امام حسین علیہ السلام کے اصحاب

 شہادتِ حبیب ابن مظاہر
آج میں چاہتا ہوں کہ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کے متعلق کچھ عرض کروں کیونکہ اگر ایسا نہ کروں گا تو مولا امام حسین مجھ سے ناراض ہوجائیں گے کہ میرے باوفا اصحاب کو کیوں بھول گیا، لہٰذا اجمالی حیثیت سے چند فقرےپڑھ لیجئے۔

یہ وہ سب تھے جو بنی ہاشم کے علاوہ تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے اُن کو بلایا نہ تھا، سوائے ایک حبیب ابن مظاہر کے، باقی لوگ سب ساتھ ہوگئے تھے، یہ سمجھ کر کہ یہ سفر وہی ہے جس کے بعد آپ مدینہ نہ آئیں گے۔ یہ سمجھ کر ساتھ ہوئے تھے کہ حسین مرنے جارہے ہیں۔ لہٰذا ہم ان سے پہلے مریں گے۔ حبیب ابن مظاہر کو تو جو خط آپ نے لکھا تھا، اس کی ضرورت نہ تھی۔ وہ تو آہی رہے تھے مگر جنابِ زینب کو فرمائش ہوگئی تھی اور حسین اپنی بہن کا دل رکھنا چاہتے تھے___ بیٹھے تھے بہن بھائی۔ جنابِ زینب نے عرض کیا: بھیا! چاروں طرف سے فوجیں آرہی ہیں۔ آپ بھی تو اپنے دوستوں میں سے کسی کو لکھ دیجئے کہ وہ آپ کی مدد کیلئے آجائیں تو امام حسین نے فرمایا: اچھا بہن!یعنی آپ یہ نہیں چاہتے تھے کہ بہن کا دل ذرا بھی دُکھے۔
بیٹھ کر خط لکھا اور خط میں لکھتے ہیں:
”اِلَی الْفَقِیْہ“۔
اللہ اکبر۔ آپ لکھتے ہیں، ہم چاروں طرف سے گھرے جارہے ہیں۔ حبیب! اگر ہو سکے تو آجاؤ۔ جنابِ زینب سے کہا کہ بہن تمہاری خاطر میں نے خط لکھ دیا ہے تو عرض کرتی ہیں: بھیا! ذرا سنا تو دیجئے۔ امام حسین نے سنایا تو عرض کیا: بھیا! ایک فقرہ میری طرف سے بھی لکھ دیجئے۔ فرمایا، کیا؟ کہا:
”اَلْعَجَلْ، اَلْعَجَلْ“۔
”حبیب! اگر آنا ہے تو جلدی سے آجاؤ“۔
بھیج دیا ایک شخص کو۔ اُدھر حبیب کی حالت یہ ہے کہ ایک دن پہلے مہندی خریدنے گئے ہیں بازار میں۔ مسلم ابن عوسجہ ملے۔ آپس میں دعا و سلام ہوا تو حبیب نے کہا: بھائی مسلم! یہ کوفے میں کیا ہورہا ہے؟ تلواروں پر صیقل کسے جارہے ہیں۔ نیزوں کی انیاں زہروں میں بجھائی جارہی ہیں۔ یہ کس بڑی لڑائی کا اہتمام کیا جا رہا ہے؟ تو مسلم ابن عوسجہ نے کہا: حبیب! اتنے غافل بیٹھے ہو، تمہیں پتہ ہی نہیں کہ یہ کس سے لڑنے کا سامان ہے؟یہ میرے اور تمہارے مولا حسین کے قتل کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ حبیب نے کہا: اچھا! وقت آگیا۔ کہا، بالکل قریب آگیاوہ وقت۔
حبیب نے جو مہندی خریدی تھی، وہ پھینک دی کہ اب اس کی ضرورت نہیں۔ اب میری داڑھی میرے خون سے خضاب کی جائے گی۔گھر چلے آئے۔ متفکر اور پریشان دوسرے دن دستر خوان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک مرتبہ دروازے پر دستک ہوئی۔ پوچھا کون ہے؟ اُس نے کہا: امام حسین کا قاصد ہوں، یہ خط دیا ہے۔ خط ہاتھ میں لے کر آنکھوں سے لگایا، بوسے دئیے۔ تھوڑی دیر تک کھڑے ہوئے روتے رہے۔ اس کے بعد وہاں سے خط کو بند کرکے آنسو پوچھ کر گھر میں آئے، بیٹھ گئے بالکل خاموش! بی بی نے کہا کہ کس کا خط ہے؟ حسین ___فاطمہ زہرا کے فرزند کا۔ زوجہ نے پوچھا کہ کیا لکھا ہے؟ کہا کہ بلایا ہے۔ کہا ، کیا خیال ہے؟ کہنے لگے کہ میں سوچ رہا ہوں۔ اُس موٴمنہ نے ناراض ہوکر کہا: حبیب بوڑھے ہوگئے، اب بھی زندگی سے محبت!! فاطمہ کا بیٹابلائے اور تم سوچو۔ اگر تم نہیں جاتے ہو تو یہ میری چادر تم اوڑھ لو۔ میں جاؤں گی۔ یہ سن کر خوش ہوگئے حبیب اور کہنے لگے: مصلحت کی بناء پر میں نے یہ بات کہی تھی۔ میں بڑا خوش ہوں کہ تمہاری عقیدت یہ ہے۔

