حقانی نیٹ ورک پر نائن الیون کے
اثرات
یا
حقانی نیٹ ورک و امریکہ کی دوستی اور دشمنی
ساجد حسین کا تعلق پاک افغان بارڈر سے متصل فاٹا کے علاقے کرم ایجنسی سے ہے،
اور وہ وہاں ہونے والے واقعات و تبدیلیوں پر نظر رکھتے ہیں۔
نائن الیون کے واقعے یا ڈرامے نے جہاں ایک طرف پوری دنیا کے سیاسی و
سٹرٹیجک حالت پر اثر ڈالا تو ساتھ ہی پاک افغان سرحدی خطے و قبائلی علاقوں
کے حالات پر ذیادہ اثر ڈالاہے۔ نائن الیون سے پہلے جو دوست تھے وہ اب نائن
الیون کے بعد دشمن بننے لگیں ہیں یا پھر دنیا کی نظروں میں دھول جھونکا جا
رہا ہے، جس کی واضح مثال حقانی نیٹ ورک کی دی جاسکتی ہے۔سن اسی کی دہائی
میں امریکی سی آئی اے اور ضیا حکومت کی طرف سے شروع کرنے والے سی آئی اے کے
افغان جہاد میں حقانی نیٹ ورک اور اس کا سربراہ جلال الدین حقانی امریکہ کا
منظور نظر رہا ہے۔ پاکستان میں کلاشنکوف و ہیروئین کلچرکے ساتھ ساتھ مذہبی
و لسانی منافرت کا بیج بونے والے ضیا نے امریکہ کے کہنے پر حقانی نیٹ ورک
اور اس کے افغان نژاد صوبہ خوست کے باشندے جلال الدین حقانی کو سرکاری
سرپرستی میں زمینیں اورخاندان و قبیلے بھر کے لئے شہریت دے کر شمالی
وزیرستان میں آباد کردیا۔اس وقت جب حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین
حقانی اپنے آقا امریکہ و واشنگٹن کا دورہ کرتےتو امریکی صدور و دیگر اعلٰی
حکام ان کا پرتپاک و وی آئی پی پروٹوکول دے کر استقبال کرکے جلال الدین
حقانی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فخریہ انداز میں داد دیتے کہ جلال الدین
حقانی دنیا اور خطے کا سب سے بڑا جنگجو و حریت پسند ہے۔
امریکہ میں نائن الیون کے واقعے یا ڈرامے کے بعد شروع ہونے والے دہشت گردی
کے خلاف نام نہاد جنگ کی آڑ میں جو علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا، وہ
افغانستان پر امریکی حملے و جارحیت کے بعد پاک افغان بارڈر پر واقع قبائلی
علاقہ جات یا فاٹا ہی ہے۔جو نائن الیون کے بعد پوری دنیا کی توجہ کا مرکز
بن گیا۔ اگر دیکھا جائے تو نائن الیون کے دس سال گزرنے کے باوجود بھی
انسداد دہشت گردی کے نام پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جو جنگ پاک افغان
بارڈر پر شروع کی ہے اسمیں امریکی حکمرانوں نے فائدہ ہی فائدہ اٹھایا
ہے،القاعدہ و طالبان امریکہ کے لئے ہر دور میں الفائدہ کا کردار ادا کر رہی
ہیں،کیونکہ جب تک القاعدہ و طالبان کی دہشت کا فرضی غبارہ و دہشت گردی جاری
رہی گی،یہی دہشت گردی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے قبضے و جارحیت کا
جواز مہیا کرتے ہوئے قدرتی وسائل پر قابض امریکہ کے لئے الفائدہ کا کردار
ادا کرتا رہے گا۔اس بات کا برملا اظہار امریکی حکام بشمول ہیلری کلنٹن کر
