غیر ملکی پروفیشنلز کوچز پاکستان کرکٹ کے لیے کیوں ضروری ہے

اس وقت پاکستان کے کسی بھی کوچز کی پروفیشنل کوچنگ کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے. ان میں نہ پہلے تھی اور نہ ہی وہ انٹرنیشنل معیار کی کوچنگ سیکھنا چاہتے ہیں . گنتی کے کچھ کوچز نے انٹرنیشنل کوچز کے 3, 6 ماہ کے کورس کیے ہوئے ہیں مگر کرکٹ جیسے کھیل کے پورے سیٹ اپ میں اب بھی پروفیشنلزم ازم نہ ہونے کے برابر ہے
آخر اس کی کیا وجہ بنی ہے پاکستان کرکٹ کے کھیل میں بہترین بیسٹمین و بالرز و فیلڈرز تو پیدا کیے ہیں مگر کرکٹ کھیل کو بہترین منتظم دینے میں آج تک کامیاب نہ ہوسکا ہے جو عام تاثر ہمارے یہاں یہ ہی پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے کھلاڑی مُلکی کوچ کے ساتھ پیشہ ورانہ انداز میں کام نہیں کرسکتے، اور نہ سیکھنا چاہتے ہیں اور مُلکی کوچ کی وجہ سے ٹیم میں گروپ بندی پسند و ناپسند کی وبا پھیل جاتی ہے. اور یہ ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے. اس کی وجہ کہلو یا ہمارے سماج میں یہ ایک ایسی بُرائی سرائیت کرگئی ہے جیسے ہی کوئی مُلکی بھائی اپنا باس بن گیا تو ایک گروہ اس کی خوشامدگی و چاپلوسی پر لگ جائے گا. ( جس طرح محمد یوسف اور ثقلین کے دوران کوچنگ میں کس طرح پاکستان کرکٹ ٹیم میں پسند اور نہ پسند کا معیار کہاں پہنچ گیا تھا ) اس ہی طرح دوسرا گروہ جسے چاپلوسی قبول نہیں وہ اس کی مخالفت اور ٹانگ کھینچنے پر لگ جائے گا۔ اکثر پاکستانی کھیل چاہے وہ کرکٹ ، ہاکی ، فٹ بال وغیرہ ہوں بیشتر کوچ کی وجہ سے ٹیم میں گروپ بندی ہوجاتی ہے اس سے عوام ازخود اندازہ لگالیتی ہے کہ تمام پاکستانی کوچ پیشے کے لحاظ سے ٹیم کی انتظامیہ کی ذمہ داری کے لیے اہل نہیں ہیں . اس کی وجہ سے انہوں نے ٹیم کی کوچنگ کی تربیت میں وہ اپنا کردار ادا نہیں کیا جو اُنہیں کرنا چاہیے تھا افسوس کی بات کہ سابق کوچز جو اپنے وقت کے مایہ ناز کھلاڑی تھے یا سمجھے جاتے ہیں انہیں ایسی کوچنگ کی تربیت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اور یہی سب سے اہم ترین وجہ ہے کہ پاکستانی کوچ ٹیم پاکستان کی کامیابی سے کوچنگ نہیں کرسکتا۔
پاکستان میں عام تاثر یہی ہے کہ ٹیم کا کوچ بلے بازوں کو بیٹنگ سکھاتا ہے اور باؤلرز کوگیند بازی . اس لیے جاویدمیانداد، وقار یونس اور وسیم اکرم وغیرہ جیسے سابق کھلاڑی ہماری ٹیم کی بہترین انداز میں کوچنگ کرسکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ نہیں ہے کہ ایک کھلاڑی میں اگر خداداد صلاحیت ہے تو اسے بلے بازی یا گیندبازی سکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی، اور اگر اس میں صلاحیت نہیں ہے تو دنیا کا کوئی کوچ اسے بلے بازی یا گیند بازی نہیں سکھا سکتا۔
کوچ کو کھیلوں کا استاد بھی کہہ سکتے ہیں جو اپنے شاگردوں کو بلے بازی ، گیندبازی وغیرہ کےتکنیکی گُر سکھاتا ہے اور خامیوں کو دور کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔
کھلاڑیوں میں معمولی تکنیکی خامیاں ہوتی ہیں، جو اصل میں تکنیک سے زیادہ ذہنی تربیت میں ہوتی ہیں، وہ ہیڈ کوچ اپنی کوچنگ ٹیم کے ساتھ مل کر دور کرنے میں مدد کرتا ہے اور پھر ہیڈ کوچ اس کھلاڑی کو پورا موقع اور مدد دیتا ہے کہ وہ اپنی خامی کو ختم کرے۔ لیکن پھر بھی اگر اس میں ناکامی ہوتی ہے تو اس کھلاڑی کو بھی ٹیم سے باہر کردیا جاتا ہے اوراس کی جگہ دوسرے کھلاڑی کو موقع دیا جاتا ہے ( مگر ہمارے ملک میں ایسا نہیں ) ایک ٹیم کے کوچ کی ذمہ داریوں میں جو کام شامل ہوتے ہیں ان میں اپنے اور نائب کوچ کے ساتھ مل کر بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کا انتخاب ہے پھر جب کھلاڑی منتخب ہوجاتے ہیں تواس کے بعد اپنی کوچنگ ٹیم کے ساتھ مل کر ان کی جسمانی فٹنس، ذہنی پختگی اور انفرادی و اجتماعی طور پر ہر لحاظ سے مقابلے کےلیے تیار کرنا۔
اس کے بعد ہیڈکوچ کا اصلی کام شروع ہوجاتا ہے، یعنی مخالف ٹیم کی صلاحیتوں کی جانچ کرنا ان کی بیٹینگ و بولنگ وغیرہ میں خامیوں و خوبیوں کو تلاش کرتے ہوئے دونوں ٹیموں کا موازنہ کرنا اور اس کی روشنی میں مقابلے کے لیے بہترین ترین حکمت عملی ترتیب کرنا۔ ہیڈ کوچ اپنے اس لائحہ عمل کو اچھی طرح اپنی ٹیم کو ذہن نشین کراتا ہے اور اسی ہی کے مطابق میدان میں ٹیم کو پریکٹس کراتا ہے۔ جو ہیڈ کوچ یہ کام بے خیر و خوبی کر سکتا ہے، اور اس میں وہ ماہر ہے، اس کی ٹیم دنیا بھر میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیتی ہے۔
کوچنگ میں مایہ ناز اور تجربہ کار وہ سابق انٹرنیشنل کرکٹر ہونا کافی نہیں۔ بلاشبہ انتظامی صلاحیتوں کی بنیاد پر کوئی بھی سابق کرکٹر بہت اچھا کوچ تو بن سکتا ہے لیکن جو ٹیکنیکل جوہر اس کام کے لیے درکار ہے وہ انتظامی صلاحیتیں ہیں۔ جس میں انفرادی و اجتماعی سطح پر معاملات، گفت و شنید، مدعا بیان کرنے اور ذہن نشین کرانے، ناپختہ (raw) صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور اسے کندن بنانے، کھیلوں کی جدید سائنس کو سمجھنے، جدیدآلات و معلومات کو استعمال کرنے اور پھر ان سب کی بنیاد پر حکمت عملی و منصوبہ بندی ترتیب کرنے کی صلاحیتیں شامل ہیں۔ پھر ان تمام چیزوں کے علاوہ ٹیم کے کوچ کومضبوط شخصیت کا مالک بھی ہونا چاہیے کیونکہ اسے دولت کے لحاظ سے امیر اور کامیاب و مختلف نرم و سخت مزاج کھلاڑیوں کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ دولت اور کامیابی خود بخود انسان میں غرور و تکبر لے آتی ہے، ایسے میں ایک کمزور شخصیت والا کوچ کھلاڑیوں کے درمیان کھلونا تو بن سکتا ہے ایک کامیاب منتظم نہیں بن سکتا۔
جبکہ پاکستان کے سابق کھلاڑی یا کوئی بھی کرکٹ کوچنگ میں دلچسپی رکھنے والا شخص کوچنگ کی اس جدید تعلیم اور انتظامی طریقوں کے ذریعے ہی بہتر انداز میں کوچنگ کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے محسن حسن خان، جاوید میاں داد، معین خان ، وقار یونس ، محمد یونس، مصباح الحق ، محمد یوسف کی جگہ غیر ملکی کوچز رکھنا پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے اشد ضروری ہے . کیونکہ وہ ان تمام اسرار و رموز کو بہتر انداز میں جانتے ہیں اور پیشہ ور کوچ ہیں جو آجکل کے دور میں اتنی تیز کرکٹ میں پاکستان کے لیے انٹرنیشنل غیرملکی پروفیشنلز کوچ ضروری ہے

لانجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: لانجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by لانجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 193258 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.