پچھلے تقریباً چھ ماہ سے کراچی
میں قتل وغارت گری کانیابازار گرم ہے اورچند ایک چھوٹے چھوٹے وقفوں کے ساتھ
یہ سلسلہ ہنوزجاری ہے۔جس طرح کسی کاروباری مارکیٹ ،منڈی یا بازار میں
اتارچڑھاﺅ اورمندی تیزی کاسماں ہوتاہے بعینہ اسی طرح کراچی میں انسانوں
جانوں کاضیاع کیاجاتارہاہے اورکیاجارہاہے۔کراچی کے حالات1980 کی دِہائی سے
دُہائی دے رہے ہیں ۔پچھلے پچیس چھبیس سال سے کراچی میں بے گناہوں کا قتل
عام جاری ہے۔ان پچیس سالوں میں متعدد بار کراچی کے حالات خراب ہوئے یاکیے
گئے ۔کراچی میں مائنر اورمیجر آپریشن بھی کیے گئے ،کئی بار شہر فوج کے
حوالے کیاگیا،اور کافی عرصہ سے کراچی میں رینجرز کے دستے مستقل طور پر
تعینات ہیں ۔اس کے باوجود کراچی مسلسل جل رہاہے بلکہ جلایاجارہاہے ۔یہ
1989کے شروع کی بات ہے جب میں زندگی میںپہلی مرتبہ کراچی گیا۔عید الفطر کے
موقع پر میرے بڑے بھائی حافظ محمدابوبکر صاحب جو اس وقت کراچی میں مقیم تھے
کی دعوت پر عید منانے کی غرض سے کراچی جانے کااتفاق ہوااورپندرہ دن تک
کراچی میں قیام رہا۔اُس وقت میں فرسٹ ائیر کاطالب علم تھا۔میں نے کراچی کے
چوکوں چوراہوں پر مسلح افواج کے دستے دیکھے جو ریت کی بوریوں سے تیار کردہ
مورچوں پرتعینات ڈیوٹی اداکررہے ہوتے تھے ۔حتیٰ کہ بعض معروف اورمصروف
شاہراہوں پر ٹریفک کانظام بھی افواج پاکستان کوسنبھالے دیکھا۔اس وقت بھی
کراچی فوج کے حوالے تھااورکراچی کے رہائشی بتایاکرتے تھے کہ ابھی کل ہی کی
بات ہے کہ شہر میں قتل وغارت ہورہی تھی پاک فوج نے آکر شہر کوامن کاگہوارہ
بنادیاہے۔جگہ جگہ کھڑے اورموبائل گاڑیوں پر گشت میںمصروف پاک فوج کے جوان
کراچی کے شہریوں کے نجات دہندہ کے طور پر جانے جاتے تھے۔کراچی کی سڑکوں پر
پاک فوج کے مسلح جوانوں کودیکھ کر اندازہ ہوتاتھاکہ یہاں کے حالات کس حد تک
خراب رہے ہیں۔فوج کچھ دن یہ فرائض ادا کرنے کے بعد واپس بیرکوں میں چلی گئی
۔اس کے بعد بھی کراچی کے حالات خراب ہوتے رہے اورقانون نافذ کرنے والے
ادارے حالات کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔اسی دوران جنرل نصیر اللہ بابر
کامشہورومعروف آپریشن بھی ہوا۔جس کے بعد دعویٰ کیاگیاکہ اب کراچی کے حالات
کوئی بھی خراب نہیں کرسکے گا۔بہرکیف فوجی آپریشن کے بعد بھی چندماہ تک ہی
کراچی کے باسیوں کوامن نصیب ہوسکااورپھر ”وہی آگ ہے ،ابراھیم ہے، آتش نمرود
ہے“کے مصداق کراچی کے حالات خراب ہوتے رہے ۔جن میں بے گناہ مرتے رہے ،بچے
یتیم ہوتے رہے ،قوم کی بیٹیاں بیوہ ہوتی رہیں،ماﺅں کی گودیں اجڑتی رہیں۔سب
کچھ ہوامگر صرف انصاف نہ ہوا۔یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے ۔میرے خیال کے
مطابق کراچی میں بدامنی اورقتل وغارت کی موجودہ لہر 12مئی 2007ءکوشروع ہوئی
۔جب اُس وقت کے معزول اورموجودہ بحال چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار
محمدچوہدری کے دورہ کراچی کوسبوتاژ کرنے کی غرض سے کراچی کوخون میں
نہلایاگیا۔میں اُس وقت کراچی کے علاقہ منظور کالونی میں کاروبار کے سلسلے
میں مقیم تھا۔12مئی کومیں اپنے ایک دوست کے ہمراہ شاہراہ فیصل کی طرف
جارہاتھاکہ بلوچ کالونی پُل کے قریب پہنچتے ہی ہمیں احساس ہواکہ ہم غلط وقت