بہرحال حبیب نکلے، راستوں کو کاٹتے ہوئے کربلا میں پہنچے۔ امام حسین علیہ السلام خیمہ میں تشریف فرما تھے۔ جب تھوڑی دُور رہ گئے حبیب تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایاجنابِ علی اکبر سے: اے میرے بیٹے!
”اِسْتَقْبِلْ عَمَّکَ الْحَبِیْبَ“۔

جناب علی اکبر ، جنابِ قاسم ، تمام شہزادے استقبال کیلئے آگے بڑھے۔ حبیب نے جب شہزادوں کو دیکھا تو گھوڑے سے کود پڑے۔ اُن کے ہاتھ چومتے ہوئے آگے آئے۔ امام حسین کے قریب بڑھے تو اصحاب نے نعرئہ تکبیر بلند کیا۔اس نعرئہ تکبیر کی آواز خیموں میں پہنچی۔ جنابِ زینب نے فضہ سے کہا: ذرا دیکھنا کہ نعرئہ تکبیر کیوں بلند ہوا؟ فضہ آئیں، پوچھا، واپس گئیں اور کہا:آقا زادی! حبیب آگئے۔ جنابِ زینب نے کہا: فضہ حبیب بھائی کو میرا سلام پہنچادو اور کہہ دو کہ حبیب بھائی! آپ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔ فضہ نے آ کہ کہا کہ حبیب! آقازادی سلام کہہ رہی ہیں۔ حبیب نے جب یہ سنا تو اپنے منہ پر طمانچے مارنا شروع کردئیے کہ میں اور اِس قابل کہ فاطمہ زہرا کی بیٹی مجھے سلام کہیں۔

بہرحال یہ ایک واقعہ تھا کہ امام حسین نے اُن کو بلایا تھا۔ ویسے یہ خود تیار بیٹھے تھے۔ باقی لوگوں میں بہت سے ایسے بھی تھے جو یہ سن کر کہ امام حسین مدینہ کی طرف نہیں جارہے، مکہ سے خود گھروں سے نکل پڑے تھے۔ بہرحال میں عرض کررہا تھا کہ بچوں کو رخصت کرکے چلے تھے، اپنی بیویوں سے یہ کہہ کر چلے کہ اب نہ آئیں گے۔ مولا کی خدمت میں پہنچ رہے ہیں۔ رسول اللہ کی خدمت میں جائیں گے تو سرخروہوکر جائیں گے۔

