تحریر پیرآف اوگالی شریف
نوکِ سناں پر مظلوم امام کا سرجو سکینہ کی بیکسی کو دیکھ کر آنسو بہارہاتھا۔
بنتِ زہرا نے اپنا سر کجاوہ کی لکڑی پر دے مارا اور روکر کہا: میرے بھیا
حسین ! کیا میری ماں نے تجھے اس دن کےلئے چکیاں پیس پیس کر پالا تھا؟
اور پھر جب دین برباد ہونے لگا تو اُس کی آواز آرہی تھی:
”ھَلْ مِنْ نَاصِرٍ یَنْصُرُنَا“
”کوئی ہے جو اس وقت میری مدد کو پہنچے؟“
کسی جگہ سے کوئی آواز بلند ہوئی؟ کہ اے دین اسلام! ہم تیری مدد کریں گے۔
ہاں! اُسی نے آواز دی کہ جو دین تھا خود___اُس نے آواز دی کہ دین! گھبرائیے
نہیں___جب تک میں زندہ ہوں، تجھے برباد نہیں کیا جاسکتا۔ اُسی کا نام تھا
حسین !!
اس امام نے وہ کارنامہ سرانجام دیاکہ سسکیاں لیتا ہوا دین دوبارہ زندہ
ہوگیا۔ لہٰذا جب تک دین رہے گا، حسین رہے گا۔ جنابِ زینب جب قید سے چھوٹ کر
آئی ہیں اور مدینے میں داخل ہوئی ہیں، کسی نے کہا: چلئے اپنے گھر! جنابِ
زینب نے روکر فرمایا: ابھی گھر کہاں جاؤں گی؟ ابھی تو نانا کی قبر پر جانا
ہے۔ سب سے پہلے بھائی کی ”مظلومیت“ اور شہادت کے بارے میں بتانا ہے۔ جاکر
چوکھٹ پکڑ کر نانا کی قبر کی، ایک مرتبہ کہتی ہیں: نانا! زینب قید سے رہا
ہوکر آگئی ہے۔ نانا! اگر یہ لوگ نامحرم نہ ہوتے تو میں آپ کو اپنے بازوؤں
کے نشان دکھلاتی۔ نانا! میں نے وہ محنت کی ہے کہ اب قیامت تک آپ کے دین کو
کوئی ختم نہیں کرسکتا۔
امام حسین علیہ السلام اس قافلے کو اپنے ساتھ لے کر گئے تھے جس میں ہر ہر
مقام کے افراد کو جمع کر دیا گیا۔ کچھ بچیاں ایسی لے کر گئے تھے کہ جو
طمانچے کھائیں اور یاد رہیں طمانچے مارنے والوں کو کہ یہ مظالم بھی ہوتے
ہیں۔ یہ بھی یاد رہ جائے کہ تین چار سال کی بچی ہے مگر طمانچے کھانے کے بعد
بھی بد دعا نہیں دیتی۔ تکلیف ہوئی، رودی مگر بددعا نہیں دی۔
ایسے بچے بھی لے گئے جن کی عمر کربلا پہنچ کر چھ ماہ کی ہوئی تاکہ ہر ظلم
کا نشانہ بنیں اور مسکراتے ہوئے چلے جائیں۔ کچھ بچے ایسے لے گئے جو یہ کہتے
تھے کہ شہد اتنا میٹھا نہیں ہے جتنی موت میٹھی ہے۔ یہ تیرہ سال کے بچے کی
زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں۔ امام حسین نے وہ کارنامہ انجام دیا بلکہ دین
پر وہ احسان کیاجس سے دین کا سر قیامت تک کبھی نہیں اُٹھ سکتا۔
جب شمر کا خنجر حسین کے گلے کے نزدیک پہنچا، سب سے پہلے مسکرائے، اس کے بعد
بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے ہیں: پروردگار! میں نے ، میرے ماں باپ نے، جو
وعدہ کیا تھا، تیری توفیقات سے میں اس وعدہ کو پورا کرچکا۔خدایا! جو تو نے
وعدہ کیا ہے”پورا کرنا“، آواز آئی: حسین تونے اپنے آپ کو میرے لئے مٹا دیا،
تو اب میرا وعدہ یہ ہے کہ تمام عالم مٹ جائے گا لیکن تجھے نہ مٹنے دوں گا۔
موٴمنین کرام!یہ وعدہ خدا کا کس طرح پورا ہورہا ہے، صرف دعویٰ نہیں ہے،