میں، غلط موقع پر، غلط جگہ کی طرف جارہے ہیں ۔یہ احساس ہوتے ہی ہم واپس
پلٹے، موٹر سائیکل ٹرن کرتے کرتے ہم نے فائرنگ کی آوازیں سنیں،مگر ایک بار
چہرہ گھماکر میںنے بلوچ کالونی پُل کے اوپر دیکھا۔کسی نقاب اور اوٹ کے
بغیرچار پانچ آدمی جن کارُخ عوامی مرکز کی طرف تھا فائر نگ کرتے ہوئے
دکھائی دیے ۔ہم نے فوراً واپسی کاسفر شروع کیااورمنظور کالونی پہنچ کر سانس
لیا۔تھوڑی دیر بعد ہی نیوز چینلز پر یہ پٹی چلتی دکھائی دی کہ شاہراہ فیصل
پر ریلی پر فائرنگ متعدد افراد ہلاک وزخمی۔اُس روزسارادن سارے شہر میں
ریلیاں نکلتی رہیں۔فائرنگ ہوتی رہی۔ لوگ مرتے رہے ۔لیڈران کرام بیان دیتے
رہے ۔احتجاج ہوتارہا۔لاشیں گرتی رہیں۔نہ وہ تھکے نہ یہ تھکے ۔12مئی 2007ءکو
مجموعی طور پر ایک دن میں پچاس کے لگ بھگ پاکستانی قتل ہوئے ۔اُس وقت ملک
کے اقتدار پر وردی سمیت ذہنی مریض براجمان تھا۔اُس نے چالیس انسانوں کے قتل
پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ عوام نے اپنی طاقت کامظاہرہ کیاہے۔میں سوچ
رہاتھاکہ 1989ءمیں جب میں پہلی بار کراچی آیاتھاتوکراچی کے لوگ اِسی وردی
کواپنامحافظ سمجھتے تھے اورآج یہی وردی چالیس انسانوں کے قتل پر یوں گویاہے
جیسے مرنےوالے انسان نہیں کیڑے مکوڑے ہوں۔ اکتوبر 2007ءمیں ،میں نے کراچی
میں چھ سال گزارنے کے بعدکراچی چھوڑے کافیصلہ کیااورچند دن بعد ہی
اپناکاروبار وائینڈ اپ کرکے واپس پنجاب سیٹل ہوگیا۔وہ دن اورآج کادن ،کراچی
کے بارے کوئی خبر ہومیں ضرور سنتااورپڑھتاہوں ۔اس لیے کہ میں اب بھی خود کو
کراچی کاباشندہ اورکراچی کواپناشہر سمجھتاہوں اور کراچی کے کسی بھی باشندے
کے قتل پر مجھے یوں لگتاہے کہ جیسے میں خود قتل ہواہوں ۔ویسے توہرپاکستانی
کراچی کواپناشہر سمجھتاہے اورسمجھنابھی چاہئے کیونکہ کراچی ہمارے ملک
پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے۔ مگر مجھے کراچی سے کچھ زیادہ ہی رغبت ہے ۔شاید
اس لیے کہ میںنے کراچی کاپانی چھ سال تک پیاہے۔میںنے چھ سال تک کراچی میں
مزدوری کی ہے ۔میں چھ سال تک کراچی کے لوگوں میں رہاہوں ۔میںنے چھ سال تک
کراچی کے لوگوں کاپیار دیکھاہے۔میں نے چھ سال ان لوگوں میں گزارے ہیں جو اس
گئے گزرے دور میں بھی مزدے میں کھڑے کسی بزرگ کوسیٹ دے دیتے ہیں ۔جو کسی
معذور راہگیر کو لفٹ دینے میں نہیں ہچکچاتے ۔میں نے کئی بار دیکھاکہ مصروف
ترین شہر میں، مصروف ترین شاہراہ پر، نوجوان اپنی موٹر سائیکل کھڑی کرکے
کسی نابینا کو سڑک پار کرارہے ہیں ۔جب میں نے کراچی چھوڑنے کافیصلہ کیاتوجس
جس کی طرف میرا کچھ حساب باقی نکلتاتھاتوانہوں نے مجھے میرے بقایاجات کی
یکمشت ادائیگی کردی ۔ماسوائے ان کے جن کاتعلق میرے آبائی علاقہ سے تھا۔میں
حیران ہوں کہ کراچی کے لوگ جو کہ محبت کرنے والے ہیں ،معاملات کے سیدھے
اورسچے ہیں ،ہمدرد ہیں ،غریب پرور ہیں ،ہنر مند کی قدر کرنے والے ہیں ،کسی
مجبور کااحساس کرنے والے ہیں ،مزدور کی مزدوری نہیں رکھتے بلکہ بروقت
اداکرتے ہیں ۔ اتنے خداترس لوگوں پر نہ جانے یہ کیسی مصیبت نازل ہوتی ہے کہ
چند ہفتے کے وقفے کے بعد کئی کئی ماہ تک جاری رہنے والی بدامنی، قتل وغارت
اور لُوٹ مار ان کامقدر بن جاتی ہے۔مالی نقصانات کی بات سرِدست نہیں صرف
