گزشتہ نصف صدی سے تا حال عام عوام اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے اسباب کیا تھے؟ جب کہ یہ امر حقیقت ہے کہ اب تک حمودالرحمان کمیشن رپورٹ سرکاری سطح پر پبلک ہوئے بغیر باخبر اور اہل علم اس سیاہ سانحہ کی تمام تر خفیہ و ظاہر اسباب سے نہ صرف مکمل طور پر واقف ہیں بلکہ وقفے وقفے سے اسکا اظہار بھی کسی حد تک ڈھکے چھپے جملوں میں کرتے آرہے ہیں اور کبھی کبھی کوئی بے باک کھل کر مختلف ملکی و عالمی فورم پر بھی کرچکے ہیں یہ اور بات ہے کہ ہمارے ارباب اختیار یہ کڑوی گولی نگلنے کو تیار نہیں،خیر اب ہمیں ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے آنے والی نسلوں کو اس سانحہ کے بعد ہونے والی واقعات سے بھی آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ہم گفتگو کا آ غاز کرینگے پاکستان ٹوٹنے سے کچھ مدت قبل ۲۲ نومبر ۰۷۹۱ سے جب مشرقی پاکستان شدید طوفان کے باعث ڈوب گیا جس سے ۰۳ ہزار افراد ہلاک ہوئے جس میں بیشتر بنگلہ زبان بولنے والے شامل تھے جنہیں اسلام آباد سے بہت شکایات تھیں جسے بعد اذاں درست سمجھا گیا کیونکہ وقت کے حکمراں نے دور اندیشی کا مظاہرہ نہ کیا اسطرح شیخ مجیب الرحمن نے اپنی شعلہ اگلتی تقاریر کے ذریعے عام و خاص بنگالی عوام کو پاکستان سے بدزن کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا،اب آگے چلتے ہیں دسمبر ۰۷۹۱مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی جماعت عوامی لیگ بھاری اکثریت سے جیت گئی اوراصول کے مطابق ملک پاکستان کا وزیر اعظم بننے کا مطالبہ کیا جسے اسلام آباد نے مسترد کردیا عوامی لیگ صوبائی خود مختاری پر اتر آئی اور مشرقی پاکستان میں مقیم اردو بولنے والوں پر حملے شروع کردیئے ان کا ماننا تھا کہ باہر سے آنے والے ہی اصل میں ان کے دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں جو درست بھی تھاکیونکہ وہ تمام اردو زبان سے واقف کاروباری اور تعلیم یافتہ سرکاری افسران اور سرکاری ملازمین تھے جو جو ۷۴۹۱ کے بعد بہتر مستقبل اور پاک وطن سے محبت کے باعث مشرقی پاکستان منتقل ہوئے جبکہ ۵۶۹۱میں پاک بھارت جنگ کے بعد ایک بڑی تعداد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے تقسیم ہند کے پچیس سال تک ہندوتشدد پسندوں کی ظلم و بربریت برداشت کرنے کے بعدمشرقی پاکستان ہجرت کی جو حقیقی معنوں میں لٹے پٹے مہاجرین تھے اور یہی وہ حقیقی متاثرین تھے جنہیں ہندو اور مکتی باہنی نے تاراج کیا جس میں کسی حد تک اسلامی مزاج بنگالی بھی شامل تھے جنہوں نے پاکستان کو فوقیت دی اور اسطرح اپنے ہی ہم زبانوں کا نشانہ بنے اور آج بھی پاکستان سے محبت کی جرم میں سولی پر لٹکائے جا رہے ہیں، اس موقع پرجماعت اسلامی اور پاک اک فوج سے تربیت یافتہ جماعت اسلامی کے جوانوں کے ساتھ ساتھ عام اردو بولنے والے بھی البدر اور الشمش کے ساتھ شانہ بشانہ شریک ہوکر مکتی باہنی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور اپنی عورتوں،بچوں،جوانوں،بوڑھوں اور بہنوں کو دشمنان وطن کے ہاتھوں شہادت و خودکشی دیکھنے پر مجبور ہوئے مگر کمال ہمت و استقامت کا پہاڑ بنے رہے اورپاک فوج کے جوانوں کو محفوظ کرنے کیلئے اپنا سینہ پیش کرتے رہے یہی وجہ تھی کہ جب ۳۸ ہزار پاکستانی فوج کو جنگی قیدی بنایا گیاتو لاکھوں شہادت کے باوجود ۰۱ (دس)ہزار اردو بولنے والے شہری بھی ان میں شامل تھے،جبکہ فوج میں شامل علیحدہ تھے۔یہاں سے ایک بار پھر جنوری تا ۴۲ مارچ ۱۷۹۱ کی جانب پلٹتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ شیخ مجیب کی جماعت عوامی لیگ نے حکومت نہ ملنے پر۴۲ مارچ کو علیحدگی کا جھنڈا بلند کردیا جبکہ ۵۲ مارچ کو ۳۸ ہزار پا فوج کے جوان مشرقی پاکستان میں اتار دیئے گئے اس کے بعد مقامی پولیس اور بنگال رائفلز آپس میں الجھ گئی،بے شمار افسران و جوان قتل کردیئے گئے،عوامی لیگ اور باغی فوجی جوان و افسران بھارتی راء سے ملکر مکتی باہنی تشکیل پا گئی جس نے لاکھوں غیر بنگالیوں کا قتل عام کیا، شیخ مجیب گرفتار ہوئے عوامی لیگ کے حامی ہندو و بنگالی کلکتہ بھاگ گئے جہان انکی باقاٗعدہ تربیت شروع ہوئی اور جلا وطن حکومت قائم کرلی گئی اسی دوران حکومت پاکستان نے ۵۲ ہزار زخمی اردو بولنے و؎؎الوں ہوائی جہازوں کے ذریعے پاکستان لایا گیا،اسکے بعد عوامی لیگ کے لئے عام معافی کا اعلان کیا گیااور ایک بار پھر عام انتخاب کا اعلان کیا گیا اور ۶دسمبر ۱۷۹۱ انتخاب مقرر کردی گئی خاص کر کلکتہ جانے والے بنگالیوں کووطن لوٹنے کی اجازت دی گئی اور اس کام کی نگرانی کیلئے اقوام متحدہ کے مبصرین کو دعوت دی گئی اور انڈو پاک بارڈر پر مراکز قائم کئے لیکن تمام تر سازش کی جڑ اندرا گاندھی اور راء کی جانب سے بارڈر بھاری گولہ باری اور براہ راست مدا… لیا اور شیخ مجیب الرحمن اپنے ہی جنرل ضیاء الرحمان کے ہاتھوں اپنے اہل خانہ و عزیز و اقارب جنکی تعداد ۰۰۲ سے زائد بتائی جاتی ہے بے دردی سے قتل کردئے گئے اس دوران آئی سی آر سی نے کیمپوں کا انتظام بنگلہ دیشی ریڈ کریسنٹ کے سپرد کردیا اور خود بنگلہ دیش واپس لوٹ گئے،۷۷۹۱ پاکستان،میں انتخاب ہوئے منتخب وزیر اعظم ذوالقار علی بھٹو نے کیمپوں میں محصور ایک لاکھ ۹۶محصورین کو بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان منتقل کیا جب ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ کر حکمرانی شروع کی تو اس دوران اردو بولنے والے محصورین کی جہاز کو پاکستان میں داخل ہونے سے روک دی گئی،بتایا جاتا ہے کہ اس جہاز میں سوار مسافرکئی روز پورٹ بھوکے پیاسے رکھے گئے تھے جس کئی امراض اور بھوک سے متاثر ہوکر دم توڑ گئے