چکے ہیں،کہ القاعدہ و طالبان کا جہاد و بربریت کو امریکہ نے سعودی عرب اور
پاکستان کی مدد سےاپنے مفادات کے لئے بنایا تھا۔اگر حقائق کا جائزہ لے کر
دیکھا جائے تو اب بھی القاعدہ و طالبان امریکی مفادات کے حصول کے لئے کام
کر رہے ہیں ،جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش دوسری
مرتبہ امریکی صدارات کے انتخابی معرکے میں امریکی عوام میں غیر مقبول ہونے
کی وجہ سے ہارنے والے تھے جب انتخابی معرکے کے آخر میں اس وقت القائدہ کے
سربراہ اسامہ بن لادن نے ایک پیغام ٹیپ نشر کرکے امریکی عوام کو دھمکی دی
کہ وہ یعنی القائدہ امریکہ پر ایک اور نائن الیون کرنے جا رہے ہیں،جارج
ڈبلیو بش نے اسامہ کے اس ٹیپ کو بہانہ بناکر امریکی عوام کو ایک بار پھر بے
وقوف بنایا کہ اگر جارج ڈبلیو بش صدر نہ بنے تو گویا اسامہ اور القاعدہ
امریکہ کو کھا کرتباہ و برباد کر دیں گے۔ مبصرین کے مطابق دوسری بار جارج
ڈبلیو بش کی کامیابی جارج بش اور امریکہ کے لئے القائدہ کے سربراہ اسامہ کے
ویڈیو ٹیپ کا ہی کمال تھا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس زمانے میں امریکہ
کے اشارے پر اسرائیل نے لبنان و فلسطین اور عربوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈال
کر حملے و جارحیت شروع کی تھی، لیکن عرب شہری ہونے کے باوجود اسامہ نے
لبنان و فلسطین پر اسرائیل کی جارحیت کی مزمت میں نہ ہی کوئی ٹیپ شائع کی
اور نہ ہی جہاد فلسطین میں حصہ لینے یا القاعدہ کو ایسا کرنے کا حکم دیا،جو
امریکہ و اسرائیل نوازی کی واضح دلیل ہے۔
امریکہ کے موجودہ صدر اوباما جو تبدیلی کے نام پر برسراقتدار آکر امریکہ کے
عوام کو عراق اور افغانستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے
خاتمے کی نوید سنا کرصدربنے تھے،ایک بار پھر جارج بش کی طرح مصبیت میں پھنس
چکےتھے،کیونکہ آنے والے سال کے صدارتی اتخابات سے پہلے مختلف سروے رپورٹوں
کی روشنی میں صدر اوبامہ کی عوامی مقبولیت میں انتہائی کمی آئی ہیں۔لیکن
نائن الیون کے دس سال گزرنے کے بعد صدر اوبامہ نے اپنے پیش رو جارج ڈبلیو
بش کی طرح ایک بار پھر القائدہ کے سربراہ اسامہ بن لادان کو الفائدہ بناتے
ہوئے ملٹری اکیڈمی کاکول کے عقب میں ایبٹ آباد آپریشن اور ڈرامے کی آڑ میں
ایک بار پھر دنیا بالخصوص امریکہ کے عوام کے آنکھوں میں دھول جھونک کر
۔۔۔۔زندہ ہاتھی لاکھ کا اور مردہ سوا لاکھ کا۔۔۔۔۔۔کےمصداق ایک تیر سے دو
شکار کرکے نہ صرف آنے والے امریکی انتخابات میں اپنی کامیابی کی راہ ہموار
کرنے کی کوشش کی بلکہ پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرکے ایٹمی اثاثوں اور
پاکستان کی سا لمیت پر کاری ضرب لگانے کی بھرپور کوشش کی۔اور اب پاکستان کا
حقانی نیٹ ورک سے رابطوں کی آڑ میں ایک نئی لہر شروع کردی ہیں۔ اگر ہمارے
