غالب نے کہا تھا :
آعشتہ ایم برسرِ خارے بخونِ دل
قانون باغبانی صحرا نوشتہ ایم
(صحرا میں پھول اُگانے کا قانون تحریر کرنے کے لئے ہم نے کانٹوں کو قلم اور
دل کے خون کو سیاہی بنا لیا ہے)
گزشتہ صدیوں میں سامراجی ممالک دوسرے ملکوں کے قومی وسائل پر قبضہ کرنے کے
لئے براہِ راست فوج کشی کرتے تھے۔ یہ عمل اب بھی جاری ہے جن کی افغانستان
اور عراق پر براہِ راست قبضہ کی مثالیں موجود ہیں۔ سامراج کے براہِ راست
قبضہ کرنے کے عمل میں اخراجات بہت زیادہ آنے کے علاوہ مقبوضہ ممالک میں
مسلح مزاحمت میں ان سامراجی افواج میں اموات کی بڑھتی ہوئی شرح سامراجی
ملکوں میں عوام کے لئے بے چینی کا سبب بنتی ہے۔ جہاں براہِ راست قبضے کرنے
میں مسائل زیادہ ہوں وہاں متبادل کے طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے
سرمایہ کاری ، نجکاری اور امداد کے نام پر ملکوں پر فوجی قبضہ کے بغیر قبضہ
کرنا آسان بھی ہے اور مخالفانہ جذبات کے پیدا ہونے سے بچا بھی جا سکتا ہے۔
سوویت یونین کا سرد جنگ کا رول ، جو ایک deterrent کے طور پر مسلمان ممالک
کے علاوہ تیسری دنیا کے ممالک کے لئے سرمایہ دارانہ نظام کے حامل سامراجی
ممالک سے پروٹیکشن کی صورت میں موجود تھا ، کو امریکہ نے مذہب کے نام پر
exploitکر کے دنیا کو unipolar دنیا میں تبدیل کر دیا۔ اب امریکہ اور اس کے
اتحادیوں کے لئے دنیا ایک سبز چراگاہ کے طور پر تبدیل ہو چکی ہے اور تیل
اور معدنیات سے مالامال ممالک ان کے لئے خاص ہدف ہیں۔ عالم عرب کی حالیہ
بیداری کی لہر ایک تاریخی واقعہ ہے۔ لیکن امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی
دوغلی پالیسی یہاں پر بھی کھل کر ظاہر ہو گئی ہے۔ مصر ، تیونس ، الجزائر ،
بحرین ، شام اور لیبیا وغیرہ میں ایک جیسی جمہوری تحریکیں جاری ہیں۔ لیکن
صرف لیبیا میں امریکی اور نیٹو فورسز کی براہِ راست مداخلت ہوئی۔ نیٹو
فورسز اتنے بے گناہوں کو روز قتل کر رہی ہے جتنے شاید قذافی کی آمرانہ
حکومت نے اس پورے چالیس سال کے عرصہ میں نہیں کئے ہوں گے۔
عرب کے وہ ممالک جہاں تیل کے وسائل پر امریکی فوج یا امریکی پشت پناہی سے
ملٹی نیشنل کمپنیوں کا قبضہ ہے وہاں کی جمہوری تحریکوں کی حمایت کے لئے
امریکہ اور اس کے اتحادی ایسے ہی اقدامات اٹھانے سے گریز کر رہے ہیں۔ عالم
عرب میں ایران اور لیبیا دو ایسے ممالک ہیں جن کے تیل کے وسائل پر کسی
سامراجی ملک یا ملٹی نیشنل کمپنی کی اجارہ داری نہیں ہے اور مغرب کو یہی
بات قابلِ قبول نہیں ہے۔ ’جابر حکمرانوں ‘ سے آزاد کرانے کے نام پر عراق
اور افغانستان میں ہزاروں بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے بعد اب اس
نام نہاد آزادی کے ثمرات لیبیا کے عوام نہ جانے کتنا عرصہ بھگتیں گے۔ لیبیا
کا تیل اب تعمیر نو (Reconstruction) کے نام پر امریکی کمپنیوں کے تصرف میں
ہو گا اور روزانہ بموں کے دھماکوں میں انسانی جانوں کی قربانی اس نام نہاد
آزادی کے اضافی ثمرات ہوں گے۔ عالم عرب میں گزشتہ کئی دہائیوں سے قائم