کبھی آپ نے یہ سنا کہ کسی صحابی نے یہ کہا ہوکہ پیاسا ہوں؟ ایک دوسرے کے ساتھ جب ملتے تھے تو آپس میں یہی باتیں کرتے تھے کہ دیکھو! حسین کے پاس جانا تو ہنستے ہوئے جانا، ان کو ہماری تکلیف کا احساس نہ ہونے پائے۔

عاشور کی رات ایک وقت امام حسین علیہ السلام گئے ہیں جنابِ زینب کے خیمے میں۔ جنابِ زینب اُس وقت رورہی تھیں۔ پوچھتی ہیں: بھیا! یہ جو آپ کے ساتھی ہیں، ان پر آپ کو بھروسہ تو ہے؟ اس رات اصحاب خیموں کے گرد پہرہ دے رہے تھے۔ اس طرف اُس وقت بُریر تھے۔ یہ آواز اُن کے کانوں میں پڑ گئی۔ ایک مرتبہ گھبراگئے۔ بلند آواز میں آواز دی کہ اے اصحابِ حسین ! ذرا اِدھر آؤ۔ فاطمہ کی بیٹی کو ہم پر اعتبار نہیں، ذرا جاکر اطمینان دلا دو۔ اُس وقت انہوں نے تلواروں کی میانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دیا اور سب نے یک زبان ہوکر کہا:فاطمہ کی بیٹی!یہ تلواریں جب تک ہمارے ہاتھوں میں ہیں، آپ کے بھائی حسین کو کوئی زخم نہیں آسکے گا۔ جنابِ زینب نے دعائیں دیں(کتنے خوش نصیب تھے وہ لوگ جنہیں زینب دعائیں دیں)۔
صبح کا وقت جو ہوا(اللہ اکبر)۔ نہ کسی کو اپنی اولاد کی فکر ہے نہ ماں باپ یاد ہیں، نہ بہن بھائیوں کا خیال ہے، نہ کسی کو اپنا گھر یاد ہے۔ اگر یاد ہے تو حسین کا نام اور اگر کوئی چیز سامنے ہے تو حسین کی تصویر!
ایک آواز آتی ہے: مولا ! میرا آخری سلام قبول کریں۔ میں دنیا سے جارہا ہوں۔ حسین آتے ہیں، اصحاب عرض کرتے ہیں کہ آپ ٹھہر جائیں، ہم لے آتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں، نہیں! میرے بھائیو! اُس نے مجھے بلایا ہے، خاموش۔ جو حکم امام ____ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا، ذرا تم ٹھہر جاؤ، مجھے جانے دو، میری لاش پہلے آجائے۔ میں پہلے جان دوں گا۔ وہ کہتا ہے کہ آپ ٹھہریں، مجھے جانے دیں۔ جوان کہتے ہیں کہ لڑنے کا زمانہ ہمارا ہے، آپ بوڑھے ہوچکے ہیں، آپ ٹھہرئیے۔ بوڑھے کہتے ہیں: تمہارے رہنے کے دن ہیں، ہمارے مرنے کے دن ہیں تو ہمیں پہلے جانے دو۔ مولا اجازت دیجئے،ہم آپ کے دشمنوں سے جہاد کریں گے۔ ہر ایک کو ایک خوشی اور وہ یہ کہ آج دنیا سے جانے والے ہیں۔

جب بھی اصحاب کا ذکر آتا ہے ، مجھے یہ واقعہ ضرور یاد آتا ہے۔ ایک تھے بنی شاکر کے سردار، عابس اُن کا نام____تہجد گزار، پیشانی پر سجدوں کا نشان، جب یہ مقابلہ کیلئے آئے تو کسی نے کہہ دیا کہ یہ عرب کا مشہور بہادر بنی شاکر کا شہسوار عابس ہے۔ کوئی شخص تنہا اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ اس آواز کے بعد تیر آنے شروع ہوئے جو قریب تھے۔ انہوں نے پتھر پھینکے۔ عابس مسکرائے اور مسکرانے کے بعد سر سے لوہے کا خول اُتارا، زرہ اُتاری اور غلام جو ساتھ تھا، اُسے دے کر کہا : لے جاؤ، میں نے تم کو بخشا، لے جاؤ انہیں۔ غلام نے کہا: میرے آقا! یہ کیا کررہے ہیں؟ یہ میدانِ جنگ ہے۔ آپ نے فرمایا: سمجھتا ہوں کہ میدانِ جنگ ہے۔ غلام نے پوچھا کہ پھر یہ کیوں اُتار دیں؟ فرماتے ہیں: اگر یہ رہ جائیں گی تو مرنے میں دیر ہوجائے گی۔