حکمران امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو امریکی حکومت اور سعودی سفیر کی مداخلت
سے رہا کرنے کی بجائے کڑی سزا دیتے تویقین جانئے ایبٹ آباد کا ڈرامہ ہی نہ
ہوتا اور نہ ہی حقانی نیٹ ورک کی زرپرستی و الزامات ،کیونکہ ایک
استعمارشناس عظیم شخصیت کے مطابق امریکہ کی مثال اس کتے کی سی ہے کہ اگر اس
سے ڈر کر بھاگا جائے تو تمہارے پیچھے بھاگ کر تمہیں ڈراتا رہے گا لیکن
اگرکھڑے ہو کر پتھر اٹھا کر کتے کی طرف پھینکا جائے تو یہ کتا تم سے ڈر کر
بھاگے گا۔
نائن الیون سے پہلے ہو یا بعد پاکستان کا قبائلی علاقہ فاٹا اور اس کی لگ
بھگ سات ملین آباد ی جو بغیر معاوضے کے اس ملک کے سپاہیوں کا کردار ادا
کرتے ہیں،اپنی جغرافیائی خدوخال اوربین الاقوامی سٹرٹیجک اہمیت کے پیش نظر
مسلسل امتحانات و مصائب کا شکار ہیں۔ ایک طرف اگر فاٹا سے متصل افغانستان
میں بین الاقوامی قابض قوتوں چاہے روس ہو یا امریکہ سے اس علاقے کے حالات
پراثر پڑتا ہے، تو دوسری طرف اپنے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر بین
الاقوامی قوتوں کو نکالنے کے لئے بنائے جانے والے مختلف تنظیموں اور نام
نہاد جہادی لشکروں کے ظلم و جبر کا نشانہ بھی فاٹا کے عوام ہی بنتے ہیں۔
چاہے وہ سن اسی کی دہائی میں افغانستان پر قابض روس کے خلاف امریکی سی آئی
اے اور ضیاءحکومت کے گٹھ جوڑ پر مبنی نام نہاد مجاہدین و عرب جنگجو ہو یا
پھر افغانستان سے روس کے انخلاءکے بعد سٹرٹیجک گیپ یا خلا پر کرنے کے بہانے
نصیر اﷲ بابر کے بنائے جانے والے طالبان یا پھر نائن الیون اور دہشت گردی
کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کے بہانے انہی مجاہدین اور طالبان کا اکٹھ
القاعدہ و طالبان کی نئی یلغار ہو،بیچارے فاٹا کے عوام ہی ظلم و جبر کا
نشانہ اور قربانی کا بکرا بنے ہوئے ہیں۔
جس طرح فاٹا سے متصل افغانستان میں امریکہ و نیٹو طالبان کے خاتمے اور دہشت
گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کے بہانے وہاں کئی سالوں سے براجمان ہے،
اسی طرح کا کھیل عسکریت پسندی اور طالبان کے نام پر فاٹا میں بھی جاری و
ساری ہے،اور ان دونوں ڈراموں کا آپس میں گہرا ربط ہے۔ افغانستان میں حقائق
پر مبنی بعض رپورٹوں کے مطابق اگر امریکہ و نیٹو افواج کسی ایک علاقے یا
شہر میں طالبان کو مار کر یا طالبان کے خلاف آپریشن کرکے بین الاقوامی سطح
پر میڈیا میں اور امریکی عوام کو طالبان دشمنی دکھاتی ہے، تو دوسری طرف
دوسرے علاقے یا شہر میں یہی امریکہ و نیٹو طالبان کو اسلحہ گولہ بارود و
ڈالرز دے کر شورش و دہشت گردی شروع کرواتی ہے،تاکہ طالبان دہشت گروں کے
خاتمے کے بہانے افغانستان پر قبضے کا جواز موجود رہے۔ اگر امریکہ و نیٹو
حقیقی معنوں میں دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے تو یہ چند ہفتوں یا مہینوں کا