اور کئی سمدر سے چھلانگ لگا پاکستانی آبادی میں داخل ہونے کی کوشش میں سمندر سے لڑتے ہوئے لقمہ اجل بن گئے ان چھلانگ لگانے والوں کی بیشتر لاشیں کراچی سے دور دراز جزیروں تک پہنچ گئیں جسے مقامی مچھیروں نے اپنے دفن کیا جبکہ چند ایک کی جان بچا لی گئی جبکہ انتظامیہ کی جانب سے جہاز کے کیپٹن کو سختی کے ساتھ حکم دیا گیا کہ وہ جہاز میں بچ جانے والے مسافروں کو لیکر پاکستانی حدود سے باہر نکل جائے جسکی تعمیل کی گئی اس ضمن میں خبر عام تھی کہ مذکورہ جہاز کے عملے نے کچھ دور جاکر تمام مسافروں میں زبردستی پھینکا جس اکثریت بوڑھے مرد و عورت کی بتائی گئی۔ دسمبر ۵۸۹۱ ضیاء الحق نے اسلامی کانفرنس میں شرکت کیلئے بنگلہ دیش تشریف لے گئے تو اس دوران انہوں نے پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر محصورین کی کیمپوں کا دورہ کیا اور کیمپ مکینوں سے انہیں پاکستان لانے کا وعدہ کیا مگر واپسی کے بعد جلد ہی مکر گئے،اسی طرح اپریل ۶۸۹۱ شہید بے نظیر بھٹو جلا وطنی سے لوٹنے پر محصورین کی پاکستان منتقلی کیلئے رضامندی ظاہر کی مگر ضیاء الحق کی شہادت کے بعد جب وہ وزیراعظم بنیں تومحصورین کی واپسی یاد دلانے پر وہ یکسر انکاری ہوگئیں، ۰۹۹۱ میں جب نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے بھی بنگلہ دیش کے کیمپوں سے اردو بولنے والے محصورین کو پنجاب میں آباد کرنے کا وعدہ کیا گیا اور پنجاب کے وزیر اعلی کو محصورین کیلئے میاں چنوں میں زمین مختص کرکے فلیٹس بنانے کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی،اس حوالے سے بتایا جاتا ہے وزیر اعلی پنجاب نے اپنی خصوصی نگرانی میں ترقیاتی کام شروع مگر حاسدوں کو محصورین کی منتقلی پسند نہیں آئی اور وزیر اعلی نامعلوم گولی نے موت کی نیند سلادی،بدقسمتی سے یہ وہی وقت تھا جب بنگلہ دیش میں جنرل ارشاد کی حکومت ختم ہوئی،جنرل ضیاء الرحمان کی بیوہ خالدہ ضیاء برسر اقتدار آئیں اور اس کے بعد محصورین کے لئے پاکستان کا دروازہ بند ہوا تا حال کسی پاکستانی حکمراں یا سیاسی جماعت نے محصورین کی منتقلی کیلئے سنجیدہ کوشش نہیں اس جرم میں پاکستان میں موجود اردو بولنے مہاجرین برابر کے شریک ہیں جو کہ اپنے قیام کے ابتدائی سالوں میں جب انہیں افرادی قوت کی ضرورت تھی تو انکے پارٹی بائی لاس میں محصورین کی منتقلی اولین سطور پر موجود تھی جسے بعد ازاں مقاصد حاصل ہونے کے بعد یکسر کھرچ دیا گیا۔یاد رہے کہ کوئی بھی قوم اپنے محسنوں کو فراموش کرکے کبھی اقوام عالم میںسراٹھا کر بات نہیں کرسکتی ہے قانون قدرت کی چکی بہتر وقت پر انہیں کچلنے کی تیاری کی ہوئی ہوتی ہے،لبذا صاحب اقتدار اور اصل قوت پر لازم ہے کہ اردو بولنے والے محصورین بنگلہ دیش کو انکا جائز مقام دلوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
|