مرنے میں دیر ہوجائے گی____اللہ اکبر۔ موت کا اس طرح سے شوق کہیں آپ نے سنا ہے۔ عورتیں اپنے بچوں کو سنوار سنوار کر بھیج رہی ہیں۔ آپ ایک لاش لائے ہیں اور اسے لٹادیاجہاں اور لاشیں لٹائی تھیں۔ آپ کو جو اُن کی وفائیں اور خدمتیں یاد آئیں تو کھڑے ہوکر رونے لگے۔ آنکھوں پر رومال رکھے رو رہے ہیں۔ اُن کی اطاعت گزاریوں اور وفاداریوں کو یاد کرکے کہ ایک خیمے کا پردہ اُٹھا۔دس یا گیارہ برس کا بچہ نکلا، چھوٹا سا عمامہ سر پر بندھا ہوا ہے۔ ایک تلوار کمر میں بندھی ہوئی ہے۔ بچے کا قد چھوٹا، تلوار لمبی، زمین پر خط دیتے ہوئے چلی آرہی ہے۔ بچے نے اِدھر اُدھر کچھ نہ دیکھا، سیدھا امام کے پاس پہنچا اور پاؤں پر گر پڑا۔ امام حسین متوجہ ہوئے، جھک کر بچے کو اُٹھایا، سینے سے لگایا، بیٹا! تم کیسے نکل آئے، دیکھو یہ تیر آرہے ہیں۔ وہ بچہ کہتا ہے کہ میرے آقا! مجھے مرنے کی اجازت دیجئے۔میں آپ کے دشمنوں سے جنگ کرنے نکلاہوں۔

آپ نے فرمایا: تیری یہ عمر جنگ کی نہیں ہے۔ تو خیمے میں چلا جا۔ اُس نے کہا: مولا ! اب خیمے میں نہیں جاؤں گا۔ اب خیمے میں جائے گی تو میری لاش جائے گی۔ آپ نے فرمایا: تو کس کا بیٹا ہے؟ تیرے باپ کا نام کیا ہے؟ تو وہ بچہ کہتا ہے کہ یہی تو میرے باپ کی لاش ہے جس پر آپ کھڑے ہوئے رو رہے ہیں۔ امام حسین نے اس بچے کو پیارکیا اور فرماتے ہیں: بیٹا! تو اپنی ماں کے پاس چلا جا۔ تیری ماں کیلئے تیرے باپ کی جدائی کا غم کافی ہے۔ تو اُسے اپنی جدائی کا غم نہ دے۔ یہ جو سننا تھا تو وہ کہتا ہے: مولا ! یہ عمامہ میری ماں نے اپنے ہاتھ سے باندھا ہے۔ یہ تلوار بھی میری ماں نے میری کمر سے باندھی ہے ۔ ایک مرتبہ خیمے سے آواز آئی، میرے آقا! میرے بچے کو اجازت دے دیں تاکہ میں زینب کے سامنے سرخرو ہوجاؤں۔