کام تھا، لیکن ایک لمحہ کے لئے آپ سوچ لیں ،کہ اگر افغانستان سے طالبان کا
خاتمہ ہو جاتا تو افغان عوام امریکہ و نیٹو کو افغانستان سے نکلنے کا
کہتے،لیکن اپنے مفادات کا حصول کئیے بغیر امریکہ کب یہ چاہتاہے۔بالکل اسی
طرح افغانستان سے متصل فاٹا میں بھی نائن الیون اور دہشت گردی کے خلاف نام
نہاد امریکی جنگ کی پارٹنر اشرفیہ بالخصوص سول و ملٹری بیوروکریسی یہی کھیل
کھیل کر فاٹا کے عوام کے مصائب و مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔دہشت گرد
طالبان کا خاتمہ کرنے کی بجائے افغانستان کی طرح انہیں ایک علاقے سے دوسرے
علاقے میں منتقل کرکے فاٹا کے تمام علاقوں کو یکے بعد دیگرے متاثر کر رہی
ہے۔یقین جانیئے اگر سنجیدگی و خلوص سے فاٹا سے دہشت گردی و طالبانائزیشن کا
خاتمہ مقصود ہو تو یہ ہمارے ملکی سلامتی کے اداروں کے لئے چند مہینوں بلکہ
چند ہفتوں کا کام ہے،لیکن اگر فاٹا سے عسکریت پسندی دہشت گردی و
طالبانائزیشن کا خاتمہ ہو جائے تو پھر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی
جنگ کی پارٹنر اشرفیہ بالخصوص سول و ملٹری بیوروکریسی کی عیاشیوں اور
مراعات کا کیا ہوگا۔جو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کے نام پر
کروڑوں ڈالرز کی شکل میں مل کر اشرفیہ کی جیبیں بھرنے اور عیاشیوں کا سبب
بن رہی ہے۔
یوں تو د دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ اور نائن الیون کی وجہ سے
پورا فاٹا متاثر ہوا لیکن سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ارض پاکستان
کا جنت نظیر اور انتہائی اہم سٹرٹیجک و جغرافیائی اہمیت کا حامل پاراچنار
جو افغانستان کے چار صوبوں (ننگرہار، خوست، پکتیا و پکتیکا) کے علاوہ دیگر
تین قبائل علاقوں خیبراورکزئی اور وزیرستان کے ساتھ ساتھ ضلع ہنگو سے بھی
متصل ہے۔ کئی دہائیوں سے یہ علاقہ اپنی جغرافیائی اہمیت و سٹرٹیجک خدوخال
کی وجہ سے بین الاقوامی اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشمکش کی وجہ سے
میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ افغانستان کی مشہور تورا بورا پہاڑی سلسلے جس کا ایک
حصہ صوبہ ننگر ہار اور دوسرا حصہ پاراچنار کے مضافاتی گاﺅں شلوزان، زیڑان و
کڑمان میں واقع مشہور سین غر پہاڑی سلسلے کوہ سفید سے ملنے کے علاوہ
افغانستان کا دارالحکومت کابل تمام قبائلی علاقوں میں پاراچنار کرم ایجنسی
سے نزدیک ترین و کم فاصلے پر واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سٹرٹیجک
اہمیت کے اصطلاحات میں کرم ایجنسی کے صدر مقام پاراچنار کو طوطے کی چونچ
"Parrots Beak" کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ دراصل کرم ایجنسی کے عوام پرظلم و
جبر اور ریاستی سرپرستی میں سوتیلی ماں جیسا سلوک جنرل ضیاءکے دور میں شروع
