پاکستان اور انڈیا نے 1947 میں ایک ساتھ ہی اپنی آزادی کے سفر کا آغاز کیا تھا . دونوں نوازائیدہ مُلک اُس وقت کے اعتبار سے تقریباً ہر میدان میں ایک جیسے ہی تھے بلکہ آزادی کے شروعات میں پاکستانی معیشت انڈیا کی نسبت زیادہ تیزی سے ترقی کا سفر طے کر رہی تھی۔ اکثر بین الاقومی میڈیا اور حلقوں میں یہ موضوع زیر بحث رہتا تھا کہ مستقبل قریب میں کون سا شہر زیادہ جدید ہوگا؟ کراچی ، لندن یا نیویارک اُس وقت انڈیا اور دوسرے مُلکوں کے شہروں کا کوئی نام بھی ان شہروں کے علاوہ کسی کی زبان پر نہیں آیا تھا. پھر ایسے کیا صورتحال ہمارے مُلک میں پیدا ہوئی کہ کے آج حالات اس مُلک کے کیا سے کیا ہوگئے ہیں ہر ادارہ اپنے ایمرجنسی کے وارڈ میں ہی نظر آتا ہے. پاکستان کی عوام اور میڈیا جو ہر وقت انڈیا سے ہر میدان میں مقابلے کی جستجو میں لگا رہتا ہے آج انڈیا چاند پر پہنچ گیا ، اور اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے تیزی سے آگے کی طرف سفر طے کررہا ہے. اور پاکستانی پاسپورٹ ہماری مہربانی اور حکمرانوں کی قدردانی سے چوتھا کمزور ترین پاسپورٹ قرار دیا گیا ہے۔ صرف افغانستان، عراق اور شام کے پاسپورٹ پاکستان کی نسبت کمزور ہیں۔ ’ان کے سرکاری افسران اور وزرا معمولی گاڑیاں چلاتے ہیں جبکہ پاکستان میں ڈپٹی کمشنر کو دو کروڑ کی گاڑی دی جاتی ہے. ہماری آمدن 100 روپیہ اور خرچہ 200 روپیہ ہے۔ جب انڈیا میں معاشی بدحالی کی صورتحال کا شکار ہوا تو اس نے اپنے اخراجات آمدنی کےمطابق کم کر دیے تھے. جبکہ ہمارے ملک پاکستان میں اشرافیہ کو دی جانے والی سبسڈی ہی تقریباً 17 ارب ڈالرز بنتی ہے۔ اس وقت انڈیا نے حالیہ دنوں میں امریکہ اور یورپ سمیت خلیجی ممالک کے ساتھ بھی معاہدے کیے ہیں. اور حال ہی میں انڈیا نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت دونوں ملکوں میں امریکی ڈالر کی بجائے انڈین روپے میں تجارت ہو سکے گی۔ ہمارے یہ خلیجی اسلامی ملک نے پاکستان کو دو تین ارب ڈالر کے لیے ان کے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے. اس وقت انڈیا اور پاکستان کی معیشت کا اب تک کوئی مقابلہ نہیں یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے امریکہ اور برطانیہ کی معیشت کا پاکستان سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ نہ ہی عوام اور نہ ہی حکمران اپنے اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں، ہر ہاکستانی حکمرانی ادوار میں معاشی پالیسیاں مستقل جاری و ساری نہیں رہتی ، آئے دن ہمارے ملک میں سیاسی استحکام ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے جبکہ انڈیا کو ایسے کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہے۔ اگر پاکستانی پاکستانی پالیسی میکر چاہیں تو پاکستان اس وقت آئی ٹی سیکٹر میں انڈیا سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کر سکتا ہے۔ 2019 سے 2022 تک پاکستان نے آئی ٹی سیکٹر میں % 176 سے بھی زیادہ گروتھ دکھائی ہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران پاکستان میں کس قدر معاشی بحران کے باوجود آئی ٹی ایکسپورٹ اڑھائی ارب ڈالرز سے زیادہ ہیں لیکن انڈیا کی نسبت یہ کم ہیں۔ انڈیا 200 ارب ڈالرز کی آئی ٹی ایکسپورٹ کرتا ہے۔ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو انڈیا کے مقابلے میں آنے کے لیے پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹس تقریباً 33 ارب ڈالرز ہونی چاہییں، جو مشکل نہیں ہیں۔ اس وقت پاکستان کی تقریباً 12 کروڑ کی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر انہیں آئی ٹی کے شعبے میں معیاری اور عالمی سطح کی ٹریننگ دی جائے تو پاکستان آئی ٹی سیکٹر میں انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فری لانسرز اور سافٹ ویئر ایکسپورٹرز کو اپنے کمائے ہوئے ڈالرز آسانی سے پاکستان لانے اور لے جانے کی اجازت دی جائے۔ پاکستانی اسٹیٹ بینک کے مطابق تقریباً دو ارب 60 کروڑ ڈالرز آئی ٹی ایکسپورٹس سے حاصل ہوتے ہیں، جبکہ اصل آئی ٹی ایکسپورٹس پانچ ارب ڈالرز ہیں۔ آدھے سے زیادہ ڈالرز سافٹ وئیر ہاؤسز اور فری لانسرز بیرون ملک ہی رکھ لیتے ہیں کیونکہ انہیں انٹرنیشنل ادائیگیاں کرنا ہوتی ہیں۔ اگر وہ ڈالرز پاکستان لے آئیں تو بیرونی ادائیگیوں کے ڈالرز باہر بھیجنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان نے بھی انڈیا کی طرز پر ون ونڈو سہولت متعارف کروائی ہے۔ اگر آنے والی حکومتوں میں بھی پالیسیوں کا تسلسل یونہی چلتا رہا تو امید ہے کہ چند سالوں میں پاکستان انڈیا سے بہتر پرفارم کر سکے گا۔ چند سال قبل پاکستان ٹیکسٹائل، چمڑے اور آلات جراحی کی ایکسپورٹ میں انڈیا کے علاوہ یورپ کے کئی ممالک سے بھی بہت آگے تھا لیکن آج انڈیا کا مقابلہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ انڈیا کے مقابلے میں آنے کے لیے پاکستانی سالانہ ایکسپورٹ تقریباً 90 ارب ڈالر ہونی چاہیے۔ انڈیا نے آخری مرتبہ 1991 میں آئی ایم ایف سے قرض لیا تھا۔ وہ بھی ایک سٹینڈ بائے ارینجمنٹ تھا، جو 1993 میں ختم ہوا تھا۔ اس کے بعد سے آج تک اس نے آئی ایم ایف سے مدد نہیں مانگی جبکہ پاکستان مارچ 2024 میں اس پروگرام کے خاتمے کے بعد دوبارہ آئی ایم ایف پروگرام میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ جبکہ پاکستان کے حکمرانوں کو دیکھنا چاہیے کہ انڈیا کی ترقی کا وقت اس وقت سے شروع ہوا جب وہ آئی ایم ایف پروگرام سے نکلا اور اس مقام تک آتے ہوئے اسے تقریباً 30 سال لگے ہیں۔ اگر پاکستان اگلے پانچ سال بعد آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے اور انڈیا کی رفتار سے معاشی ترقی کے سفر کا آغاز کرتا ہے تو پاکستان کو انڈیا کے برابر آنے کے لیے کم از کم 40 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ہم اس قدر پیچھے رہ گئے ہیں کہ شاید دوڑ میں سے ہی نکل گئے ہیں۔ اگر پاکستان کچھ کرنا چاہتا ہے تو وسطی ایشیائی ممالک، ایران اور چین سے مقامی کرنسی میں تجارت کو ممکن بنائیں۔ امریکہ اور یورپ کی مارکیٹ انڈیا کے پاس ہے۔ وہاں مقابلہ کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ اس وقت انڈیا میں بھی کرنسی ایکسچینج ایک بڑا مسئلہ ہے۔ وہاں بھی ہنڈی حوالہ اور گرے مارکیٹ موجود ہے لیکن ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے کنٹرول میں نہیں ہیں جبکہ حکمرانوں نے پاکستان کی حالت یہ کر دی ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے بغیر ڈیفالٹ کر جائیں گے۔ انڈین روپیہ انٹرنیشنل کرنسی بننے کی طرف تیزی سے سفر کی طرف گامزن ہے۔ انڈیا نے حال ہی میں متحدہ عرب امارت سے ڈالر کی بجائے انڈین روپے میں تجارت کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ قطر اور دبئی میں بھی ڈالرز کی بجائے انڈین کرنسی میں بھی خرید و فروخت ہوسکتی ہے، لیکن ہمارے پاکستان کی کرنسی کو افغانستان میں بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔آبادی کے تناسب سے اگر حساب لگایا جائے تو پاکستان کو انڈیا کے مقابلے میں آنے کے لیے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر آٹھ ارب سے بڑھا کر تقریباً 95 ارب ڈالرز تک لانا ہوں گے جو فی الحال ایک خواب لگتا ہے۔ گو کہ پاکستان کی جغرافیائی صورت حال انڈیا سے بہت بہتر ہے۔ سوال یہ ہے کہ انڈیا کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ مُلک میں سیاسی استحکام ، معاشی پالیسیوں میں تسلسل ، اہل لوگوں کو فیصلوں کا اختیار اور بین الاقومی سطح پر بہترین لابنگ ہے.
|