آمریتوں کے خلاف جمہوری حقوق کے لئے عوام کی قربانیاں لازوال ہیں۔ لیکن کیا
یہ بیداری کی لہر اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی اور لوگ بادشاہوں اور آمروں
کے چنگل سے نکلیں گے ؟ اگر ایسا ہو بھی گیا تو سامراجی استحصالی حربوں سے
بچاؤ کے لئے انہیں ابھی بہت محنت درکار ہو گی۔ ان براہِ راست مداخلتوں کے
علاوہ تیسری دنیا کے ممالک کے قومی وسائل پر نجکاری اور پرائیویٹ سرمایہ
کاری کے نام پر ملفوف انداز میں قبضے کئے جا رہے ہیں۔ جو مغرب اور امریکہ
کی ڈوبتی ہوئی معیشتوں کو سہارا دینے کا کام کریں گے۔ جبکہ خود مغرب نے
اپنے قدرتی اور قومی وسائل کو ریاستی ملکیت میں رکھتے ہوئے ان کو پرائیویٹ
سرمایہ کاری کے نام پر نجی تحویل میں نہیں دیا ہے۔ چین نے ہائیڈرل جنریشن
کے لئے آبی وسائل کو سو فیصد ریاستی ملکیت میں رکھا ہوا ہے اور وہاں
ہائیڈرل جنریشن کے لئے ’پبلک سیکٹر ‘ میں سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ جس کا
نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج چین میں صنعتوں کو تقریباً مفت بجلی فراہم کی جا
رہی ہے اور چین کا ساری دنیا کی صنعت پر چھا جانے کا راز اسی میں مضمر ہے۔
لیکن ہم ہیں کہ بجلی کی کمی کی وجہ سے آدھا پاکستان تاریک کر چکے ہیں۔
کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ جی۔ڈی۔پی 4 فیصد اور کم ہو گئی ہے اور بے روزگار
نوجوان طالبان کے چُنگل میں پھنس رہے ہیں۔ انرجی کے قدرتی وسائل کو جن پر
آئندہ آنے والی نسلوں کا بھی حق ہے انہیں مفاد پرستوں کے ہاتھوں گروی رکھ
کر آنے والی نسلوں کا مستقبل تاریک کرنے کا پورا پورا بندوبست بھی کر لیا
گیا ہے۔ سامراج اور ان کے مقامی گماشتے غریب ممالک میں بیوروکریسی اور مفاد
پرست سیاستدانوں کے ساتھ مل کر نجی سرمایہ کاری اور نجکاری کی خوبصورت
اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے ان ملکوں کے عوام کو اصل استحصالی ہتھکنڈوں سے
اندھیرے میں رکھ کر قدرتی وسائل پر اس طرح اپنے تصرف میں لا رہے ہیں کہ
وہی ذبح بھی کرے اور لے ثواب بھی اُلٹا
پاکستان میں بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر دنیا میں چند بڑے ذخائر
میں شامل ہیں۔ یہاں پر بین الاقوامی تجارتی کمپنیاں اپنے آبائی ملکوں کے
تعاون سے ان شرائط پر سرمایہ کاری کر رہی ہیں کہ پاکستان کو ان ذخائر سے
نہایت قلیل منافع ملے گا۔ ریکوڈک کے 500 بلین ڈالر کے سونے کے ذخائر صرف
2.5 بلین میں دیئے جا رہے ہیں اور مخالفت کرنے پر بقول وزیر اعلیٰ بلوچستان
متعلقہ ملٹی نیشنل کمپنی نے انہیں تین بار عہدہ سے ہٹانے کے لئے سازش کی۔
پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کی 60 لاکھ ایکڑ اراضی کارپوریٹ فارمنگ کے لئے
ملٹی نیشنل کمپنیوں کو دی جا رہی ہے۔ لیکن اس ملک کے صدیوں سے محروم ہاریوں
اور مزارعین کا اس پاک دھرتی پر کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ حال ہی میں ایک مشہور