ہوا۔ جب سن اسی کی دہائی میں امریکی سی آئی اے اور ضیاءحکومت کے گٹھ جوڑ سے
دنیا بھر بالخصوص عرب ممالک و وسطیٰ ایشیائی ممالک سے شدت پسندوں کو
مجاہدین کے عنوان سے اس علاقے میں لایا گیا۔ اس لیے امریکی سی آئی اے اور
ضیاءکے گٹھ جوڑ پر مبنی منصوبے کے تحت افغانستان سے روس کی شکست کے لیے کرم
ایجنسی کے علاقے صدہ کو مرکزکے طور پر استعمال کر کے ایک تیر سے دو شکار
کیے۔
ایک طرف کرم ایجنسی کے علاقے صدہ جو کہ طوری و بنگش قبائل کی ملکیت تھا اور
اب تک کاغذات مال
میں صدہ کی اکثر مارکیٹیں اور زمینیں طوری و بنگش قبائل کی ملکیت ہیں۔
امریکی سی آئی اے کے جہادیوں عبدالرسول سیاف، اسامہ بن لادن اور گلبدین
سمیت جلال الدین حقانی کوشمالی وزیرستان سے صدہ میں بسا کر جنوبی افغانستان
سے آنے والے افغان مہاجرین کی مدد سے طوری و بنگش قبائل کا قتل عام کر کے
ان کی املاک حتی کہ مساجد کو ڈائنا مائیٹ سے شہید کر کے باقی ماندہ طوری و
بنگش قبائل کو صدہ سے جبری بے دخل کر دیا۔ جو آج تک اپنے ہی ملک میں مہاجر
بن کر پاراچنار اور دیگر شہروں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔علاوہ
ازیں ستم بالائے ستم یہ کہ اس زمانے میں ایک بہت بڑے رقبے و آبادی کا حامل
نیم قبائلی علاقہ علاقہ غیر ”ایف آر اورکزئی“ علاقے کو کرم ایجنسی میں اس
لیے شامل کیا گیا تاکہ کرم ایجنسی میں آباد ی کا تناسب تبدیل کیا جا سکے۔
ساتھ ہی ساتھ افغانستان سے آنے والے افغان مہاجرین کو سرکاری سرپرستی میں
شناختی کارڈ و پاسپورٹ جاری کیے گئے اور یوں ایف آر علاقے کے غیرقانونی
شامل ہونے کے ساتھ ساتھ افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے سے کرم
ایجنسی کے وسائل ترقیاتی کاموں اور تعلیمی اداروں میں کوٹے و مخصوص نشستوں
کی بندربانٹ کی گئی۔ یاد رہے کہ نائن الیون کے بعد اس نیم قبائلی علاقہ
علاقہ غیر ”ایف آر“ کو سنٹرل یا وسطی کرم کا غیر منطقی نام دیا گیا۔
قائداعظم نے کرم ایجنسی کے قبائل طوری و بنگش قبائل کے ساتھ وعدہ کیا تھا
کہ کرم ایجنسی کی حفاظت کے لیے انہی قبائل پر مشتمل کرم ملیشیاءایف سی فورس
یہاں مقیم ہو گی۔ مزید ظلم یہ کہ ضیاءنے قائداعظم کے وعدے کو توڑتے ہوئے
طوری یا کرم ملیشیاءکو وزیرستان و باجوڑ بھیجوا دیا اور وہاں سے القاعدہ و
طالبان نواز اقوام پر مشتمل ایف سی کو کرم ایجنسی میں تعینات کر کے ریاستی
دہشت گردی کی راہ ہموار کر دی۔ 80ءکی دہائی بالخصوص 1984ءاور 1987ءمیں
امریکی سی آئی اے کے پارٹنر ضیاءنے صدہ کی طرح پاراچنار کو بھی طوری بنگش
قبائل سے خالی کر کے امریکی سی آئی اے کے جہادیوں کے حوالے کرنے کے لیے کئی
بار جہادیوں اور افغان مہاجرین کی مدد سے لشکر کشیاں کیں لیکن یہاں کے غیور
و بہادر طوری بنگش قبائل نے سینکڑوں جانوں کے نذرانے دے کر ضیاءحکومت اور