دلیل ہے۔ مٹانے والے آج بھی مٹانے کی کوشش میں ہیں لیکن جتنا مٹانا چاہتے
ہیں، اُتنا ہی حسین کا نام اُبھرتا چلا جاتا ہے۔ حسین مظلوم کے ذکر میں
ترقی ہوتی جاتی ہے۔ ہم نہیں ترقی دے رہے، ہماری حیثیت ہی کیا ہے، وعدہ
کرچکا ہے خدا کہ تیرے اوپر رونے والے قیامت تک پیدا کرتا رہوں گا۔ آج گیارہ
محرم تھی، یاد تو ہوگی آپ کو، اس سے پہلے جو رات گزری ہے، یہ ان بیبیوں پر
کیسی گزری ہے؟ زمین پر بیٹھے بیٹھے تمام رات گزاردی، اس رات میں گچوں کی یہ
حالت ہے کہ انہوں نے کچھ ایسے وحشت ناک مناظر دیکھے ہیں کہ اب وہ روتے بھی
نہیں۔ اتنے سہم گئے ہیں کہ اب بالکل خاموش ہیں۔ زبان سے کہہ دینا اور ہے،
اور سن لینا اور ہے۔ ہم کہتے کہتے عادی ہوگئے، آپ سنتے سنتے عادی ہوگئے۔
ذرا کبھی تصور تو کیجئے کہ جن کے سارے عزیز مر چکے ہوں، ان کی لاشیں سامنے
پڑی ہوں، ان لاشوں پر بیبیاں جابھی نہ سکتی ہوں، اُن کی رات کیسے گزری ہوگی؟
جب تک حسین زندہ رہے، اس وقت تک جنابِ زینب کبھی کبھی روتی بھی ہیں، بھائی
سے مل کر روئیں،بھائی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر روئیں مگر اِدھر حسین کا سر
نیزے پر آیا، اُدھر زینب کے آنسو خشک ہوگئے، اس لئے کہ ذمہ داریاں جنابِ
زینب پر آگئی تھیں۔ کبھی اتنی بیبیاں تھیں ، اُن کے بچوں کو گود میں لیتی
تھیں، کبھی امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس آکر بیٹھتی تھیں اور کبھی
ان بیبیوں کو تسلی دیتی تھیں اور کبھی بچوں سے کچھ باتیں کرتی تھیں۔ یہ رات
اسی طرح گزرگئی۔ گیارہ محرم یعنی آج یہ ساری بیبیاں قید ہوکر کوفے کی طرف
روانہ ہوگئیں۔ جنابِ زینب نے ساری بیبیوں کو خود سوار کیا۔ ذرا تصور تو
کیجئے، جنابِ زینب تنہا رہ گئیں اور آپ کا سوارکروانے والا کوئی نہ رہا۔ایک
مرتبہ قتل گاہِ حسین کی طرف نگاہ کی، آواز دی، بھیا حسین ! ارے زینب کو
سوارکرنے والا کوئی نہیں، قید ہوکر جارہی ہوں۔ کم ازکم اونٹ پر سوار کرنے
کیلئے تو آجاؤ! دریا کی طرف نگاہ کی: ارے میرے غیرت مند بھائی عباس !میں
قید ہوکر جارہی ہوں، مجھے سوار کروانے والا کوئی نہیں۔
اس جگہ کا ایک واقعہ یاد آیا، جنابِ ابوذر غفاری اس دنیا سے اُٹھے تھے، ان
کی بیٹی راستے میں کھڑی ہوگئی۔مالک اُشتر کا قافلہ آیا، انہیں بتایا گیا۔
تمام قافلہ رُک گیا۔ ابوذر کو دفن کیا۔ آخر میں مالک اُشتر نے حکم دیا کہ
ایک عماری الگ بنائی جائے، ابوذرکی بیٹی کیلئے تاکہ اسے سوار کرکے
امیرالموٴمنین کی نگرانی میں دیا جائے۔ایک عماری الگ بنائی گئی، کفن و دفن
سے فارغ ہوکر آپ نے حکم دیا: قافلے والو! تیار ہوجاؤ، سفر شروع کرو۔ لوگوں
نے تیاری کی، سامان وغیرہ اونٹوں پر رکھ چکے۔ بعض لوگ بیٹھ بھی چکے کہ اتنے
میں کسی شخص نے مالک اُشتر سے کہا کہ تم نے جو عماری بنوائی تھی ابوذر کی