انگریزی روزنامے ”دی نیوز “ نے ایک ہائیڈرل پراجیکٹ کے بارے میں ٹرانسپرنسی
انٹرنیشل کی رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس ایک غیرشفاف سودے
میں پاکستانی عوام کے مفاد کے خلاف صرف ٹیرف مقرر ہونے کی وجہ سے 2 بلین
امریکی ڈالر (577 ارب روپے) کا نقصان ہو گا۔ جو غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں
ماری قوم کا خون نچوڑ کر پورا کیا جائے گا۔ اگر اس شرح کو پاکستان کے باقی
پرائیویٹ ہائیڈرل پراجیکٹس پر لاگو کیا جائے تو پاکستان کے آبی وسائل ان
ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس چلے جانے کے علاوہ یہ قومی نقصان ہزاروں بلین
ڈالر بنتا ہے۔ آبی وسائل پر ہائیڈرل جنریشن کے لئے پرائیویٹ سرمایہ کاری
اور دیگر صنعتوں میں بیرونی یا پرائیویٹ سرمایہ کاری میں زمین و آسمان کا
فرق ہے اور ان دونوں کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔ سامراج کے
گماشتوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے سابقہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا بھی
قصور یہ تھا کہ وہ عالم عرب کے تیل کے قومی وسائل کو سامراج سے آزاد کرانا
چاہتے تھے اور لاہور میں سابقہ امریکی سیکرٹری خارجہ ہنری کسنجر نے انہیں
دھمکی دی تھی کہ ’ باز آؤ ورنہ تاریخ میں عبرت بنا دیئے جاؤ گے ‘ لیکن
تاریخ کا اپنا فیصلہ ہے کہ
زمیں بوس ہوئے تاج و تختِ سلطانی
جہاں بھی خاک نشینوں کے سر عَلم ٹھہرے
جبکہ ان کے تیار کردہ آئین 1973ءمیں قدرتی وسائل اور خاص طور پر پانی کے
وسائل کو سامراج اور ان کے گماشتوں کے ہاتھوں استحصال سے بچانے کے لئے مکمل
قومی ملکیت میں رکھنے کا اہتمام کیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 38 اور 161 اس
سلسلہ میں بالکل واضح ہیں۔ جہاں پر قومی وسائل کو چند ہاتھوں کی اجارہ داری
میں دینے اور ہر طرح کے استحصال کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ آئین کی ان
متعلقہ شقوں کی خوبصورتی یہ ہے کہ ان میں ہائیڈرل پراجیکٹس پبلک سیکٹر میں
رکھتے ہوئے پرائیویٹ سرمایہ کاری کو شامل کرنے کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔
جس سے قومی مفادات کا بھی تحفظ ہوتا ہے اور ملکی مفادات کا استحصال بھی
نہیں ہوتا۔ لیکن عوامی مفادات کے خلاف آئین کی پامالی کوئی نئی چیز نہیں
رہی ہے کہ
غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
نجی سرمایہ کاری کے نام پر ملکی اور غیر ملکی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی ان
کے آبائی ملکوں کے تعاون سے غریب ملکوں پر جدید سامراجیت
(neo-colonization)کی یہ نئی قسم عفریت کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ جن سے
اگلے پانچ سے دس سال میں ان غریب ممالک کے تمام قومی وسائل اِن سرمایہ دار
ممالک کے براہِ راست قبضے میں چلے جائیں گے۔ سرحدیں رکھنے کے باوجود یہ
