظمیٰ
کالی بھیڑوں کی تلاش کا فریضہ نبھائی گی، کیونکہ ان بلاؤں کا خاتمہ بھر پور
ریاستی طاقت کے بغیر ممکن نہیں ، یہ ا لگ بات ہے کہ کالی بھیڑوں نے مضبوط
نیٹ ورک قائم کررکھے ہیں۔ |