گزشتہ روز پاک آرمی کے ہیڈ
کوارٹر جی ایچ کیو راولپنڈی میں کور کمانڈرز کی ہنگامی طور پر خصوصی
کانفرنس منعقد ہوئی اس کانفرنس میں امریکہ کی جانب سے پاکستان پر لگائے
جانے والے الزامات کویکسر مسترد کر دیاگیا جبکہ افغانستان سے پاکستانی
علاقوں میں داخل ہو کر دہشتگردی کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کا فیصلہ
کیا گیا۔ کور کمانڈرز کی یہ خصوصی کانفرنس کم و بیش چھ گھنٹے تک جاری رہی۔
اس اہم اجلاس میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کور کمانڈرز
کو ایڈمرل مائیک میولن اور جنرل جیمز پی میٹس کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے
بارے میں اعتماد میں لیا۔ اس کانفرنس میں پاک امریکا بنتی بگڑتی ہوئی
موجودہ صورتحال پر پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ
کیا گیا۔پاک آرمی کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیرصدارت کور
کمانڈرز کے خصوصی اجلاس میں امریکی عسکری قیادت کے پاکستان پر حقانی نیٹ
ورک کی سرپرستی اور آئی ایس آئی کے پراکسی وار لڑنے کے الزامات کو یکسر طور
پر مسترد کرتے ہوئے امریکا پر زور دیا کہ الزام تراشی کے بجائے دونوں ممالک
کے مابین مضبوط روابط کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس اجلاس میں امریکی
الزامات کو یکسر طور پر مسترد کرتے ہوئے واضح کیا گیا کہ عسکری قیادت خود
ہی یہ فیصلہ کرے گی کہ شمالی وزیرستان میں کب فوجی کاروائی کی جا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ امریکی قیادت بہت عرصے سے پاکستان پر تمام سفارتی اور عسکری
ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے یہ زور ڈال رہی تھی کہ پاکستان آرمی شمالی
وزیرستان میں بھی سوات اور جنوبی وزیرستان طرز کا آپریشن کرے ۔
اس کور کمانڈرز کانفرنس کا مقصد افغانستان کے دارالحکومت میں طالبان کی
جانب سے کیے گئے حملے کے بعد سے امریکی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان مخالف
متواتر آنے والے بیانات کا جائزہ لیناتھا۔طالبان مزاحمت کاروں نے تقریباًدو
ہفتے قبل کابل کے وسط میں واقع ایک زیر تعمیر عمارت پر قابض ہو کر نیٹو کے
فوجی ہیڈکوارٹر،افغانستان میں قائم امریکی سفارت خانے اور اس سے ملحقہ
عمارتوں پر بڑے منظم انداز میں خودکار ہتھیاروں اورجدید اسلحے سے حملہ کیا
تھا۔افغانستان میں نیٹو اور امریکی فوج کے کمانڈر میرین جنرل جان ایلن نے
اس حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا: طالبان کے حملے اور جھڑپ میں بچوں سمیت
گیارہ شہری ،پانچ پولیس اہلکار اور گیارہ حملہ آور مارے گئے ہیں۔ان گیارہ
حملہ آوروں میں سے سات دہشت گرد افغان فورسز کے ساتھ بیس گھنٹے تک جاری
رہنے والی لڑائی میں ہلاک ہوئے اور چار نے کابل کے مختلف مقامات پر خود کو
دھماکوں سے اڑالیا۔
اس نازک صورت حال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکی انتظامیہ طالبان کے
مقابلے میں اپنے دس سالہ دور شکست کو دیکھتے ہوئے تمام دنیا کے سامنے برملا
یہ تسلیم کرتی کہ اپنے جنگی جنون میں اس نے اپنے فرنٹ لائن اتحادی ملک
پاکستان کے تقریباً چالیس ہزار افراد کو موت کی اندھیری کوٹھری میں دھکیل
دیا ہے اور خود اپنی افواج اور معیشت کو بھی کسی کو منھ دکھانے کے قابل
نہیں چھوڑا مگر امریکی بدقماش حکومت نے پاکستانی حکومت کو اپنی اس شکست کا
ذمہ دار گردانتے ہوئے تمام دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا کہ
پاکستانی ہی در اصل حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے لگائے گئے الزام کی وجہ دیکھنے کے لیے ہمیں حقانی نیٹ
ورک کے بارے میں ایک طائرانی نگاہ ڈال لینی چاہیے۔ حقانی نیٹ ورک 2003 سے
امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف نہایت کامیابی سے افغانستان میں کاروائیاں
کرتا چلا آ رہا ہے اور اس نیٹ ورک نے خود کو جدید اسلحے سے لیس کرنے کے
ساتھ ساتھ جدید تریں جنگی حکمت عملیوں سے خود کو لیس کر رکھا ہے۔ یہ نیٹ
ورک امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے تعاون سے سوویت یونین کے خلاف عمل میں
لایا گیا تھا اور اس نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی کے اس دور سے ہی
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں یہی نہیں جلال الدین کی
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جائداد اور رہائش ہے ۔ اگرچہ
امریکہ نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف افغانستان میں کئی سرچ آپریشن اور پاکستان
