اسلامی ممالک میں برادر ملک ترکی کو نہایت اہمیت حاصل ہے عالمی سیاست میں اس کا کردار نمایاں ہے۔ بین الاقوامی سیاست میں نمایاں اور اہم کردار ادا کرنے والے عناصر میں عسکری اور معاشی قوت کا حصول، ابلاغیت اور عالمی رائےعامہ کی تشکیل کی راہ ہموار کرنے کی صلاحیت شامل ہے۔ عسکری صلاحیت طاقت کا سخت پہلو جبکہ تہذیب، ثقافت اور خارجہ پالیسی طاقت کا نرم حصہ ہے۔ دنیا بھر میں ابھرنے والی طاقتیں عالمی سطح پر اپنے اثر و نفوذ کو پھیلانے والے کثیر الجہتی عوامل پر عمل پیرا ہیں۔ یہ ممالک بین الاقوامی سیاست اور فیصلہ سازی میں بہتر کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں۔ سیاسی اور عسکری طاقت کے کھیل میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے معاشی قوت و استحکام ،حصول بے حد ضروری ہے اس لیے دنیا میں تمام ابھرتی ہوئی طاقتیں مضبوط معیشت کی حامل ہیں لیکن محض معیشت مضبوط ہو اور عسکری اور سیاسی قوت نہ ہو تو اس ملک کا عالمی سیاست میں کردار محدود ہی رہتا ہے۔ ترکی گزشتہ کئی دہائیوں سے ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے جو طیب اردگان کی وژنری، ایماندار، متحرک قیادت میں عسکری اور سیاسی طاقت کے حصول اور عالمی کردار کی ادائیگی میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ ترکی اپنی آبادی کے حجم، ابھرتی ہوئی معیشت، نمایاں عسکری صلاحیت، ہمہ جہت سفارتی سرگرمیوں کی بدولت علاقائی طاقت سے آگے بڑھ کر عالمی طاقت سے آگے بڑھ کر عالمی طاقت کے حصول کے لیے نمایاں پیش رفت کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ طیب اردگان کی وژنری، دور اندیش اور دیانت دار قیادت نے ترکی کی قوم میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ اردگان نے ترکی کو اپنی تاریخ، مذہب اور ثقافت اور اسلامی روایات سے جوڑ کر اسے عالم اسلام کا ایک اہم قابل اعتماد ملک اور امیدوں کا مرکز بنا دیا ہے۔ ترکی مغربی سامراجی ممالک کی بھرپور مخالفت کے باوجود عالمی سیاسی منظرنامے میں اہم ملک کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ترکی علاقائی طاقت اور بہتر عالمی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ملک ہے۔ اسے خطے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنے والا ملک سمجھا جاتا ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ کے دوران رجب طیب اردگان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی ذمہ داریوں کو نبھانے کا کردار ادا کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگٹریز نے صدر طیب اردگان سے روس جانے سے قبل اہم ملاقات کی ترکی کے عالمی سطح پر ابھرتے ہوئے کردار کی وضاحت ہمیں ابن خلدون کے اس قول کے ذریعے ہوتی ہے جس میں اس نے کہا تھا "ماضی مستقبل سے اس طرح مشابہ ہے جس طرح پانی کے قطرے ایک دوسرے سے مشابہ ہیں" گویا ترکی کے کردار کی جھلک اس کے ماضی میں سلطنت عثمانیہ کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتی ہے۔ گزشتہ ایک عشرے سے ترکی یورپ میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت کی حیثیت حاصل کر رہا ہے۔ اس کی حیثیت دنیا کے انتہائی مؤثر مسلم ممالک میں نمایاں ہے۔ جب پورے یورپ کی معاشی نمو متاثر تھی ترکی اس وقت بھی نمایاں ترقی کرتا رہا۔ ترکی مشرق وسطیٰ میں یورپی مالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ سے زیادہ مؤثر ہے۔ ترکی کا سفارتی نیٹ ورک نہایت وسیع اور مؤثر ہے۔ ترکی کی وزارت خارجہ نہایت مستعد اور قابل افراد پر مشتمل ہے جو دنیا بھر میں متحرک ہو کر ترکی کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ 2002ء میں ترکی کے دنیا بھر میں 163 سفارت خانے اور قونصلیٹ تھے جو 2019ء میں بڑھ کر 236 اور 2021ء میں 246 ہو گئے اور اسے دنیا کے پانچویں بڑے سفارتی نیٹ ورک کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ لوری انسٹیٹیوٹ آف ڈپلومیسی ترکی کے سفارتی نیٹ ورک کو دنیا کا آٹھواں مضبوط ترین نیٹ ورک قرار دیتا ہے جبکہ اخراجات کے اعتبار سے یہ دنیا کا چوتھا بڑا سفارتی نیٹ ورک ہے۔ ترکی کی جغرافیائی حدود نہایت اہمیت کی حامل ہے اور یہ اناطولیہ جزیرہ نما میں واقع ہے جبکہ ایک چھوٹا سا حصہ جنوب مشرقی یورپ میں بحر اسود کے قریب ہے۔ اس کے شمال میں بحر اسود، شمال مشرق میں جارجیا، مشرق میں آرمینیا، آذربائیجان اور ایران، جنوب مشرق میں عراق، جنوب میں بحیرہ روم واقع ہے۔ ترکی او ای سی ڈی اورG20 ممالک کا بانی رکن ہے اور دنیا کی 19ویں نامنل بڑی معیشت ہے جبکہ پرچیزنگ پاور پیریٹی (PPP) کے لحاظ سے دنیا کی 11ویں بڑی معیشت ہے۔ ترکی اقوام متحدہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا رکن ہے اس کے علاوہ او ایس سی ای(OSCE) او آئی سی(OIC) بی ایس ای سی(BSEC)، ای سی او(ECO) نکٹا (NIKTA) اور نیٹو(NATO) کا بھی رکن ہے۔ ترکی کا ثقافتی ورثہ نہایت عظیم اور اہم ہے۔ ترکی امریکہ کے بعد نیٹو کی دوسری بڑی عسکری قوت ہے اور اس کی افواج کی تعداد 8 لاکھ 90 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ ترکی ایشیا اور یورپ کا حسین سنگم ہے۔ ایشیائی ترکی جو کل ترکی کے رقبے کا 97 فیصد ہے باسفورس کے ذریعے یورپ سے جدا ہوتا ہے۔ ترکی کا کل رقبہ 7 لاکھ 83 ہزار 5 سو 62 مربع کلومیٹر ہے جس میں سے 7 لاکھ 55 ہزار 6 سو 88 مربع کلومیٹر ایشیا میں جبکہ 23 ہزار 7 سو 64 مربع کلومیٹر یورپ میں ہے۔ 2023ء میں اس کی فی کس آمدنی 41 ہزار 412 ارب ڈالر ہے۔عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق 1993ء میں ترکی کی متوسط آمدنی والی آبادی کا تناسب 18 فیصد تھا جو 2010ء میں بڑھ کر 41 فیصد ہو گیا۔ مارچ 2023ء میں اس کے زر مبادلہ کے ذخائر 62 ارب 60 کروڑ ڈالر تھے۔ اس نے 2022ء میں 13 ارب 22 کروڑ ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری وصول کی۔ 2022ء میں اس کی آٹو موبائل انڈسٹری نے 13 لاکھ 52 ہزار 6 سو 48 گاڑیاں تیار کیں۔ اس طرح ترکی کو دنیا کا 13واں سب سے بڑا گاڑیاں بنانے والے ملک کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کی کمپنیاں ٹیما(TEMA) اوٹ پکار (OTPKAR) اور ڈی ایم ایس(DMS) کا شمار دنیا کی بڑی کاریں، بسیں اور ٹرک بنانے والی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ ٹوگ (Togg) ترکی کی پہلی برقی گاڑیاں بنانے والی کمپنی ہے۔ ترکی کی کمپنیاں بیکو(BEKO) اور ویسٹل (VESTAL) کنزیومر الیکٹرونکس کی بڑی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ 2023ء میں ترکی دو نئی کمپنیوں گیٹر (GETIR) اور ٹرینڈوئل کی مارکیٹ قدر 10 ارب ڈالر ہے۔ ترکی سیاحت کے اعتبار سے دنیا کے 10 بڑے ملکوں میں شامل ہے۔ جرمنی اور روس سے سیاحت کے غرض سے آنے والے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ 2019ء میں ترکی سیاحوں کی آمد کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک تھا اور صرف ایک سال میں ترکی میں آنے والے سیاحوں کی تعداد 5 کروڑ 12 لاکھ تھی۔ یونیسکو نے ترکی کے 19 مقامات کو بین الاقوامی ورثے کا درجہ دیا ہے۔ ترکی میں 519 بلیو فلیگ بیچز(BFB) ہیں یعنی عالمی معیار کے ساحل جہاں ہر سال لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ استنبول سیاحوں کی آمد کے اعتبار سے دنیا کا دسواں بڑا شہر ہے جہاں 2021ء میں ایک کروڑ 34 لاکھ سے زائد سیاحوں کی آمد ہوئی جبکہ اناطولیا دوسرا بڑا شہر ہے جہاں 2021ء میں 90 لاکھ سیاحوں کی آمد ہوئی۔ ترکی میں دس سے زائد ایئرپورٹس ہیں جن میں 22 بین الاقوامی ایئرپورٹس شامل ہیں۔ استنبول ایئرپورٹ کی منصوبہ بندی اس نہج پر کی گئی ہے کہ اسے دنیا کے سب سے بڑے ایئرپورٹ کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے۔ جہاں سالانہ 15 کروڑ مسافروں کے آنے اور جانے کی سہولت حاصل ہے۔ ترکی کی ایئر لائن یورپ، ایشیا، افریقہ اور امریکہ کے 315 مقامات تک اپنی پروازوں کا اہتمام کرتی ہے اس لحاظ سے ترکی کو دنیا میں ایک منفرد مقام حاصل ہے 2021ء میں ترکی میں موٹروے کی وسعت 3523 کلومیٹر تھی اس سال کے آخر تک اس کی وسعت 4773 کلومیٹر اور 2035ء تک 9312 کلومیٹر تک ہونے کی توقع ہے۔ استنبول میٹرو ملک کا سب سے بڑا میٹرو نیٹ ورک ہے جس کی سالانہ رائڈز 49 کروڑ 50 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ترکی نے عسکری ٹیکنالوجی میں قابل ذکر سرمایہ کاری کی ہے اور خلائی صنعت کو بھی نمایاں ترقی دی ہے۔ ایزسیان (ASEISAN) ہیولسان (HAVELSAN)، روککیٹان (ROKETAN) اور ایم کے ای (MKE) ترکی کی خلائی صنعت کی نمایاں کمپنیاں ہیں۔ ترکی ڈرون ٹیکنالوجی میں دنیا کے لیڈر کی حیثیت رکھتا ہے۔ بے ریکٹر(Bey Rector) ٹی پی بڑی کمپنی ہے۔ پرائیویٹ ڈرونی ڈیفنس کمپنی بیکر تیار کرتی ہے اور اسے دنیا بھر کے درجنوں ممالک میں برآمد کیا جاتا ہے۔ ترکی کے ڈرونز نے دنیا کی متعدد جنگوں میں بالخصوص آذربائجان اور آرمینیا کی جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ترکی نے ایرو اسپیس یعنی خلائی ٹیکنالوجی میں بھی نمایاں پیش رفت کی ہے۔ ترکی نے 2013ء میں ترکی خلائی نظام یو ایف ایس (UFS) کو متعارف کرایا 2027ء تک ترکی خلاء میں پیش رفت کرنے والے ممالک میں نمایاں حیثیت حاصل کر لے گا۔ ترکی کے ایک مایہ ناز فرزند پروفیسر سانکر جو شمالی کیرولینا امریکہ میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں انہیں 2015 میں کیمسٹری کا نوبل انعام دیا گیا جنہوں نے ان خلیوں پر تحقیق کی جو تباہ شدہ ڈی این اے کی مرمت کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ عالمی انوویشن انڈیکس میں ترکی کا 2021ء میں 41واں درجہ تھا۔ 2022ء میں ترکی میں 209 جامعات تھیں اور حالیہ برسوں میں ترکی کو عالمی سطح پر تعلیم و تحقیق میں نمایاں کامیابیاں ملی ہیں اور ترکی بین الاقوامی طلباء و طالبات کے لیے نہایت پرکشش مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جنوری 2021ء میں ترکی نے اسکالرشپس کے لیے جو اشتہارات دیئے اسے دنیا بھر میں بھرپور پذیرائی ملی اور دنیا بھر کے 178 ممالک سے ایک لاکھ 65 ہزار درخواستیں وصول ہوئیں۔ ترکی کے متعلق اہم مالک معلومات رقبہ : 7 لاکھ 83 ہزار 5 سو 62 مربع کلو میٹر زمین: 98 فیصد پانی: 2 فیصد ساحلی علاقہ: 7 ہزار 200 کلومیٹر بین الاقوامی سرحد: 2 ہزار 6 سو 48 کلومیٹر آبادی: 8 کروڑ 53 لاکھ جی ڈی پی (2022) (نامنل): ایک ہزار 29 ارب ڈالر جی ڈی پی (2022) (پی پی پی ): 3 ہزار 5 سو 73 ارب ڈالر فی کس آمدنی (2023) (نامنل): 11 ہزار 9 سو 32 ڈالر فی کس آمدنی (2023) (پی پی پی ): 41 ہزار 412 ڈالر ایچ ڈی آئی: 48 ٹیلی فون: ایک کروڑ 65 لاکھ موبائل فون : 8 کروڑ 22 لاکھ برآمدات (2022): 254 ارب ڈالر درآمدات (2022): 363 ارب ڈالر
|