غریب ممالک اپنی حقیقی خود مختاری سے مکمل طور پر محروم ہر کر ان سامراجی
ممالک کے معاشی اور سیاسی طور پر تسلّط میں آ جائیں گے۔ مشرقِ وسطیٰ اور
جنوبی ایشیاءبشمول پاکستان کی تقسیم کا ناپاک امریکی منصوبہ جسے ” نیو مڈل
ایسٹ 2015ء“ کا نام دیا گیا ہے ، مشرقِ وسطیٰ اور سنٹرل ایشیاءمیں توانائی
اور بلوچستان میں بے پناہ سونے اور تانبے کے ذخائر پر سامراجی قبضے کے
پروگرام پر عملدرآمد کا نام ہے۔ افغانستان پر امریکی قبضہ کسی نہ کسی صورت
میں قائم رہے گا۔ لیکن اس کی شکل کو soft بنایا جائے گا۔ طالبان کے ساتھ
سمجھوتہ کر کے انہیں شریکِ اقتدار کیا جائے گا۔ سنٹرل ایشیاءکے گیس اور تیل
کے ذخائر کو کنٹرول کرنے ، بلوچستان کے قدرتی وسائل کی exploitation اور
گوادر کی بندرگاہ کے معاملہ پر بعض ممالک سے مخاصمت اور ایران کی قومی
حکومت کے خاتمہ کے بارہ میں امریکی منصوبے ظاہر کرتے ہیں کہ اس خطہ میں
امریکی موجودگی کم نہیں ہو گی۔ امریکی معیشت جس کی بنیاد ہی اس بات پر ہے
کہ دنیا میں جنگیں جاری رہیں ، اس کے کارخانوں کے تیارکردہ اسلحہ کی فروخت
ہوتی رہے ، بادشاہتیں قائم رہیں اور ان بادشاہوں کی حفاظت کے لئے امریکی
فوجیں ان ممالک میں موجود رہیں تاکہ ان ملکوں سے امریکہ اور یورپ کے لئے
تیل کی سپلائی بحال رہے۔ عالم عرب میں حالیہ ” انقلابِ بہار “ کس کروٹ
بیٹھتا ہے ؟ کیا واقعی یہ ممالک حقیقی آزادی حاصل کر لیں گے یا اس تحریک
میں ہزاروں انسانوں کی لازوال قربانیوں کا پھل سامراجی ممالک ، ملٹی نیشنل
کمپنیاں اور ان کے مقامی گماشتے لے اڑہیں گے ؟ یہ سیاسیات ، قانون اور
معاشیات کے طالب علموں کے لئے تحقیق طلب امور ہیں۔ جن پر ملکی جامعات کو
تحقیقی کام کرنا چاہیے۔ کیونکہ قائد اعظم کا تصوّرِ پاکستان ملکی اور غیر
ملکی استحصال سے آزادی اور سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام تھا۔ اقبال
اور قائدِِاعظم کے تصورات کی روشنی میں اور آئینِ پاکستان میں قدرتی وسائل
کے استحصال اور اتکاز دولت کی ممانعت کے خواب کی اُس وقت تک تعبیر حاصل
نہیں ہو سکتی جب تک معاشرے میں استحصال کی تمام شکلوں کو مکمل طور پر ختم
نہ کیا جائے اور ملک میں ایک نیا معاہدہ عمرانی تحریر ہو جس میں ملک اور اس
کے وسائل پر پاکستان کے عوام کے قدرتی حق کو تسلیم کیا جائے۔ پاکستان کو
قدرت نے اتنے وسائل سے مالامال کیا ہے جس کی دُنیا میں کوئی مثال نہیں
ملتی۔ پاکستانی قوم نے صرف یہ فیصلہ کرنا ہے کہ قدرت کے اس عطیے کو سامراجی
ممالک ، ان کی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مقامی گماشتوں کے تعاون سے استحصال
کے لئے اجارہ داری کے حوالہ کر کے پاکستان کو ہمیشہ کے لئے امریکی اور
سامراجی طاقتوں کی عملداری میں دے کر غربت اور پسماندگی کو ملک کا مقدر
بنانا ہے یا پاکستان کے عوام کو قدرت کے ان سرچشموں سے فیض یاب ہونے کی
اجازت دے کر اِسے خود مختار اور خوشحال ملک بنانا ہے ؟
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں |