دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی حیثیت سے عالمی سطح پر اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ میں چین کا ایک کلیدی کردار ہے۔اپنی اسی ذمہ داری کو بخوبی محسوس کرتے ہوئے حالیہ برسوں میں چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں شامل ممالک کے ساتھ اقتصادی تعاون کے معیار کو بڑھانے اور پیمانے کو وسعت دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔چین نے یہ عزم بھی ظاہر کیا ہے کہ وہ بی آر آئی کے تحت اعلیٰ معیار کے بیرون ملک منصوبوں کی تعمیر کو مزید آگے بڑھائے گا اور آزاد تجارتی زونز کے نیٹ ورک کو وسعت دے گا۔چین نے مشترکہ ثمرات کے لئے مشاورت اور تعاون کے نقطہ نظر کی پیروی کرتے ہوئے بیلٹ اینڈ روڈ ممالک کے ساتھ معیشت اور تجارت میں عملی تعاون کو فروغ دیا ہے اور گزشتہ دہائی کے دوران وسعت اور معیار میں اضافے کے ساتھ جیت جیت پر مبنی نتائج حاصل کیے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ چین کی انتہائی بڑی مارکیٹ نے بی آر آئی میں شامل ممالک کے لئے اہم ترقی کے مواقع فراہم کیے ہیں، اور ان ممالک میں پیدا ہونے والی اشیاء اب چین کی کل درآمدات کا تقریباً نصف حصہ ہیں۔یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ 110 سے زیادہ بیلٹ اینڈ روڈ ممالک چین کو ایک اہم تجارتی شراکت دار کے طور پر شمار کرتے ہیں۔اس کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ ممالک کے ساتھ چین کی درآمدات اور برآمدات 2013 میں 6.46 ٹریلین یوآن (885 ارب ڈالر) سے بڑھ کر گزشتہ سال 13.76 ٹریلین یوآن ہو چکی ہیں۔چین اور بی آر آئی میں شامل دیگر ممالک کے درمیان دو طرفہ سرمایہ کاری 2013 سے 2022 کے درمیان مجموعی طور پر 380 ارب ڈالر سے زائد رہی جس میں سے چین کی بیرونی براہ راست سرمایہ کاری 240 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔بیلٹ اینڈ روڈ ممالک کے ساتھ چین کے تجارتی اور سرمایہ کاری تعاون نے وسائل کی موثر تقسیم میں بھی مدد کی ہے، صنعتی اور سپلائی چین کی مربوط ترقی کو تیز کیا ہے، اور ایک کھلی عالمی معیشت کی تخلیق میں مزید توانائی پیدا کی ہے. ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق بی آر آئی نے شریک فریقوں کی تجارت میں 4.1 فیصد اضافہ کیا اور 5 فیصد زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا۔ 2030 ء تک بی آر آئی ہر سال 1.6 ٹریلین ڈالر کی عالمی آمدنی پیدا کرے گا جو عالمی جی ڈی پی کا 1.3 فیصد ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین کی کوشش ہے کہ وہ خود کو مستقبل میں بی آر آئی ممالک کی پالیسیوں ، منصوبہ بندی اور صنعتوں کے ساتھ بہتر طور پر ہم آہنگ کرے ، تاکہ بنیادی ڈھانچے کے رابطے کو مزید بہتر بنایا جاسکے ، کیونکہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اس اقدام کا ایک اہم شعبہ ہے۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ گزشتہ 10 سالوں میں چین نے بیلٹ اینڈ روڈ ممالک کے ساتھ 2 ٹریلین ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور 1.3 ٹریلین ڈالر کے منصوبے مکمل کیے ہیں، جن میں نقل و حمل، بجلی، پیٹروکیمیکل، مواصلات، پانی کی بچت اور آلودہ پانی کے ٹریٹمنٹ سمیت متعدد شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔بیلٹ اینڈ روڈ ممالک نے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو بہتر بنانے، رابطے کو فروغ دینے، لوگوں کی فلاح و بہبود کو بڑھانے اور عوام کی ترقی کی صلاحیت کو مضبوط بنانے کے لحاظ سے ان تعاون کے منصوبوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔رواں سال کا ہی تذکرہ کیا جائے تو پہلے آٹھ مہینوں میں ، چینی کاروباری اداروں نے بیلٹ اینڈ روڈ ممالک میں توانائی کی بچت اور ماحولیاتی تحفظ کے نئے منصوبوں پر دستخط کیے ہیں ، جن کی مالیت 16 بلین ڈالر ہے ، جو سال بہ سال 22.2 فیصد کا اضافہ ہے۔ چین اس لحاظ سے بھی پر عزم ہے کہ تعاون کے اپنے نئے شعبوں میں توسیع جاری رکھے گا اور ماحول دوست اور دیگر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی تعمیر کو مضبوط بنانے کے لئے کاروباری اداروں کی رہنمائی جاری رکھے گا، تاکہ بیلٹ اینڈ روڈ ممالک کو سبز اور ڈیجیٹل ترقی کا احساس دلانے میں مدد مل سکے۔اس ضمن میں اعلیٰ معیار کے آزاد تجارتی زونز کے نیٹ ورک کو مزید وسعت دیتے ہوئے چین کوشاں ہے کہ جامع اور ترقی پسند ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ معاہدے اور ڈیجیٹل اکانومی پارٹنرشپ معاہدے میں شمولیت کو فعال انداز میں فروغ دیا جائے۔چین سمجھتا ہے کہ آزاد تجارتی معاہدے، ، شراکت داروں کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون کو مؤثر طریقے سے مستحکم اور گہرا کرسکتے ہیں، انٹرپرائز کی ترقی کو فروغ دے سکتے ہیں اور لوگوں کی فلاح و بہبود میں اضافہ کرسکتے ہیں۔تا حال ، چین نے 28 ممالک اور خطوں کے ساتھ ایف ٹی اے پر دستخط کیے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین آزاد تجارت کا مضبوط حامی ہے اور اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر عالمی سپلائی چین اور عالمی معاشی سرگرمیوں کی بھرپور بحالی کا خواہاں ہے۔
|