شہادتِ مسلم بن عقیل
حضرت امام علیہ السلام دربارِ ولید کی طرف روانہ ہونے لگے تو بنی ہاشم کے جوانوں نے کہا کہ آقا! ہم آپ کو اکیلا تو نہیں جانے دیں گے۔ چنانچہ جنابِ عباس ، جنابِ علی اکبر ، جنابِ قاسم اور بنی ہاشم کے جوان امام علیہ السلام کے ساتھ چل پڑے۔ جب دروازہ پر پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ دیکھو! مجھے تنہا بلایا ہے۔ تم میرے ساتھ اندر نہ آؤ۔ اگر میری آواز بلند ہو تو تم آجانا۔ چنانچہ یہ سب کھڑے ہوگئے۔امام حسین علیہ السلام اندر تشریف لے گئے۔ ولید کے ساتھ مروان بھی بیٹھا ہوا تھا۔ حاکمِ مدینہ نے وہ خط آپ کو دکھایا جس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ یزید کا باپ مر گیا ہے اور یزید کا یہ حکم ہے۔

امام علیہ السلام نے فرمایا کہ بھئی دیکھو! اس قسم کی چیزیں پوشیدہ نہیں ہونی چاہئیں۔ جو کچھ بھی ہو، اعلانیہ ہونا چاہئے تاکہ سب کو معلوم ہوجائے کہ کس کی کیا رائے ہے۔ اُس نے کہا کہ بات تو آپ معقول فرمارہے ہیں۔ اچھا تو آپ جاسکتے ہیں۔ امام حسین اُٹھنے لگے تو مروان نے یہ کہا:دیکھوولید! حسین اگر اس وقت چلے گئے تو پھر تیرے ہاتھ کبھی نہ آئیں گے۔ ابھی ان کو گرفتار کرلے یا قتل کروادے۔ امام حسین علیہ السلام نے جب یہ بات اُس کی زبان سے سنی تو ایک مرتبہ آپ نے فرمایا:

”ایسی عورت کے بیٹے جو اپنے وقت میں نیک نام نہ تھی، تیری مجال ہے کہ تو مجھے گرفتار کرسکے یا قتل کردے؟ “

اِس فقرے میں آواز بلند ہوگئی اور باہر جوجوان کھڑے تھے، اُن کے کانوں تک پہنچ گئی اور ایک مرتبہ بنی ہاشم اندر داخل ہوگئے۔ سب سے آگے عباس علیہ السلام تھے۔ عجیب انداز ہے ، تیوریاں چڑھی ہوئیں، آپ نے آتے ہی کہا: مولا ! بات کیا ہوئی؟ آپ نے فرمایا:عباس ! کچھ نہیں، چلو میں بھی چل رہا ہوں۔ کس کی مجال تھی کہ جو زبان سے کوئی لفظ بھی کہہ سکے۔

خیر! امام علیہ السلام نے تیاریاں کیں۔ اپنے عزیزوں کو جمع کیا اور ان کو جانے کیلئے تیار ہونے کا حکم دیا۔
امام حسین علیہ السلام نے جانے کی تیاری مکمل کرلی۔ آخر میں ابن عباس پھر آئے۔ چونکہ یہ مخلص تھے، اس لئے پھر کہنے لگے:فرزند ِ رسول! آپ کیوں جارہے ہیں؟ اُدھر نہ جائیے۔ مدینہ چلے جائیے۔ کوفے کے لوگ تو کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتے۔ امام فرماتے ہیں:بھائی ابن عباس!میں جہاں بھی چلا جاؤں، دشمن میرے ساتھ جائیں گے۔ حتیٰ کہ اگر سوراخِ نمل میں بھی چلا جاؤں تو وہاں بھی میرے دشمن مجھے قتل کرنے کیلئے پہنچ جائیں گے اور اگر مدینے جاؤں تو میرے نانا کے حرم کی بے حرمتی نہ ہوجائے۔ اس لئے کوفے کی طرف جارہا ہوں اور تم مجھ سے اس کے بعد کچھ نہ کہو۔