اورصرف جانی نقصانات کاذکر کررہاہوں ۔ محتاط اندازے کے مطابق پچھلے پچیس
سالوں میں کم وبیش بیس ہزار افراد مختلف واقعات میں زندگی کی بازی ہار چکے
ہیں ۔مرنے والوں میں ہر قومیت کے افراد شامل ہیں کیاسندھی، کیابلوچی ،کیامہاجر،
کیاپنجابی ،کیاپختون یاکوئی اور۔سبھی قوموں نے جانی نقصان برداشت کیاہے۔یہ
بات توسمجھنے کی ہے، کوئی نہ سمجھے تواس کی مرضی، مگر حقیقت یہی ہے کہ
سارانقصان صرف ایک ہی قوم کاہواہے اوروہ ہے پاکستانی قوم ۔کراچی میں قیام
کے دوران انفرادی طور پر میرا تقریباً ہر قوم کے فرد سے واسطہ پڑاہے۔میرے
علم کے مطابق کوئی بھی فرد یہ نہیں چاہتاکہ کراچی میں بدامنی ہو،قتل وغارت
ہو،لُوٹ مار ہو۔بلکہ سب کے سب اس صورت حال سے عاجز ہیں ۔سب لوگ کراچی
کواپناگھر سمجھتے ہیں۔بھلاکوئی اپنے گھر کوآگ لگاسکتاہے؟نہیں، کبھی نہیں۔وہ
کوئی عقل کادشمن ہی ہوگاجو اپنے گھر کوآگ لگاتاپھرے۔ذی شعور لوگوں سے اس
طرح کی غیر ذمہ دارانہ حرکت کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ توپھر سوال ہے کہ وہ
کون لوگ ہیں جو کراچی کو آگ وخون میں نہلادیتے ہیں ؟اس مختصر سوال کامختصر
جواب شاید کسی کو پسند آئے یانہ آئے مگر یہی ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو کراچی
کواپناگھرنہیںسمجھتے ۔بلکہ ان کاقبلہ وکعبہ ماسکو،پیرس ،واشنگٹن،نیودہلی ،تل
ابیب،لندن یاکہیں اورہے۔یہی وجہ ہے کہ کسی ایک کی طرف سے بیان آتاہے
تودوسرا احتجاج کی کال دیتاہے ،جس کے نتیجے میں درجن دودرجن انسان لقمہ اجل
بن جاتے ہیں۔بیان دینے والابیان واپس لے لیتاہے مگر جانےوالے واپس نہیں
آتے۔یہی وجہ ہے کہ ایک نے کہاکہ دوسرا امریکہ سے نقد امداد لیتاہے۔دوسرے نے
کہاکہ نہیں ،یہ کہنے والاامریکہ سے امداد لیتاہے اورامداد دینے والے نے
دونوں کی سرزنش کی تودونوں” جذبہ خیر سگالی “کے تحت اپنے اپنے بیان سے مکر
گئے ۔کل تک ایک دوسرے کو دہشت گرد کہنے والے، ایک دوسرے کوبے گناہوں کے قتل
عام کاذمہ دار قراردینے والے ،ایک دوسرے کے بیرونی ایجنٹ ہونے کااعلان کرنے
والے ،ایک دوسرے پر ملک توڑنے کی سازشیں کرنے کاالزام لگانے والے ،آج شیر
وشکر ہوگئے ہیں۔ مگر اس سارے طوفان بدتمیزی میں زندگیوں کی جان ہارجانے
والے واپس نہیں آسکیں گے ۔کراچی سے محبت کرنے والے پوچھتے ہیں کہ ان بے
گناہ لوگوں کے قتل کاذمہ دار کون ہے؟ ان بے گناہوں کے سرخ لہو کاسراغ کہاں
سے ملے گا؟غالباً اسی لیے آج سے پنتالیس سال قبل کراچی ہی کی جیل میں بیٹھے
فیض احمد فیض نے لکھاتھا،جو اب موجودہ کراچی کے حالات کی صحیح طور سے عکاسی
کررہاہے کہ :
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیںلہو کاسراغ
نہ دست وناخن قاتل نہ آستین پہ نشاں
نہ سرخی لب خنجر نہ رنگ نوک سناں
نہ خاک پر کوئی دھبانہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیںلہو کاسراغ
نہ صرف خدمت شاہاں کہ خون بہادیتے
نہ دیں کی نظر کہ بیعانہ جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی علم پہ رقم ہوکے مشتہر ہوتا
پکارتا رہا،بے آسرا، یتیم لہو
کسی کوبہر سماعت نہ وقت تھانہ دماغ
نہ مدعی ،نہ شہاد ت، حساب پا ک ہوا
یہ خون خان نشیناں تھا،رزق خاک ہوا |