کتاب کلچر کا فروغ وقت کی ضروری 18واں کراچی انٹر نیشنل بک فیئر 2023
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
کتاب کلچر کا فروغ وقت کی ضروری 18واں کراچی انٹر نیشنل بک فیئر 2023 ٭ پروفیسر ڈاکٹر رئیس صمدانی کراچی ایکسپو سینٹراٹھارواں ’کراچی انٹر نیشنل بک فیئر سج گیا پروگرام کے مطابق یہ14دسمبر تا18 دسمبر تک جاری رہے گا۔ پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلر ایسو سی ایشن قابل مبارک بادہے کہ وہ ایسے حالات میں جب کہ لوگ کتاب کی جانب مائل نہیں، پڑھنے کا رجحان ختم ہوچکا، لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انٹر نیٹ کے آجانے کے بعد کتاب کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ اب اگر کسی کو کچھ پڑھنے یا لکھنے کی ضرورت ہو تو انٹر نیٹ اس کی یہ علمی پیاس آسانی سے پوری کر دے گا۔ ایسا ہر گز نہیں کتاب کی اہمیت اور ضرورت انٹرنیٹ کی آمد سے کم ہر گز کم نہیں ہوئی کتاب آج بھی اسی طرح تمام ذرائع حصول علم میں سر فہرست ہے۔ تہذیب انسانی کا کوئی دور ایسا نہیں گذراجو کتاب سے تہی دامن رہا ہو اور فکر کتاب سے آزاد ہوجائے۔ کتابیں بلند خیالات اور سنہری جذبات کی دستاویزی یادگاریں ہوتی ہیں۔ شیخ سعدی کا قول ہے کہ ’اچھی کتابوں کا مطالعہ دل کو زندہ اور بیدار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے‘،البیرونی نے کہا ’خیالات کی جنگ میں کتابیں ہتھیاروں کا کام دیتی ہیں‘، یہ معلومات کے ثمر دار درختوں کے باغ ہیں، گزرے ہوئے بزرگوں کے دھڑکتے دل ہیں،حسن و جمال کے آئینے ہیں اور وقت کی گزری ہوئی بہاروں کے عکس ہیں۔ کتابیں بولتی ہیں،یہ ایک ایسی روشنی ہے کہ جس نے گزرے زمانے کی شمع کو کسی لمحہ مدھم ہونے نہیں دیا۔ زمانے کی ترقی اسی مینارہ نور کی مرہون منت ہے۔ یہ ایک ایسا انمٹ لازوال سرمایہ ہے کہ جس نے انسانی ترقی کے تمام ادوار یعنی ماضی،حال اور مستقبل کو مربوط رکھنے کے ساتھ ساتھ انھیں ایک دوسرے سے متعارف کرانے کا خوش گوار فریضہ بھی انجام دیا ہے۔کتاب کا حصول اس قدر آسان ہے کہ کوئی چیز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کتاب ہمیں اسلاف اور ان لوگوں کے حالات بڑی آسانی سے مہیا کر دیتی ہے جن تک ہم پہنچ نہیں سکتے۔ کتاب جیسا ساتھ کسی کو مل سکتا ہے کہ جب آپ چاہیں کچھ وقت آپ کے ساتھ گزارنے پر تیار ہو جائے اور جب آپ پسند کریں تو سائے کی طرح آپ کے ساتھ لگی رہے، آپ کی خواہش ہو تو آپ کے جسم و جان کا جزو بن جائے۔ جب تک آپ چاہیں خاموش رہے اور جب آپ کا جی اس سے بولنے کو چاہے تو چہکنے لگے۔آپ کسی کام میں مصروف ہوں وہ خلل انداز نہیں ہوتی اور آپ تنہائی محسوس کریں تو آپ اسے شفیق ساتھی محسوس کریں۔ کتاب ایک ایسا قابل اعتماد دوست ہے جو کبھی بے وفائی نہیں کرتا اور نہ کبھی آپ کا ساتھ دینے سے جی چراتا ہے۔شاعر خیال آفاقی کے بقول ؎ نئے ذریعہئ بلاغ خوب ہیں لیکن کتاب میں جو مزاہ ہے، کتاب ہی میں رہا کراچی میں کتب میلے کا انعقاد خوش آئند ہے ایسے کتب میلے اندرون سندھ کے شہروں میں بھی ہونا چاہیں جیسے لاہور میں ہر سال عالمی کتاب میلا سجتاہے۔اس سے عوام کو فائدہ ہوگا اور لوگوں میں شعور اجاگر ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کو نظر انداز کردیا ہے جس کی وجہ سے ہم یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ ہم پڑھی لکھی قوم ہیں۔ ہمارا تعلیمی بجٹ کم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں 62فیصد شرح خواندگی ہے۔ دنیا اس کو تسلیم نہیں کرتی۔سچ تو یہ ہے کہ قوم کی کتاب سے دوری کا سبب ہمارے حکمران اور سیاست دان ہیں،یہ حزب اختلاف میں ہوں تو لمحہ موجود کے حکمرانوں میں کیڑے نظر آتے ہیں، اپنا دور حکمرانی بھول جاتے ہیں، تعلیمی بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک کے ابتر سیاسی، معاشی حالات میں کتابوں کی نمائش کا انعقاد قابل تعریف ہے۔ اس بار کتاب میلہ زیادہ سلیقے اور سجاوٹ کے ساتھ سجایا گیا ہے۔ اسے کتابوں کی تاریخ کا بڑا میلہ کہا جارہا ہے۔ پہلے ہی روز ریکارڈ خریداری ہوئی۔ ایکسپو سینٹر کراچی کے تین وسیع ہالوں میں رنگا رنگ، چمکتے دھمکے اسٹال لوگوں کی توجہ اپنے جانب متوجہ کررہے ہیں۔ میلے کی ایک اچھی بات کتابوں پر پچیس سے پچاس فیصد ریاعت دینا ہے۔ کتابیں خریدی جارہی ہیں، دھڑا دھڑ لوگ کتابیں خریدرہے ہیں،حکیم محمد سعید جن کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم سب سے کم وقت اور سب سے کم دولت جس چیز پر خرچ کرتے ہیں، وہ کتاب ہے‘اگر وہ زندہ ہوتے تو کتابوں کی خریداری کو دیکھ کر ان کا دل یقینا باغ باغ ہوجاتا۔ گھر کے پورے پورے افراد چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ میلے کا رخ کرتے نظر آتے ہیں۔ میلے میں جاکر خوش گوار احساس ہوا، اچھا لگا، ہم سال بھر جس قسم کی تقاریب اور محفلوں میں جاتے ہیں یہ تقریب ان تمام سے مختلف اور پر لطف ہوتی ہے۔ تمام ہی اسٹالوں پر اچھی اچھی کتابیں سچی ہیں، دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ جی تو چاہتا تھا کہ سب ہی کتابیں خرید لائیں لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ ہم فیض ؔ کی شاعری کے مجموعوں نقش ِ فریادی، دستِ صبا، زندہ نامہ، دست ِ تہہ سنگ، سروادیئ سینا، شام شہریاروں، مرے دل مرے مسافر اور غبار ایام شامل ہیں، ان مجموعوں پر مشتمل کلیات فیض بعنوان”نسخہ ہائے وفا“ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔کتاب سے ہمیں جڑے نصف صدی ہونے کو آئی۔ کتاب پڑھنے، سلیقے سے رکھنے کے علاوہ لکھنا ہماری زندگی کا بنیادی عمل رہا ہے جس کے نتیجے میں اب تک ہماری تصانیف و تالیفات چالیس سے زیادہ ہوچکی ہیں۔ شخصیات ہمارا سب سے پسندیدہ موضوع رہا ہے اور اب تک جو کچھ لکھا اور چھاپاہے اس میں شخصیات زیادہ ہیں۔ ایک کتاب لاہور سے الفیصل نے ’یادوں کی مالا‘ اور دوسری کراچی سے ’فضلی سنز نے’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ شائع کی۔ ان دونوں میں متعدد شخصیات کے خاکے اور سوانحی مضامین ہیں۔ ان کتب کی اشاعت کے بعد اتنی شخصیات پر لکھا جاچکا ہے کہ تیسری کتاب آسانی سے چھپ جائے گی۔ کالم نگاری تو بعد کی پیداوار ہے جس نے اب تمام اصناف کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بات کراچی میں ایکسپو میں لگی کتابوں کی نمائش کی شروع کی تھی، ذات بیچ میں آگئی۔ کالم نگار کی یہ بھی ایک مجبوری ہوتی ہے۔ جسے پڑھنے والے نہ چاہتے ہوئے بھی برداشت کر لیتے ہیں۔میلہ رات نو بجے تک سجا رہتا ہے۔ ابھی کئی دن باقی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت کتاب کی اشاعت میں اپنا کردار ادا کرے، طباعت کے حوالے سے اشیاء جیسے کاغذ، گتہ، چھپائی، پرنٹنگ مشینیں اور دیگر اشیاء پر زیادہ سے زیادہ سہولت اور جو اشیاء باہر سے منگوائی جاتی ہیں ان پر ٹیکس فری کردیا جائے، کاغذ کے کارخانوں کی سہولت فراہم کرے تاکہ کتاب پر کم سے کم لاگت آئے اور کتاب کم قیمت پر فروخت ہو۔ اس وقت ملک کے معاشی حالات کے پیش نظر لوگوں کی قوت خرید مشکل ہوگئی ہے۔ لوگ روز مرہ کھانے پینے کی اشیاء کا حصول مشکل ہوگیا ہے، کتاب کیسے خریدی جاسکتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کی نصابی کتب کی ضرورت مشکل سے پورا کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک تعلیم پر سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ مغربی ممالک میں تعلیم ابتداسے اعلیٰ تعلیم کی کوئی فیس نہیں، کتابیں، روزمرہ کا خرچ بچوں کو حکومت وقت ادا کرتی ہے۔ پھر ہم کیوں ایسا نہیں کرسکتے؟ اللہ سے دعا ہے کہ آنے والے ہمارے حکمرانوں میں کوئی ایسا حکمراں آئے جو تعلیم کو سب سے زیادہ اہمیت دے۔(12دسمبر 2023ء)
|