انہوں نے پھر اصرار کیا تو امام علیہ السلام نے صرف اتنا کہا:اچھا کل صبح تک تو دیکھو کیا ہوتا ہے۔ صبح ہوئی، ابن عباس نے غلام کو بھیجا، وہ واپس آگیا۔ اُس نے اپنے آقا سے آن کر کہا کہ امام حسین تو بالکل تیار کھڑے ہیں۔ شہزادیاں ہودجوں میں بیٹھ چکی ہیں۔ آپ کے اصحاب گھوڑوں کی باگیں پکڑے ہوئے صرف حکم کے منتظر ہیں۔ یہ سن کر عبداللہ ابن عباس دوڑتے ہوئے آئے اور انہوں نے آکر کہا:فرزند رسول! کیا ارادہ کر ہی لیا؟ آپ نے فرمایا: ہاں بھئی! اب کچھ نہ کہو۔ رات نانا آئے تھے اور مجھ سے فرما رہے تھے:حسین ! تیری قبر کی جگہ تیرا انتظار کررہی ہے۔ ابن عباس وہاں کھڑے ہیں، جہاں ایک اونٹ ہے جس کے ہودج میں جنابِ فاطمہ زہرا کی بڑی بیٹی جنابِ زینب بیٹھی ہوئی ہیں۔

اس کے بعد ابن عباس نے کہا کہ اچھا آپ جائیے۔ لیکن ان بیبیوں، اِن پردہ داروں کو تو نہ لے جائیے۔ جنابِ زینب کے کان میں جب یہ آواز پہنچی تو آپ نے فرمایا: بھائی ابن عباس! یہ کیابات کہہ رہے ہو؟ کیا میں رُک سکتی ہوں۔ میں اپنے مظلوم بھائی کو کبھی نہیں چھوڑ سکتی۔ چنانچہ یہ قافلہ روانہ ہوگیا۔

حضرت مسلم بن عقیل کو آپ نے پہلے سے ہی کوفہ کی طرف روانہ کردیا ہوا تھا اور وہاں جنابِ مسلم نو(۹) ذی الحجہ کو شہید ہوگئے۔ دو بچوں کو ساتھ لے گئے تھے۔ پتہ نہیں کہ وہ کہاں کہاں رہے۔ آخر میں وہ بھی گرفتار ہوگئے۔ قید خانے میں ڈال دئیے گئے۔ چھوٹے بچوں کی عمریں نو(۹) اور دس سال کی تھیں۔ جنابِ مسلم اُنہیں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ جب امام حسین نے فرمایا: مسلم تم چلے جاؤ میری طرف سے نائب ہوکر کوفے اور وہاں کے حالات سے مجھ کو مطلع کرو۔ تو عرض کرتے ہیں: میں گھر ہو آؤں؟ فرمایا: ہاں، اجازت ہے۔ وہاں سے جو نکلے تو اِن دو بچوں کو لائے اور عرض کرتے ہیں: آقا! یہ میرے ساتھ بڑے مانوس ہیں، اگر اجازت ہو تو ان کو بھی لیتا جاؤں؟

امام حسین علیہ السلام نے بچوں کی شکلیں دیکھیں تو آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ فرماتے ہیں:ہاں بھائی مسلم ! ان کو بھی لیتے جاؤ کیونکہ ان کیلئے بھی جگہ معین ہوچکی ہیں۔جنابِ مسلم وہاں شہید ہوگئے۔ بعد میں یہ بچے بھی دریا کے کنارے شہید کردئیے گئے۔

امام حسین علیہ السلام کوفے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایک منزل پر نمازِ صبح باجماعت ادا ہوئی۔ نماز کے بعد آپ کی حالت یہ ہے کہ سر جھکائے بیٹھے ہیں، کسی سے بات نہیں کررہے۔ اصحاب پریشان ہیں کہ کیا معاملہ ہے۔ آج کیوں پریشان ہیں؟ ایک مرتبہ آپ نے خود ہی سر اُٹھایا اور کہا بھائیو! ذرا کوفے کے راستے کی طرف دیکھتے رہو۔ اگر وہاں سے کوئی آنے والا نظر آئے تو میرے پاس لے آؤ۔ چند منٹ کے بعد ایک شخص نے کہا:آقا! مجھے ایک شخص دور سے نظر آرہا ہے کہ اس طرف آرہا ہے اور یہی کوفے کا راستہ ہے۔ آپ نے کہا کہ ہاں، اس شخص کو ذرا میرے پاس لے آؤ۔ آنے والے شخص نے دور سے جب قافلے کو اُترتے ہوئے دیکھا اور ایک شخص کو اپنی طرف آتے دیکھا تو راستہ کاٹنا چاہا۔ اتنے میں یہ گھوڑے کو دوڑا کر وہاں پہنچ گیا اور قریب پہنچ کر کہا: بھائی! تم ڈرو نہیں۔ وہ رُک گیا اور کہا کہ کیابات ہے؟ اُس نے کہا:ہمارا سردار تمہیں بلا رہا ہے۔ اگر تمہیں تکلیف نہ ہو تو ذرا ہمارے سردار کے پاس چلو۔

اُس نے کہا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ اُس نے کہا کہ وہ امیرالموٴمنین کے فرزند، نواسہٴ رسول، حسین علیہ السلام ہیں۔ یہ جو سنا تو وہ مطمئن ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں چلنے کو تیار ہوں۔ چنانچہ دونوں روانہ ہوئے۔ وہ آ کر امام علیہ السلام کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ آپ نے سر اُٹھایا، فرماتے ہیں: بھائی کدھر سے آرہے ہو؟ اُس نے کہا : مولا ! میں کوفے سے آرہا ہوں۔ یہ جو سنا تو اُس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ اُس نے کہا:مولا ! ذرا اُٹھ کر الگ ہوں تو میں کچھ بیان کروں۔ آپ نے فرمایا: بھائی! گھبراؤ نہیں، یہ سب میرے اپنے ہیں۔ اُس نے ایک مرتبہ اپنے سر سے عمامہ اُتار کر زمین پر پھینکا اور کہا:آقا!میرے مولا حسین ! میں کوفے سے جب چلا ہوں تو یہ دیکھ کر چلا ہوں کہ مسلم کی لاش کوفے کی گلیوں میں پھرائی جارہی ہے اور مسلم کا سرکوفے کے دروازے میں لٹکا ہوا ہے۔

یہ جو امام حسین علیہ السلام نے سنا تو بے ساختہ آنسو نکل آئے اور رونے لگے۔ تمام اصحاب اور عزیزوں کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد امام علیہ السلام اُٹھے، جنابِ زینب سلام اللہ علیہا کے خیمے میں پہنچے۔ زینب بھائی کو اس طرح دیکھ کر گھبراگئیں۔ مگر کچھ پوچھا نہیں۔ فرمایا: میری بہن زینب !ذرا مسلم کی بیٹی رقیہ کو لے آؤ۔ یہ بچی پانچ ، چھ سال کی تھی۔ جب وہ لائی گئی، آپ نے زانو پر بٹھایا، اُس کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا، اُس کو پیار کیا۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: بہن زینب ! وہ گوشوارے جو ہم نے کبھی لئے تھے، ذرا ان کو لے آؤ۔ اپنے ہاتھ سے اُس کے کانوں میں گوشوارے پہنائے، سر پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ بچی آخر اہلِ بیت کے گھر کی تھی۔ کچھ گھبرا گئی اور پوچھنے لگی: چچاجان! میرے بابا تو زندہ ہیں؟ یہ شفقت تو آپ یتیموں کے ساتھ فرمایا کرتے ہیں؟ فرمایا: بیٹی!اگر تمہارا باپ زندہ نہیں تو حسین تو زندہ ہے۔ اس کے بعد حسین کو اپنا باپ سمجھنا۔

ارے مسلم کی بیٹی رقیہ خوش قسمت تھی کہ باپ کا انتقال ہوا تو حسین موجود تھے۔ سکینہ کی قسمت!جب امام حسین دنیا سے اُٹھے تو کسی نے تسلی نہ دی بلکہ شمر کے طمانچے کھائے اِس بچی نے!!
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1294944 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.