بیٹی کیلئے، ابوذر کی بیٹی کا پتہ نہیں کہ کدھر چلی گئی؟ کچھ پتہ نہیں چلتا۔
مالک اُشتر گھبرا گئے۔ آپس میں باتیں ہونے لگیں کہ کدھر چلی گئی ابوذرغفاری
کی بیٹی؟ ایک شخص اتفاق سے آرہا تھا، بالکل اجنبی۔ اُس نے بھی کچھ سن لیا۔
اُس نے کہا: گھبراؤ نہیں، آج جو نئی قبر بنی ہے، اس پر میں نے ایک عورت کو
روتے ہوئے دیکھا ہے۔ جاکر تلاش کرو، وہی نہ ہو۔
چنانچہ مالک اُشتر خود گئے، دیکھا کہ ابو ذر کی بیٹی باپ کی قبر پر منہ
رکھے ہوئے رو رہی ہے۔ بابا!میں آج جارہی ہوں۔ میں اب آپ کی قبر پر فاتحہ
کیلئے نہیں پہنچ سکوں گی۔ مالک اُشتر نے کہا: بیٹی چلو۔ ابوذر کی بیٹی نے
کہا: چچا مالک! خدا کیلئے مجھے چھوڑ دیں کہ باپ کی قبر پر رہوں، پھر رخصت
ہوجاؤں۔
صاحب مفتاح الجنان لکھتے ہیں کہ جب بیبیاں سوار ہونے لگیں، جنابِ زینب سوار
کرنے لگیں تو کسی کی زبان سے نکلا کہ علی و فاطمہ کی چھوٹی بیٹی اُمّ کلثوم
کدھر ہیں؟ اب ان کو اِدھر اُدھر نگاہیں ڈھونڈنے لگیں۔ آخر میں بیبیوں نے
کہا کہ ان میں تو وہ نہیں ہیں۔ یہ جو کہا گیا تو سب بیبیاں گھبراگئیں۔ یہ
باتیں ہورہی تھیں کہ اتفاق سے ایک شخص اُسے آنکلا۔ اُس نے بھی کچھ سن لیا۔
اُس نے کہا: گھبراؤ نہیں، میں ابھی اُدھر سے آرہا ہوں، دریا کے کنارے،میں
نے دیکھا کہ وہاں ایک لاش پڑی ہوئی ہے جس کے بازوکٹے ہوئے ہیں، اس لاش سے
لپٹی ہوئی ایک بی بی رو رہی ہے، دیکھو شاید وہی ہو؟جنابِ زینب جو پہنچیں تو
اُمّ کلثوم عباس کی لاش سے لپٹی ہوئی کہہ رہی تھیں: بھیا! میں قید ہوکر
جارہی ہوں۔
یہ قافلہ کوفے کے قریب پہنچا، چالیس اونٹوں پر بیبیاں سوار، محبانِ حسین سے
عرض کررہا ہوں۔ جب دروازئہ کوفہ ڈیڑھ میل رہ گیا، ایک مرتبہ حکم آتا ہے،
ابن زیاد کا، کہ قیدیوں کو ٹھہرادو، اس لئے کہ ابھی شہر سجایا نہیں گیا۔
عزادارانِ اہلِ بیت !شہزادیوں کا گزرہونے والا ہے، قیدیوں کی حالت میں__دو
گھنٹے یہ قیدی کھڑے رہے، گودوں میں چھوٹے چھوٹے بچے لئے کھڑی یں۔ آخر میں
ایک دفعہ باجوں کے بجنے کی آواز آئی۔ یہ استقبال ہے کس کا؟ نبی کی بیٹیوں
کا جو اس وقت بغیر رِدا کے ہیں۔ اُن کے سر پر چادر نہیں ہے۔ حکم آیا کہ
قیدیوں کو بڑھاؤ مگر اس طرح سے کہ جتنے کٹے ہوئے سر ہیں شہداء کے، وہ سب
نیزوں پر بلند ہوں۔ سارے سر بلند کئے گئے۔ ہر ایک سر اُس بی بی کے اونٹ کے
ساتھ بلند کیا گیا جو اُس کی بہن تھی یا بیٹی تھی یا اُس کی ماں تھی۔ امام
حسین کا سرجس نیزے پر نصب کیا گیا، وہ نیزہ جنابِ زینب کے اونٹ کے پاس تھا۔
ارے زینب کی گود میں سکینہ بھی تھی۔ یہ پہلی مرتبہ سکینہ نے باپ کا سر نیزے
پر دیکھا۔ امام حسین کے سر سے دو تین قطرے خون کے گرے۔ جنابِ زینب کی نگاہ
پڑی تو اپنے کجاوے کی لکڑی پر اپنا سر دے مارا اور آپ نے کہا کہ میری ماں
کے چاند! کیا میری ماں نے چکیاں پیس پیس کر اسی لئے پالا تھا کہ تیرا سر اس
طرح سے نیزے پر بلند کیا جائے۔ |