پاکستان جھنجھٹ کا شکار

پاکستان جھنجھٹ کا شکار ہے۔ ایک ایسی جھنجھٹ جس میں نشیب و فراز آتے ہیں مگر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ ختم کیسے ہونگے؟ ختم ہونے کے لئے سچائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر ادھر سچائی بھی جھنجھٹ میں ہے۔ عجیب و غریب جھنجھٹ میں۔ یہاں سچائی وہ ہے جو طاقت کے مراکز کو سننا پسند ہے۔ اب اگر پیمانہ سچائی یہ ہے تو اسکی قیمت بھی ادا کرنا پڑیگی۔
ایک مرتبہ پورے قوم نے اپنے خون سے قیمت ادا بھی کی ہے۔ ادائیگی بھی ایسی کہ خدا کسی قوم کو نہ دیکھائے۔ نالوں میں اپنا خون بہایا گیا۔ قاتل اور مقتول دونوں خود تھے۔ تاریخ کے محکمہ قضاء نے فیصلہ سنا کر بہت برا سبق پڑھایا۔ ادائیگی اپنے خون سے کرنی پڑی۔ جو پرچم اٹھانے تھے وہ گرائے گئے۔ جن سروں نے قوم کے سر کو اٹھانا تھا وہ جھک گئے۔ جھکائے گئے۔ جھکوا دئے گئے۔
جھنجھٹ بتانا بھول گیا۔ جھنجھٹ یہ ہے کہ جس نے حکم ماننا تھا وہ حکم دے رہا ہے۔ جس نے پوچھنا تھا وہ فیصلہ صادر فرما رہا ہے۔ جس نے جمہور کو سننا تھا اور اسکی اواز بننا تھا وہ خاموش کرانے والوں کو سن رہا ہے۔ جس نے عوام میں مقبول ہونا تھا وہ قبولیت کے چکر میں ہے۔ جس نے ووٹ کو عزت دلانا تھا وہ ووٹ پر ڈاکہ مارنے کے لئے تیار ہیں۔ جھنجھٹ یہ ہے کہ جمہور کی کوئی بات نہ سننا اور اس پر ہٹ دھرمی کی حد تک قائم رہنا حکمت عملی ہے۔
جھنجھٹ یہ ہے کہ ہماری سیاست دائروں کا شکار ہے۔ کل کا غدار آج کا محب الوطن ٹھہرا اور کل محب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ بانٹنے والا آج غدار قرار پایا ہے۔ جو کل قبول تھا وہ آج مجرم ہے۔ کل کا مجرم آج قبول ہے۔ آج کا مقبول مجرم ہے اور ناقابل قبول ہے۔ جھنجھٹ یہ ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کہ تین بار وزیر اعظم بننے والا نواز شریف آج چوتھی بار وزیر اعظم بننے کےلئے بھی عوام سے زیادہ غیر جمہوری طاقتوں پر انخصار کر رہا ہے۔ جھنجھٹ یہ ہے کہ ایک پارٹی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے تو دوسری پارٹی کے لئے راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔
کل جھنجھٹ یہ تھا کہ اس وقت تک ناکام تجربے اپنائے گئے جب تک تاریخ کے محکمہ قضاء نے اپنا فیصلہ صادر نہ کیا تھا۔ وہ جھنجھٹ حادثہ پہ تمام ہوا تھا۔ تاریخ نے ہماری سرزنش کی۔ ایک ایسی سرزنش جو ہلاکت کے سوا کچھ نہ تھا۔ ہلاکت ہمارا مقدر ٹھہرا۔ ایک بہت برا سبق پڑھایا گیا۔
جھنجھٹ یہ ہے کہ سبق پڑھا تو گیا مگر سیکھا نہ گیا۔ جمہور جس بات پر کل رو رہا تھا وہ آج بھی اسی بات پر رو رہا ہے۔ جمہور نہ کل سنا گیا تھا اور نہ آج سنا جارہا ہے۔ کل کا کھیل آج بھی جاری ہے۔ جھنجھٹ یہ ہے کہ ان تجربات نے قومی معیشت کا بٹھہ بٹھا دیا ہے۔ مزدور و محنت کش کو کھانے کے لالے پڑگئے ہیں۔ بات در در پر بھوک کی صداوں تک پہنچی ہے۔ بھکاریوں کی تعداد میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ بڑا جھنجھٹ یہ ہے کہ نئی نسل میں محرومی کا احساس بڑھ رہا ہے۔ اس کا اور ریاست کا تعلق کمزورپڑھ رہا ہے۔ وہ اپنی رائے کےلئے احساس مند ہے مگر اسکی رائے سنی نہیں جا رہی۔ نئے دور کے نوجوان کےلئے ریاست میں موجود نافذ کردہ سیاسی و معاشی ڈھانچے سے ربط کاری میں مشکل پیش آرہی ہے۔
جھنجھٹی سوال یہ ہے کہ ان تجرباتی کھیلوں کا اختتام کب ہوگا؟ یہ دائروں کی سیاست کب ختم ہوگی؟ کب سیاست کے مرکز جمہور ٹھہرائے جائنگے؟ یہ راستہ ہمواریوں کا سلسلہ کب ختم ہوگا؟ کب مقبول اور قبول برابر و ہم آہنگ ہوجائنگے؟ کس بات کا انتظار کیا جارہا ہے۔ کیا اس کھیل کے اختتام کے لئے کسی نئے حادثے کا انتظار تو نہیں کیا جا رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ بڑی مہنگا سودا ہے۔
اب بھی وقت باقی ہے۔ مہلت موجود ہے۔ ہوش میں آنا چاہیے۔ یہ جھنجھٹیں ختم کرنی چاہیئے۔ فتنہ پرور سیاسی تجربات چھوڑنے چاہیئے۔ ہلاکت انگیز کسرتوں سے دوری اختیار کی جانی چاہیئے۔ ہمیں یہ حلیہ بھگاڑنے والی حرکات پوری طاقت کے ساتھ رد کرنی ہونگی۔ ایسا سودا نہیں کرنا چاہیے جس کا کفارہ کئی نسلوں کو دینا پڑیں۔
اب بھی چاہے تو حالات کو اپنے انداز میں اور اپنے حساب سے موڑ سکتے ہیں۔ درستگی کی گنجائش موجود ہے۔ اداروں کی پرعزت و قابل قدر قانونی جگہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی حالات جمہور اور جمہوریت کےلئے سازگار ہوسکتے ہیں۔ معیشت کی بگڑی ہوئی شکل کی تعمیر کی جا سکتی ہے۔ یہ احساس محرومیاں ختم کی جاسکتی ہیں۔ اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ نیک ارادے اور کمربستہ ہونے کا۔
اگر اب بھی غلطیوں سے سبق نہیں لیا گیا اور جھنجھٹوں کا سلسلہ جاری رہا تو بہت قیمت چکانا پڑیگی۔ تاریخ کی محکمہ قضاء کا فیصلہ صادر ہوا تو قوموں کی صف سے مٹ سکتے ہیں۔

Sadiq Amin
About the Author: Sadiq Amin Read More Articles by Sadiq Amin: 12 Articles with 5759 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.