امریکی سی آئی اے کے ان ناپاک عزائم کو ناکام بنا دیا۔ حتیٰ کہ 1987ءکی جنگ
میں ضیاءنے پاراچنار کے ممکنہ بے دخل لوگوں طوری بنگش قبائل کے لیے
میانوالی و بھکر میں مہاجر کیمپ تک بنائے تھے لیکن واقعی ”جسے اللہ رکھے
اسے کون چکھے“ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے کہ مصداق پاراچنار کے طوری
بنگش قبائل تو مہاجر نہیں بنے لیکن ضیاءاپنے جرنیلوں اور امریکی ساتھیوں
سمیت 17 اگست 1988ءکو اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اس کےبعد بھی ضیاءکی باقیات
اسٹیبلیشمنٹ نے پاراچنار دشمنی جاری رکھی اور ستمبر 1996ءمیں پاراچنار میں
فساد شروع کرکے جنگ روکنے کے بہانے سینکڑوں گاڑیوں میں سیکورٹی فورسز کو
اسلحہ سمیت پاراچنار کے راستے افغانستان بھیج کر ایک ہفتے بعد پورے
افغانستان بشمول کابل پر طالبان حکومت قائم کرنے کا اعلان کر کے ایک بار
پھر پاراچنار کو اپنے مفادات کا ایندھن بنایا گیا۔ نائن الیون اور دہشت
گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے بعد افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد ایک بار
پھر پاراچنار کو اپنے مقاصد اور یہاں کے عوام کو قربانی کا بکرا بنانے کا
منصوبہ بنایا گیا، ضیاءدور کی طرح ایک تیر سے دو شکار ایک طرف تو اپنے
مفادات حاصل ہو جائیں اور دوسری طرف پاراچنار سے صدہ کی طرح طوری بنگش
قبائل کا صفایا کر کے یہ علاقہ القاعدہ و طالبان اور دہشت گرد کالعدم
تنظیموں کے حوالے کر کے افغانستان میں طالبان کے خود ساختہ نظام کی طرح
فاٹا میں اور پھر پورے ملک میں نام نہاد ”امارات اسلامی“یا امریکی اسلام
قائم کیا جائے۔ اپریل 2007ءمیں ملک بھر بالخصوص فاٹا و جنوبی پنجاب سے
کالعدم تنظیموں القاعدہ نواز طالبان، سپاہ صحابہ و لشکر جھنگوی کے ذریعے
پاراچنار پر یلغار و لشکر کشی کر کے حملے ہوئے لیکن جب پاراچنار کے غیور و
بہادر عوام نے مزاحمت و دفاع کر کے میدان جنگ میںدہشت گردوں کو شکست دی تو
پھر 2007ءمیں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلط محاصرے کی طرح اسرائیل و بلیک
واٹر کے ایجنٹ طالبان نے ٹل پاراچنار روڈ کی بندش و ناکہ بندی کی صورت میں
محاصرہ و اقتصادی ناکہ بندی جیسے غیر انسانی و غیر اخلاقی ہتھکنڈے شروع
کیے،جو اب تک جاری و ساری ہیں۔بربریت کی انتہا کرتے ہوئے مختلف طالبان
گروپوں بشمول حقانی نیٹ ورک نے بچوں و خواتیں حتیٰ کہ ایمبولینس تک کو
نشانہ بنایا۔طالبان نواز ایف سی کی موجودگی میں پاراچنار کے نہتے مسافروں
کو بارہا سرکاری سرپرستی میں چلنے والے کانوائیوں سے اتار کر ٹکڑے ٹکڑے
کرکے لاشوں کی بے حرمتی کرکے آگ لگا کر رقص ابلیس کرکے شیطانی شاباش حاصل
کی گئی،اور جب بھی طالبان یہ سب کچھ کر رہے تھے تو اس وقت حفاظت پر مامور