کے شمالی علاقوں میں بھی ڈرون حملے کیے ہیں مگر امریکہ کو حقانی نیٹ ورک کے
خلاف کسی قسم کی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے ۔ امریکہ اپنی اس
ناکامی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر یہ کہتا ہے کہ پاکستانی حکام حقانی
نیٹ ورک کی پشت پناہی کرتے ہیں اور انھیں حملوں سے پیشتر محفوظ مقامات پر
منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اسی لیے افغانستان میں متعین امریکی سفیر ریان سی
کروکر نے کابل میں امریکی اڈے پر حملے کی ذمہ داری پاکستان کے شمال مغربی
علاقے وزیرستان میں مبینہ طور پر جڑیں رکھنے والے حقانی نیٹ ورک پر
عائدکی۔اس حملے سے امریکی قیادت بری طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہے کیوں کہ اس
حملے سے پہلے طالبان کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کا دورانیہ چار سے چھ
گھنٹوں پر مشتمل ہوتا تھا لیکن اس مرتبہ طالبان نے مسلسل 20 گھنٹوں تک
افغانستان میں قابض افواج کے خلاف مزاحمت کی۔
اس حملے کے بعد تمام اہم امریکی عہدیداروں کی جانب سے پاکستان اور آئی ایس
آئی کے خلاف کھلے بندوں الزام تراشیوں کا سلسلہ اہل عقل و خرد کو یہ سوچنے
پر باہم مجبور کرتا ہے کہ آیا امریکی افواج گزشتہ دس سال کے عرصے میں
افغانستان کے دارلحکومت میں بھی اپنی رٹ قائم نہیں کر سکیں تو وہ افغانستان
کے دور دراز علاقوں اورطالبان اکثریتی علاقوں میں اپنی اجارہ داری کے
کھوکھلے دعویٰ کس منہ سے کر رہی ہیں؟ان حالات میں ایک اور سوال جنم لیتا ہے
کہ عین ممکن ہے امریکہ نے افغانستان کے دارالحکومت میں مزاحمت کا یہ تمام
ڈرامہ خود اپنے لے پالک فسادی عناصر کے ذریعے خود رچایا ہو تا کہ پاکستان
کو پوری دنیا میں دہشت گرد ملک ثابت کرنے کے مذموم مقصد کو حاصل کر لے؟
امریکی عہدیداران نے پاکستان کے حقانی نیٹ ورک سے تعلقات ثابت کرنے اور
اپنی شکست کا سہرا پاکستان کے سر پر سجانے کے لیے بیانات کا ایک نہ تھمنے
والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ امریکا کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے رکن اور سینیٹر
لنڈسے گراہم نے اسلام اور پاکستان مخالف نیوز چینل فاکس نیوز (Fox News)پر
اپنے ایک انٹرویو میں دھمکی آمیز انداز میں کہا ہے: پاکستان کو حقانی نیٹ
ورک یا امریکا میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔انہوں نے مزیدکہا : امریکا
کو پاکستان سے ڈیل کرتے وقت تمام آپشن سامنے رکھنے ہوں گے۔ پاکستان کو
حقانی نیٹ ورک کی مدد یا القاعدہ کیخلاف امریکا کی مدد میں سے ایک کا
انتخاب کرنا ہو گا۔
امریکی سینیٹرلنڈسے گراہم کی طرح امریکہ کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی و
وسطی ایشیا رابرٹ بلیک نے امریکی دشنام طرازی اور پراپیگنڈا مہم جاری رکھتے
ہوئے کہا ہے : یہ وقت پاکستان کے عوام اور حکومت کی مدد کرنے کا ہے کہ وہ
اپنے معاشی ، سیاسی اور سیکورٹی کے مسائل سے نمٹ سکے ، تاہم پاکستان کو بھی
چاہیے کہ وہ اپنی سرزمین پرموجود حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گرد گروپوں
کے خلاف موثر کاروائی کرے۔ ان کا کہناتھا : پاکستان کو چاہیے کہ وہ دہشت
گردوں کے چیلنج کو سنجیدگی سے لے اور جو بھی دہشت گرد نیٹ ورک پاکستان کے
اندر سے سرگرم ہیں، ان کی کاروائیاں روکنے کے موثر اقدامات کرے۔ خواہ وہ
حقانی نیٹ ورک ہو، لشکرطیبہ ہو یا کوئی اور گروپ۔
امریکہ اور اس کے حکومتی اراکین کی جانب سے دیے جانے والے ایسے بیش بہا
بیانات امریکی جنگی جنون کی واضح دلیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات پر مہر ثبت
کرتے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان میں بری طرح شکست ہوئی ہے ۔ امریکہ کی طرف
سے پاکستان کے خلاف کھڑی کی گئی محاذ آرائی کے جواب میں حکومت کی جانب سے
قومی کانفرنس منعقد کرنے اور موجودہ صورت حال کا بہترین حل تلاش کرنے کے
لیے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے نواز شریف، اسفندیار ولی، مولانا فضل الرحمان،
منور حسن، چوہدری شجاعت، الطاف حسین، عمران خان، آفتاب احمد خان شیر پاؤ،
منیر خان اورکزئی، سلیم سیف اللہ، مولانا انس نورانی اور شیخ رشید احمد سے
ٹیلیفونک رابطے کئے ہیں۔ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پاکستان کی وزیر
خارجہ جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان کی
نمائندگی کر رہی تھیں ، کو وطن واپس بلا لیا ہے۔ ہمارے خیال میں وزیر اعظم
کا یہ اقدام امریکہ بہادر کے لیے مزید ہزیمت کا باعث بنے گا اور امریکہ
بہادر کو پے درپے شکست ہوگی۔ |