انسانی معاشرہ اپنے وجود میں ایک قدرِ مشترک رکھتا ہے۔ وہ قدر انسانی زندگی کی بقاہ کا قدر ہے۔ معاشرے کی بنیادی وجود کا مقصد انسانی زندگی کا بقاہ تھا۔ زمین پر موجود عملِ قتل انسانی روکھنے کے لیے انسانوں نے شعوری و عقلی جنگ لڑی۔ جس سے معاشرہ ضامنِ وجود حیات ٹہرا۔ ہر اس چیز کو رد کرنے کی سغی ہوئی جو زندگی کی ضد تھی۔ تاکہ بنیادی قدر 'زندگی' کو محفوظ بنایا جاسکے۔ یہ لاحاصل بحث اپنی جگہ کہ اسی حیات کو دوام بخشنے کےلئے خود ہی انسانوں نے ہم نوع انسانوں کو موت کے جہنم میں جلایا۔ تاکہ زندگی کی بقاہ ہو۔ زندگی کی بقاہ کےلئے اپنے ہم نوع کو موت کے گھاٹ اتارنا کیوں ضروری سمجھا گیا؟ یہ تاریخ کے چہرے پر کالک ہے۔ کہ موت کو زندگی اور اختتام کو بقاہ سمجھا گیا۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ موت بقاہ کا بدل سمھجا گیا ہو۔ مگر موت بقاہ کا بدل کیسے ہوسکتی ہے؟ کسی انسان کی زندگی کا اختتام دوسرے انسان کی زندگی کا بقاہ کیوں سمجھا گیا ہوگا؟ شاید بھوک اور بقاہ کا معکوس رشتہ سمجھا گیا ہو۔ اسی سلسلے میں اپنی زندگی کی بقاہ کے لئے مخالف مگر ہم نوع انسان کو موت سے اشنا کیا گیا ہوگا۔ چلو اس سے آگے چلتے ہیں۔ انسانی معاشرہ اقدار کا اجماع ہے۔ زندگی ان اقدار کی ماں اور خود سب سے بڑی قدر ہے۔ یوں سمجھو کہ قدر زندگی ہے۔ مطلب یہ کہ اقدار بقائے انسانی زندگی کے ضامن ہے۔ تحریر تاریخ سے پہلے اور بعد میں جتنے بھی اقدار اپنائے گئے یا رد کئے گئے انکا جبلی محرک انسانی زندگی کی بقاہ تھی۔ ہاں! یہ ہوسکتا ہے کہ بعض دفع قدر کو اپنانے کا بقائے زندگی سے کوئی مخفی و جلی تعلق نہ ہو۔ جیسے کرکٹ میچ میں اپنائے گئے اصول۔ مگر اس شجرِ اصول کی پہلی بیج قدرِ زندگی تھی۔ اسی بیج نے امن، عدل، انسانی حقوق، مشترکہ قوانین، اقوامی میثاقیں، اور سرحداتی معاہدے جیسے شاخوں والی عظیم المثل درخت اگایا۔ یہی اقدار ہیں جس نے انسان کو معاشرے میں رہنا سیکھایا۔ معاشروں کو باہم ربط میں رکھا۔ ریاستوں کے بیچ متعین حدود و قیود، وہ اقدار ہے، جو بنیادی قدر انسانی زندگی کی بقاہ کا محرک ہے۔ اگر درست کہوں تو ریاست کی وجود خود ایک قدر ہے جو اس اساس پر وجود پزیر ہے کہ اس میں رہنے والے انسانوں کو محفوظ کر سکے۔ اس میں رہنے والوں کی جان و مال و عزت کی دفاع کرسکے اور وہ آزادی کے ساتھ رہے۔کوئی بھی انکا یہ حق نہ چین پائے۔ جبکہ آج کے سماجی و فلاحی ریاستوں کے اندر شہریوں کی ضرورتوں کا خیال رکھنا، انکی ترقی کے لئے اپنے وسائل بروئے کار لانا، شہری کی شخصی آزادی اور رائے کا دفاع کرنا بھی ان اقدار میں شامل ہے۔ اس کے ساتھ ہی شہریوں پر یہ زمداری عائد ہوتی ہے کہ وہ قانون کو راہنما مانے اور اسکے سامنے سر تسلیم خم کریں۔ یہ اقدار ریاست اور شہریوں کے بیچ کا تعلق بتاتا ہے۔ جتنی بھی ریاست اور ان کے شہریوں کے بیچ یہ اقدار مظبوطی کی ساتھ پالے جائنگے اتنی ہی ریاست اور شہریوں کا رشتہ مظبوط رہتا ہے۔ اور اگر ان اقدار کی پامالی ہوگی تو یہ رشتہ کمزور ہوتا جائگا۔ پاکستان میں ان اقدار کے متعلق بہت تشویش موجود ہے۔ ویسے تو پاکستان کو کئی محازوں پر مسائل کا سامنا ہے۔ اداروں پر اعتماد کی کمی ہے۔ بڑے عہدوں پر بیٹھے افراد کی اہلیت کے مسائل ہیں۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان ربط میں واضح فاصلہ ہے۔ سماجی ناہمواریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ سیاست میں بے چینی ہے۔ جمہوری عمل یعنی الیکشن وقت پر اور شفاف ہونے کے متعلق سوالات پہلے سے موجود ہے۔ ریاست کی معاشی سکت محدود ہے۔ جس سے فلاحی ریاست کے طور پر اپنی زمہ داریاں نبانا پاکستان کےلئے مشکل ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور ٹیکس محصولات کی نامنصفانہ طرزِ تقسیمِ اصول کی وجہ سے عام آدمی کے لئے سکون سے زندگی گزارنا مشکل ہے۔ جس کا اثر ملک سے بھاگنے والوں کی عداد شمار سے واضح ہوتا ہے۔ معاملے کی گہرائی اس بات سے سمجھو کہ اسلامی برادر ممالک پاکستانی بیکاریوں سے تنگ آچکے ہیں۔ اب بات شکایتوں سے بڑھ کر واپس بھیجنے پر آئی ہے۔ مگر ان سب سے بڑا مسئلہ چند بنیادی اقدار زندگی، مال اور عزت کی دفاع ہے۔ پاکستان میں سب سے بنیادی قدر زندگی محفوظ نہیں ہے۔ جو تمام اقدار کی ماں ہے اور خود ریاست کی وجود کی بنیادی وجہ ہے۔ ادھر دہشت گردی، ماورائے عدالت قتل اور بزورِ طاقت غائب آج بھی سنگین مسئلہ ہے۔ آج بھی انسان کی زندگی جیسی بنیادی قدر پر سوال ہے۔ لوگ غائب ہوجاتے ہیں اور ریاست بے خبر بن جاتی ہے۔ سب سے پہلے اس ریاست کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنانا ہوگی۔ اس ریاست میں رہنے والے انسانوں کے خون اور عزت سب پر حرام کرنا ہوگی۔ ریاست خود اپنے لئے بھی اور دوسری تنظیم و افراد کے لئے بھی یہ حرام کریں۔ تاکہ نہ ریاست خود اور نہ کوئی تنظیم یا شخص کسی کی زندگی و عزت کو پامال کرسکے۔ زندگی کی بقاہ کو یقینی بنانا ہوگا۔ فردِ واحد سے لیکر اجماع تک کی زندگی اور عزت کو ایک جیسے طور پر محفوظ بنانا ہوگا۔ ملک کو اس قابل بنانا ہوگا کہ کسی بھی قومیت، رنگ، اور مزیب کے لوگ ادھر رہ سکے۔ کسی کو عزت اور زندگی کے لئے فکرمند نہ ہونا پڑے۔ قدر 'زندگی' پاکستان میں رہنے والے تقریبا پچیس کروڑ اور دنیا بھر میں رہنے والے تقریبا آٹھ ارب انسانوں کا مشترکہ قدر ہے۔ اس پر سوال اٹھانا سنگین جرم و غفلت ہے۔ بنیادی اقدار جیسے زندگی، عزت، مال اور آزادی اظہار رائے کا تحفظ ملک میں موجود انتظامی اداروں، سیاسی تنظیموں، عدلیہ اور پچیس کروڑ عوام کی مشترکہ زمداری ہے۔ یہ اقدار انسانی زندگی اور معاشراتی ڈھانچوں کی حفاظت، ترقی، اور اصلاح کو یقینی بناتے ہیں۔
|