ایف سی اور ان کے اعلٰی افسران نہ صرف خاموش تماشائی کی طرح نظارہ کر رہے
تھے بلکہ دہشت گردوں کی طرف سے لگائے جانے والے نعرہ تکبیر کے جواب بھی دے
رہے تھے۔جس کی ویڈیوز تک منظر عام پر آچکی ہیں۔تمام قبائلی علاقوں ،جنوبی
پنجاب اور افغانستان کے طالبان لشکروں کے حملے اور لشکر کشیوں کے باوجود
طالبان جب پاراچنار کے بہادر و دفاع کرنے والے طوری بنگش قبائل کا میدان
جنگ میں مقابلہ نہ کر سکیں،تو پھر بزدلوں کی طرح غیر انسانی اقدامات جیسے
پاراچنار سے باہر نہتے مسافروں حتی کہ عورتوں و بچوں تک کو بے دردی سے قتل
کرنا جیسے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے،جو نہ صرف اسلام اور دنیا بھر میں
رائج جنگی اصولوں بلکہ صدیوں سے رائج قبائلی روایات کے بھی خلاف ہیں۔ تادم
تحریر اپریل 2007 ءسے اب تک 1500 سے زائد افراد قتل اور ہزاروں زخمی ہو چکے
ہیں،طالبان کی مظالم کی وجہ سے اپر کرم و لوئر کرم سے ہزاروں لوگ نقل مکانی
کر چکے ہیں۔ لیکن پاراچنار کے عوام کے حوصلے اب بھی بلند ہیں۔ صرف پاراچنار
کے محب وطن طوری بنگش قبائل کا ایک سوال یہ ہے، کہ ٹل پاراچنارروڈ طوری
بنگش قبائل کے لیے بند جبکہ طالبان، فوج و ایف سی کے لیے کھلی کیوں؟؟؟نائن
الیون کے بعدفاٹا کی تباہی اور اشرفیہ کی عیاشی کا اس سے بڑھ کر اور کیا
ثبوت ہوگا کہ ٹل پاراچنار روڈ بندش کے بہانے اشرفیہ سول و ملٹری بیوروکریسی
نے اپنے لئے کمائی کا ایک ذریعہ بنایا ہواہے، روڈ کھلنے کی صورت میں پشاور
تا پاراچنار آرام دہ ہائی ایس گاڑی میں فی مسافر جو ڈیڑھ سو کرایہ لیا جاتا
تھا۔اب سرکاری کانوائی میں پشاور تا پاراچناریا پھر لوئر کرم علی زئی تا ٹل
چند کلومیٹر ایف سی کی بڑی بڑی کھلی ٹرکوں میں مسافروں کو جانوروں کی طرح
بٹھا کر فی مسافر پندرہ سو روپے کرایہ اور اسی طرح عوام کے لئے اشیائے
خوردونوش پہنچانے والے ٹرالر سے لوئر کرم چھپری چیک پوسٹ کے مقام پر فی
ٹرالر چالیس ہزار روپے بھتہ وصول کرکے یہ رقم سول و ملٹری بیوروکریسی اور
لوئر کرم میں موجود فضل سعید حقانی طالبان کمانڈر آپسمیں بانٹ دیتے ہیں۔یہ
نائن الیون فاٹا کی تباہی اور اشرفیہ کی عیاشی نہیں تو اور کیا ہے، کوئی ہے
جو اس ظلم پر بھی آواز اٹھائے۔۔۔
چھ ماہ پہلے مارچ کے مہینے میں طالبان کے ہاتھوں بگن لوئر کرم سے فضل سعید
حقانی طالبان کمانڈر کے ہاتھوں اغواءافراد میں سے کچھ مسافر اب تک لاپتہ
ہیں؟؟جن کے حوالے سے نہ صرف حکومتی حکام خاموش ہیں،بلکہ سول سوسائٹی نے بھی
مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔صومالیہ میں بحری قزاقوں کے ہاتھوں اغوا
چند پاکستانیوں کی رہائی کے لیئے دن رات ایک کرکے گھنٹوں کوریج دینے والی
سول سوسائٹی اور شہر شہر گھومنے والے انسانی حقوق کی تنظیمیں طالبان کے
