اس وقت ہمارے ملک میں اگر قومی یکجہتی کی کہیں جھلک نظر آتی ہے تو وہ کرکٹ کے میچ کے دوران دیکھی جا سکتی ہے۔ پنجاب کے دیہات سے لے کر وزیرستان کے پہاڑی علاقوں تک کرکٹ وہ جنون بن چکا ہے جو ہمارے ملک کے اکثریت علاقوں میں یکساں طور پر دیکھا اور کھیلا جاتا ہے. بدقسمتی سے پاکستان کا محبوب ترین کھیل کرکٹ گزشتہ کافی عرصے سے اور خاص کر ورلڈکپ کے گزشتہ اور حالیہ پاکستان اور انڈیا کے میچ کے دوران ہمیشہ سے میچ فکسنگ کی زد میں رہے ہیں اور اس پر میچ کے بعد ایک دو دن پرنٹ ، الیکٹرونک و سوشل میڈیا میں چیخ و پکار کے بعد پھر سب بھول کر کھلاڑی اپنے دوسرے میچوں اور عوام اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں اور یہ میچ فکسنگ پر جو بحث و مُباحثہ پر اینکرز اور عوام آسمانوں پر اُچھل اُچھل کر الزامات لگارہے تھے وہ چیز تو وہاں ہی رہتی ہےاور پھر دوسرے بڑے ٹورنامنٹ میں یہی اپیسوڈ ( قسط ) دوبارہ اپنی آب وتاب سے دوبارہ کرتا دھرتاؤں نے اپنے اپنے مورچہ سنبھال لیے ہوتے ہیں. میچ فکسنگ نے جہاں پاکستانی کرکٹ کے بڑے بڑے قابل اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو ضائع کر دیا ہے وہیں پہ کرکٹ کے شائقین کے جذبات کو بھی شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میچ فکسنگ کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کی عزت اور وقار کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتا بھی اکثر اوقات ان پر فکسنگ کے شق بھی لگے ہیں. ابھی 2023 کے راؤنڈ میچ پاکستان اور انڈیا کے میچ کی جس طرح سے انٹرنیشنل و نیشنل میڈیا اس میچ میں پاکستان کو فیورٹ قرار دے رہا تھا. میچ سے ایک دن پہلے جس طرح پاکستان کا میڈیا میں کھلاڑیوں کا جوش و ولولہ دیکھ کر ایسا ہی لگتا تھا کہ میچ کانٹے کا ہوگا مگر میچ شروع ہونے سے ایک دن پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کے صدر زکاء اشرف کی پاکستانی ٹیم سے ملاقات اور ان سے کچھ مختضر تقریر نے سوشل میڈیا پر جو دھوم مچادی اور اور جس طرح کے الزامات لگائے کہ اب پاکستان تو جیت سے دور کھلاڑیوں کے دوران بورڈ کے چیرمین سے ملاقات کھلاڑیوں کے چہروں کی ہوائیاں اُڑی ہوئی تھیں زکا اشرف کیا پیغام کھلاڑیوں کو دے رہے تھے کہ سب کھلاڑیوں کے چہرے افسردگی و پریشانی میں کیوں مبتلا تھے. اس طرح کی کئی پوسٹ سوشل میڈیا میں بھر مار لگی ہوئی تھیں. کیا وجہ ہے کہ پاکستان اتنی اچھی کارگردگی دیکھاتے ہوئے ورلڈکپ میں ہمیشہ راؤنڈ میچ میں انڈیا سے ہار جاتا ہے. اور پھر فکسنگ کے الزامات کی جو بھرمار لگتی ہے اس سے پاکستانی عوام بھی یہ ہی سمجھ پاتی ہے کہ شائد واقعی فکسنگ ہوئی ہوئیگی. جبکہ بقول زکاء اشرف کے میں نے تو پاکستانی کھلاڑیوں سے مل کر بھارت کے خلاف کسی دباؤ کے بغیر کھیلنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کھلاڑی ہار جیت کے خوف کو ذہن سے نکال کر میدان میں اتریں، کھلاڑی 100 فیصد کارکردگی دکھائیں فتح مقدر بنے گی۔ ذکا اشرف نے کھلاڑیوں کے لیے نیک تمناوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم ٹیم کی کامیابی کےلئے دعاگو ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستانی کھلاڑی پریشر برداشت نہ کرسکے اور ایک مٹی کی دیوار کی طرح ڈھیر ہوگئے یہ صرف انڈیا کے ساتھ ورلڈکپ کے راؤنڈ میچ میں ایسا کیوں ہوتا ہے. کیا پاکستانی کھلاڑیوں میں سائیکالوجی دباؤ کی وجہ سے یہ دباؤ میں آجاتے ہیں جبکہ ہر کھلاڑی دو تین کے علاوہ پچاس سے زیادہ میچ کھیل چکا ہے. جب پاکستان بورڈ نے کرکٹ ٹیم کے لیے ٹرینی کی پورا ایک دستہ رکھا ہوا ہے. تو وہ ان کھلاڑیوں کے لیے ایک سائیکلسٹ بھی رکھ سکتے ہیں . جو ان بچوں کی صیح رہنمائی کرسکے ان کھلاڑیوں کو پریشر سے نکال سکے. انڈیا سے میچ ہارنے کے بعد کپتان بابر اعظم کہہ رہا تھا کہ ہم نارمل کھیل رہے تھے۔ ارے آپ کسی اور ٹیم نہیں بلکہ بھارت کے خلاف کھیل رہے تھے اور یہ میچ کبھی بھی نارمل نہیں ہوتا بلکہ مارو یا مر جاؤ کے مترادف ہوتا ہے۔ پاکستانی ٹیم نے میچ میں کچھ بھی نہیں کیا اور بُری کارکردگی سے ون سائیڈ میچ بنا دیا۔ اگر ہمیں اپنے بولر کو ریسٹ دینا ہے تو انہیں چھوٹی ٹیموں جیسے افغانستان اور دیگر کے خلا ف ریسٹ کرانا چاہیے، ایک تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ بورڈ کو جو بھی نیا سربراہ آتا ہے وہ کپتان کو کیوں ان پاور کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مطلب اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا ہے، ہمارے پاس اتنی اسٹرینتھ نہیں ہے کہ اپنے کھلاڑیوں کے دیکھ بھال کر سکیں اور متبادل کے ہمراہ اچھے کمبی نیشن کے ساتھ میدان میں جا سکیں۔ اس وقت پورا پاکستان اس میچ کی ہار ہر اپنا اپنا تجزیہ فکسنگ
پاکستان کرکٹ میں اس کا باقاعدہ آغاز 1994 میں میچ فکسنگ کے الزامات اور عوام کے سامنے منظر عام آئے. جب سلیم ملک کی کپتانی میں پاکستان ٹیم زمبابوے کے دورے پر گئی۔ اس دوران اس کو ایک ٹیسٹ میچ میں پاکستان کو ایک بری شکست ہوئی تھی جس کے بعد راشد لطیف نے سلیم ملک پر میچ فکسنگ کے الزامات لگائے تھے۔ پھر میچ فکسنگ کا زیادہ شور اس وقت اٹھا جب 95-1994 میں پاکستانی ٹیم ایک بار پھر سلیم ملک کی کپتانی میں آسٹریلیا کا دورہ کرنے گئی۔ آسڑیلوی کھلاڑی آنجہانی شین وارن، مارک وا اور ٹم مے نے کپتان سلیم ملک پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے میچ فکسنگ کے عوض ان تین آسٹریلوی کھلاڑیوں کو رشوت کی پیش کش کی تھی۔ ان الزامات کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جس کا سربراہ جاوید برکی کو بنایا گیا مگر اس کمیٹی نے در گزر سے کام کیا اور میچ فکسنگ میں ملوث کرداروں کو بے نقاب کرنے میں ناکام رہی۔ کمیٹی کے سربراہ نے کمیٹی کی ناکامی کا یہ عذر پیش کیا کہ آسٹریلوی کھلاڑیوں نے اپنے بیان حلفی دستخط کے بغیر جمع کروائے تھے۔ اس کمیٹی پر تنقید کرتے ہوئے سابق کپتان راشد لطیف کا کہنا تھا کہ جاوید برکی کا عذر حقیقیت پر مبنی نہیں تھا کیوںکہ آسٹریلوی کھلاڑیوں کے حلف ناموں پر دستخط موجود تھے۔ یہاں سے ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کی بے بسی کہلو یا فکسنگ کے کرداروں کو سامنے لانے سے کوئی ان کی مجبوری آڑے آئی جس کا خمیازہ پاکستان کرکٹ آج تک مختلف وقت پر بھگتی آرہی ہے اور کب تک بھگتے گی. پھر اس طرح 1996 کے ورلڈ کپ میں انڈیا کے خلاف کوارٹر فائنل سے پہلے پاکستانی کپتان وسیم اکرم میچ سے اچانک فٹنس کے مسائل کو وجہ بنا کر ٹیم سے باہر ہو گئے۔ عامر سہیل کو ٹیم کا کپتان بنایا گیا۔ پاکستان یہ اہم ترین میچ ہار کر ورلڈ کپ سے ہی باہر ہو گیا جس کی وجہ سے ایک بار پھرمیچ فکسنگ کے بازگشت سنائی دی اور اس پر سنگین الزامات پاکستان کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں پر لگے۔ اس ہی دوران کپتان وسیم اکرم پر جوئے کے سنگین الزامات لگے اس میں ان کے رشتہ داروں کے نام بھی میڈیا میں سامنے آئے. کپتان عامر سہیل کا کہنا تھا کہ 1992 کے بعد پاکستان اس لیے کوئی ورلڈ کپ نہیں جیت سکا کیوںکہ ورلڈ کپ سے پہلے وسیم اکرم کو کپتان بنا دیا جاتا ہے۔ اسی میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق فاسٹ باؤلر سرفراز نواز نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ میچ فکس تھا۔ سرفراز نواز نے 1999 کے ورلڈ کپ میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کے مابین کھیلے جانے والے پول میچ کے بارے میں بھی الزام لگایا کہ یہ میچ بھی فکس تھا۔ تاہم عامر سہیل اور سرفراز نواز دونوں ہی اپنے ان الزامات کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے اور کرکٹ بورڈ نے بھی اس پر اپنی کوئی تحقیقاتی ٹیم کو کوئی ذمہ داری نہیں دی اس طرح اس پر بھی کرکٹ بورڈ نے مٹی ڈالدی. پاکستان کرکٹ ٹیم اور مسلسل الزام تراشیوں اور بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کی جس طرح میڈیا میں جگ ہنسائی کے بعد 1998 میں لاہور ہائیکورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس ملک قیوم کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا تھا کہ پاکستان کی کرکٹ میں ان کالی بھیڑوں کو سامنے لایا جا سکے جو میچ فکسنگ میں ملوث ہیں۔ جسٹس قیوم کمیشن نے میچ فکسنگ کے حساس معاملے کی چھان بین کے لیے کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں اور آفیشلز سمیت تقریباً 33 افراد کو گواہی کے لیے بلایا تھا۔ ان کے علاوہ گواہی کے لیے 4 سپورٹس جرنلسٹس کو بھی بلایا گیا۔ 13 ایسے افراد کو بھی کمیشن نے بلایا جن کا نام کسی نہ کسی طرح میچ فکسنگ کے ساتھ جڑا ہوا تھا یا ان کے نام اخبارات میں چھپے تھے۔ ان کے علاوہ تین آسٹریلوی کھلاڑیوں شین وارن، مارک وا اور ٹم مے سے بھی پوچھ گچھ کی گئی۔ کمیشن میں پیش ہونے والے سب سے پہلے فرد پاکستان کے سابق فاسٹ باؤلر سرفراز نواز تھے جنہوں نے کمیشن کے سامنے انکشاف کیا کہ پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ کا آغاز 80-1979 میں ہوا جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے آصف اقبال کی کپتانی میں انڈیا کا دورہ کیا تھا۔ آصف اقبال کے مطابق وہاں سے میچ فکسنگ شارجہ منتقل ہوئی جہاں پر وسیع پیمانے پر میچ فکسنگ ہونے لگی۔ ان کے خیال میں پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین کھیلا جانے والا 1987 کے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل بھی فکس تھا اور اس میں جاوید میانداد کے ساتھ دو اور کھلاڑی بھی ملوث تھے۔ سرفراز نواز نے الزام لگایا کہ 94-1993 میں سری لنکن ٹیم کے دورہ پاکستان کے دوران لاہور میں کھیلے گئے میچ میں سلیم ملک کو خاص طور پر لاہور بلا کر میچ کو فکس کیا گیا۔ ایک وقت پر 79 کے سکور پر پاکستان کا محض ایک کھلاڑی آؤٹ ہوا تھا اور پھر اچانک 149 رنز پر پوری ٹیم آل آؤٹ ہو گئی۔ ان کے مطابق سلیم ملک کو اس میچ کو فکس کرنے کے لیے 40 لاکھ روپے دیے گئے تھے۔ اس کمیشن کی انویسٹی گیشن میں دلچسپی اس وقت ہوئی جب کرکٹر راشد لطیف نے کمیشن کو ثبوت کے طور پر کچھ ریکارڈنگز کے ثبوت جن میں قومی ٹیم کے کچھ کھلاڑیوں اور بورڈ آفیشلز کی آپس میں گفتگو ریکارڈ تھی جو میچ فکسنگ میں ایک اہم ثبوت ثابت ہو سکتا تھا۔ کمیشن نے ریکارڈنگ کو درست مان لیا مگر کمیشن کے مطابق راشد لطیف نے جو ریکارڈنگ کمیشن کو جمع کروائی تھی اس میں دانستہ طور پر ترمیم کی گئی تھیں. جب ان ترامیم کے بارے میں راشد لطیف سے پوچھا گیا تو اس نے پہلے یہ عذر پیش کیا کہ انہوں نے اس لیے ریکارڈنگ میں ترمیم کی تھی کیونکہ اس میں گالیاں اور غیر اخلاقی گفتگو شامل تھیں جب کہ بعد میں انہوں نے کمیشن کو ایک اور عذر دیا کہ یہ ریکارڈنگ کرکٹر باسط علی کے کسی رشتہ دار کے گھر پڑی تھی اس لیے وہ ان ترامیم کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ کمیشن نے راشد لطیف کے عذر کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ریکارڈنگ میں ترمیم کی صرف وہ وجہ نہیں ہے جو راشد لطیف بتا رہے ہیں بلکہ راشد لطیف اپنے دوستوں سعید انور اور باسط علی کو بچا رہے ہیں جو سلیم ملک کے ساتھ ریکارڈنگ والی گفتگو میں شامل تھے مگر راشد لطیف نے سلیم ملک کی گفتگو کو رہنے دیا اور باقی کی ریکارڈنگ کو کاٹ دیا۔ جب کمیشن نے ان سے پوچھا کہ گفتگو میں کس 'دوست' کا ذکر ہو رہا تھا تو انہوں نے کہا کہ وہ دوست عامر سہیل تھے جبکہ بورڈ کی تحقیق کے مطابق وہ دوست کوئی اور نہیں بلکہ سعید انور تھے۔ راشد لطیف نے کمیشن کے روبرو پیش ہوئے اور کمیشن کو بتایا کہ کرائسٹ چرچ میں کھیلے جانے والے ایک میچ سے پہلے رات کو سلیم ملک ان کے روم میں آئے اور ان کو میچ فکسنگ کے لیے 10 لاکھ روپوں کی آفر کروائی۔ راشد لطیف کا کہنا تھا کہ یہ وہی میچ ہے جس کو موضوع بنا کرعطاء الرحمٰن نے وسیم اکرم پر میچ فکسنگ کے الزامات لگائے تھے اور عدالت میں ایک بیان حلفی بھی جمع کروایا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ 1994 میں کرائسٹ چرچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف ایک میچ ہارنے کے لیے ایک لاکھ روپے دینے کی پیش کش کی گئی تھی۔ جب عطاء الرحمٰن کمیشن کے روبرو آئے تو وہ عدالت میں وسیم اکرم کے خلاف جمع کروائے گئے بیان حلفی سے صاف مکر گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے عدالت میں جمع کروایا گیا بیان حلفی صداقت پہ مبنی نہیں تھا۔ جب کمیشن نے پوچھا کہ آپ نے جھوٹا بیان حلفی کیوں عدالت میں جمع کروایا تھا جس کے جواب میں عطاء الرحمٰن نے کہا کہ وہ بیان حلفی ان سے زور زبردستی دلوایا گیا تھا۔ بعد ازاں یہ بات سامنے آئی کہ عطاء الرحمٰن اصل میں وسیم اکرم کو بچا رہے تھے۔ ان کے علاوہ کمیشن کے سامنے کئی کھلاڑی اور آفیشلز پیش ہوئے جنہوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بھر مار کی۔ عاقب جاوید اور عامر سہیل نے وسیم اکرم اور سلیم ملک پر جوئے اور میچ فکسنگ کے سنگین الزامات لگائے۔ بعد ازاں عاقب جاوید کا کہنا تھا کہ وسیم اکرم کے میچ فکسنگ سے انکار پر اور کمیشن کو وسیم اکرم کی میچ فکسنگ کی سرگرمیوں کے بارے میں بتانے پر وسیم اکرم نے ان کا کرکٹ کیریئر وقت سے پہلے تباہ و برباد کر دیا حالانکہ ان کی عمر ابھی 25 سال سے بھی کم تھی اور وہ مزید تین چار سال کرکٹ کھیل سکتے تھے۔ اس کے علاوہ قومی کرکٹ ٹیم کے باقی کھلاڑیوں جاوید میاںداد، اعجاز احمد، وقار یونس، مشتاق احمد، ثقلین مشتاق اور انضمام الحق پر بھی کمیشن کے روبرو جوئے اور میچ فکسنگ کے سنگین الزامات لگائے گئے۔ کمیشن کی رپورٹ کے نتیجہ مطابق سابق کپتان سلیم ملک کو میچ فکسنگ میں ملوث پائے جانے پر ان پر کسی بھی طرح کی کرکٹ کھیلنے پر تاحیات پابندی عائد کر دی گئی تھی . اس کے ساتھ کمیٹی نے اپنی سفارشات میں کہا کہ سلیم ملک کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کی بھی چھان بین کی جائے۔ وسیم اکرم کو کمیشن نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے بے گناہ قرار دے دیا مگر ان کے اوپر مستقبل میں کرکٹ بورڈ کو تنبیح کی کہ وسیم اکرم کپتان بننے اور بورڈ میں کسی عہدے پر فائز ہونے کی پابندی لگا دی اور ساتھ میں یہ سفارش کی گئی کہ ان کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے۔ عطاء الرحمٰن کو جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے پر کرکٹ سے تاحیات کرکٹ میدان میں انٹرنیشنل و نیشنل لیول کے لیے نا اہل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ کمیشن نے مندرجہ بالا کھلاڑیوں سمیت دیگر کھلاڑیوں پہ جرمانے کی سفارش کی جن میں سلیم ملک 10 لاکھ، وسیم اکرم 3 لاکھ، مشتاق احمد 3 لاکھ، عطاء الرحمٰن 1 لاکھ، وقار یونس 1 لاکھ، انضمام الحق 1 لاکھ، اکرم رضا 1 لاکھ اورسعید انور جرمانے کی مد میں 1 لاکھ روپے ادا کریں گے۔ ملک قیوم کمیشن کی رپورٹ بھی پاکستان میں بننے والے باقی کمیشنوں کی طرح ذاتی پسند نا پسند اور پاکستانی سیاست کی نظر ہو گئی۔ ایک صحافی علیم عثمان کے مطابق ان کو جسٹس ملک قیوم ( مرحوم ) نے خود بتایا تھا کہ انہوں نے وسیم اکرم کو اس لیے بے گناہ قرار دیا تھا کہ ان کو وسیم اکرم کی باؤلنگ بہت پسند تھی اور راشد لطیف پر انہوں نے اس لیے جرمانہ نہیں کیا تھا کیوںکہ وہ ایک غریب آدمی ہیں اور سات بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں۔ اس کے بعد 2003 کے ورلڈ کپ کے بعد زیادہ تر سینیئر کھلاڑی ریٹائرڈ ہو گئے۔ قیوم کمیشن کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ کھلاڑی محتاط ہو گئے۔ 2003 سے لے کر 2010 تک میچ فکسنگ کے واقعات میں نسبتاً کمی آئی۔ مگر 2010 میں پاکستانی ٹیم کے کپتان سلمان بٹ، فاسٹ باؤلرز محمد آصف اور محمد عامر کے سپاٹ فکسنگ کے سکینڈلزنے ایک مرتبہ پھر پرانے زخموں کو تازہ کر دیا۔ ان تین کھلاڑیوں کی میچ فکسنگ نے کرکٹ کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ پوری دنیا میں پاکستانی کرکٹ کی ساکھ اور ملکی وقار کو شدید نقصان پہنچا۔ آئی سی سی نے ان تین کھلاڑیوں کے کرکٹ کھیلنے پر تا حیات پابندی عائد کر دی. مگر کچھ ہی عرصہ کے بعد پھر 2003 کے ورلڈ کپ کے بعد زیادہ تر سینیئر کھلاڑی تو ریٹائرڈ ہو گئے۔ قیوم کمیشن کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ کھلاڑی محتاط ہو گئے۔ 2003 سے لے کر 2010 تک میچ فکسنگ کے واقعات میں نسبتاً کمی تو ضرور آئی مگر 2010 میں پاکستانی ٹیم کے کپتان سلمان بٹ، فاسٹ باؤلرز محمد آصف اور محمد عامر کے سپاٹ فکسنگ کے سکینڈلز نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی کرکٹ اور مُلک کو دنیا بھر کے اخباروں کی شہہ سرخی کی زینت بنادیا . ان تین کھلاڑیوں کی میچ فکسنگ نے کرکٹ کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ پوری دنیا میں پاکستانی کرکٹ کی ساکھ اور ملکی وقار کو شدید نقصان پہنچا۔ آئی سی سی نے ان تین کھلاڑیوں کے کرکٹ کھیلنے پر تا حیات پابندی عائد کر دی تھی. اسی طرح 2017 میں پاکستان سپر لیگ کے دوسرے سیزن کے دوران اسلام آباد یونائیٹڈ کے دو کھلاڑی شرجیل خان اور خالد لطیف سپاٹ فکسنگ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ دونوں کھلاڑیوں پر بھاری جرمانے کے ساتھ ساتھ کرکٹ کھیلنے پر لمبی پابندیاں بھی لگائی گئیں۔ ان کے کرکٹر ناصر جمشید بھی میچ فکسنگ میں ملوث پائے گئے۔ ان کے بعد کرکٹر عمر اکمل نے کرکٹ میچ پر جوا کرانے والے ایک شخص سے ملاقات کا اعتراف کر لیا جس کی وجہ سے ان کے اوپر تین سال کی پابندی عائد کر دی گئی۔ میچ فکسنگ اور جوئے کی غیر قانونی سرگرمیوں نے پاکستانی کرکٹ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ان کارروائیوں میں ملوث پائے جانے پر قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے بین الااقوامی سطح پر پاکستان کی عزت اور ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ افسوس کا امر یہ ہے کہ پاکستان میں باقی جرائم کی طرح میچ فکسنگ کی برائی سے جان بوجھ کر چشم پوشی اختیار کی جارہی ہے ۔ اگر برائی کو شروع میں دبایا جاتا اور ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جاتی تو میچ فکسنگ کے واقعات اس نہج پر نہ جاتے۔ آج بھی پاکستان میں ہر دوسرے گلی محلے میں میچ پر جوا کرانے والے دکانیں کھول کر بیٹھے ہیں۔ ہر میچ سے پہلے بولیوں اور پیشین گوئیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس سے جہاں کرکٹ کی روح مسخ ہوتی ہے وہیں پر کرکٹ کے شائقین میں شدید مایوسی بھی پھیلتی ہے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کے مسلسل میچ فکسنگ میں ملوث پائے جانے کی وجہ سے اور پاکستان میں جوئے کے سر عام کاروبار کی وجہ سے لوگوں کا کرکٹ کے کھیل سے دل اٹھتا جا رہا ہے۔ آج کل لوگ یہ کہتے ہوئے نہیں پائے جاتے کہ کون سی ٹیم جیتے گی بلکہ اس پر زیادہ زور ہوتا ہے کہ کس ٹیم کا جوئے میں کیا ریٹ چل رہا ہے۔ حکومت اور پاکستانی کرکٹ پہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کرکٹ سے میچ فکسنگ کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ نچلی سطح پر جواریوں اور بکیوں کے خلاف کارروائی کر کے پاکستانی قوم کے محبوب اور پسندیدہ ترین کھیل کو میچ فکسنگ اور جوئے کی لعنت سے پاک کروایئں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم پر خاص کر ورلڈکپ و مختلف انٹرنیشنل میچ میں فکسنگ کے جو حالیہ و گزشتہ ورلڈکپ کے میچوں وغیرہ خاص کر انڈیا سے میچ ہارتے ہوئے لگے ہیں. ان پر کرکٹ بورڈ نے سوائے جسٹس قیوم کی رہورٹ پر کچھ عمل ہوا مگر دوسروں میچوں پر صرف مٹی پاء دی جس کی وجہ سے کچھ مہینہ خاموشی کے بعد پھر فکسنگ وغیرہ کے الزامات پاکستانی کھلاڑیوں و بورڈ انتیظامیہ پر لگ جاتے ہیں. اس میں کیا سچ اور کیا جھوٹ ہے اس پر ایک آزاد انکوائری کرائی جائے اور آئے دن فکسنگ کے الزامات کا سدباب کیا جانا چاہیے. اس میں جو بھی شامل ہے. اُس پر تاحیات پابندی لگائی جائے اور کرکٹ بورڈ میں چیرمین کو منتخب کرنے کا وزیراعظم کی صوابدید پر نہ چھوڑا جائے اس کے لیے تمام ڈسٹرکٹ لیول پر الیکشن کے زریعہ منتخب ہوکر آنے والے چیرمین ہی کرکٹ بورڈ کے صدر کو الیکشن کے زریعہ منتخب کریں جس سے ہماری کرکٹ آگے جاسکتی ہے.
|