ہاتھوں اغواء افراد میں سے اب تک لاپتہ پاراچناری مسافروں کے حوالے سے
زبانوں پر تالے لگائے ہوئے ہیں۔۔۔ازخود نوٹس لینے والی اعلی عدلیہ بھی
خاموش ؟ شاید پاراچنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کا جرم یہی ہے کہ
پاکستان بننے سے پہلے ان کے قبائلی عمائدین نے دہلی جاکر قائد اعظم کو
پاکستان بنانے کے لئیے ہر ممکن تعاون کے علاوہ قیام پاکستان سے لے کر
استحکام پاکستان سن ئ71, 65 ، کارگل اور آج تک قربانیاں دے کر خون کے
نذرانے دئیے ہیں۔۔پاراچنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل پاکستان سے محبت
کرکے آج تک پاراچنار کے سرکاری و غیر سرکاری سکولوں میں پاکستان کے ترانے
پڑھتے ہیں۔آج تک پاراچنار میں فوج و ایف سی ، پاراچنار کے محب وطن طوری و
بنگش قبائل کی وجہ سے محفوظ ہیں جن پر کوئی خودکش حملہ تو دور کی بات حتی
کہ فوج و ایف سی پاراچنار بازار میں بغیر ہتھیار کے گھوم پھر سکتی ہے۔۔شاید
یہی وجہ ہے کہ پاراچنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کے ساتھ سوتیلی ماں
جیسا سلوک اور ریاستی سرپرستی میں ظلم و جبر روا رکھ کر دیوار سے لگایا
جارہاہے،کہ انہوں نے ملک میں خودکش حملے ،جی ایچ کیو اور پی این ایس مہران
پر حملوں میں حصہ نہیں لیا۔۔جب کہ ملک کے دیگر علاقوں اور قبائلی علاقوں
میں آئے روز افواج پاکستان کے ساتھ لڑائی کو جہاد قرار دے کر خودکش حملے
کئیے جاتے ہیں،بغاوت پر مبنی آزادی کے ترانے گائے جاتے ہیں،ان علاقوں کے
لئیے ارباب اختیار نہ صر ف ترقیاتی پیکج کا اعلان کر رہے ہیں۔بلکہ دہشت
گردوں کو عبرت ناک سزا دینے کی بجائے وی آئی پی پروٹوکول دے رہے ہیں۔۔۔۔ اس
سے ملک میں دہشت گردی خاک ختم ہوگی۔۔۔اب بھی وقت ہے اسلام آباد اور
روالپنڈی کے ایوان اقتدار میں بیٹھنے والے حکمرانوں کے ساتھ کہ وہ فاٹا
بالخصوص پاراچنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا
سلوک اور ریاستی دہشت گردی اورر دیوار سے لگانے کی پالیسی ترک کرکے چارسالہ
غیر انسانی محاصرہ ہٹا کر ٹل پاراچنار روڈ کھول کر متعصب ایف سی کی بجائے
پاک فوج یا کرم ملیشیاء کی نگرانی میں حقیقی معنوں میں ٹل پاراچنار روڈ
محفوظ بناکر پاراچنار پر لشکر کشی کرنے والے طالبان اور ایک درجن سے زیادہ
مرتبہ مری معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے شرپسندوں کو سزا دی جائے ۔وگرنہ
یاد رکھیں کہ مظلوموں کی آواز براہ راست عرش الہی تک پہنچتی ہے اور ”خدا کے
ہاں دیر ہے اندھیر نہیں“ ۔ نائن الیون اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ
میں فاٹا بالخصوص پاراچنار کی تباہی اور چار سالہ غیر انسانی محاصرے کو
سرفراز نے ایک شعر میں کیا خوب بیان کیاہے کہ
شعب ابی طالب، غزہ یا کربلا کہوں!
اے پاراچنار تو ہی بتا تجھے میں کیا کیا کہوں!
(شکریہ، ختم شد) |