امریکہ نے 9/11 حملوں کا قصور
وار اسامہ بن لادن کوٹھہرا کر افغانستان پراپنا قبضہ جما یا تھا۔ دنیا
اسامہ بن لادن کو سی آئی اے سے رابطے رکھنے اور روس کے خلاف افغان جہاد میں
اہم کردار ادا کرنے کے حوالے سے پہلے سے ہی جانتی تھی۔ مگر اس کی القاعدہ
سے کوئی واقف نہ تھا۔ 9/11کے واقعہ کے بعد دنیا کوصدر بش کی زبانی القاعدہ
کے وجود کا علم ہوا۔ اسامہ کی طرح القاعدہ بھی سی آئی اے کے ذہن کی پیداوار
تھی جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ ”دہشت گردی“ کے خلاف ایک جنگ برپا کرکے
افغانستان پر قبضہ جمانا چاہتا تھا تاکہ خطے میں روس کے ساتھ ساتھ چین،
ایران اور خاص طور پر ایٹمی پاکستان کی قوت کو ختم کرسکے۔ روس کی شکست کے
بعد امریکہ کو زعم تھا کہ وہ افغانستان پر آسانی سے قبضہ حاصل کرکے اپنے
فوجی اڈوں کو وسعت دے گا تاکہ اپنے اقتصادی مفادات اور توسیع پسندانہ عزائم
کی تکمیل کےلئے اس کی یہ قوت ایک تلوار کی طرح خطے پر منڈلاتی رہے گی۔اس کی
افغانستان پر قبضہ حاصل کرنے کی پلاننگ کامیاب رہی۔اس وقت کے پاکستانی
حکمرانوں نے پتھر کے زمانے میں بھیجنے کی امریکی دھمکی کے سامنے گھٹنے ٹیک
دیئے اور امریکہ کا اتحادی بننے میں ہی عافیت سمجھی۔ انہوں نے یہ تک نہ
سوچا کہ افغانستان پر امریکی حملے کے پاکستان کی سالمیت، دفاع اور معیشت
پرکس قدر منفی اثرات مرتب کرے گی ۔اس امر پر کسی نے غور نہ کیا کہ طالبان
جو پاکستان کواپنا سب سے بڑا ساتھی خیال کرتے ہیں ان کاردعمل کیا ہوگا اور
یہ کہ امریکی افواج کے قبضے کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کیا
صورتحال ہوگی۔
امریکہ کو افغانستان پر قبضہ جمانے کے چند ماہ بعد ہی حقیقت کا اندازہ
ہوگیاکہ اس نے روس کی طرح افواج اتارتو دیں مگر اسے قبضے کو برقرار رکھنے
کے لئے بہت سے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ اس نے نیٹو اور ایساف کی مدد سے مقامی
طالبان کو دبانے کی کوشش کی۔ شروع میں انہیں بہت سی کامیابیاں ملیں۔ امریکی
اور مغربی میڈیا کے بقول تو طالبان ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور اتحادی
افواج نے بہت سے افغان صوبوں پر کنٹرول سنبھال لیا۔ امریکہ نے بہت سے
طالبان لیڈر گرفتار کئے۔ متعدد کو قتل کردیا۔ طالبان کے مشتبہ ٹھکانوں پر
بی 52بمبار طیاروں سے شدید قسم کی کارپٹڈ بمباری کی گئی۔ امریکی فضائیہ نے
تورابورا کے پہاڑوں پر لاکھوں من بارود پھینکا۔ اسی طرح کی بمباری اور
واقعات دوسرے صوبوں میں بھی پیش آئے۔ جب امریکہ کی کی اس بات پر خوب تسلی
ہوگئی کہ اس نے صدارتی محل میں کرزئی جیسے شخص کو حکومت کا چوغا پہنا ڈالا۔
کرزئی جیسے اور بہت سے عہدیداروں کو باہر ممالک سے برآمد کرکے وہاں تعینا ت
کیا گیا۔کابل کے اردگرد ابھی امریکی افواج نے اپنے ڈھیرے ڈالے ہی تھے کہ
طالبان کی طرف سے مزاحمت شروع ہوگئی۔ امریکی اور اتحادی افواج جدید ترین
فوجی سازوسامان کے ساتھ اس مذاحمت کے آگے بے بس ہوتی چلی گئیں۔ طالبان کا
کنٹرول دوسرے صوبوں پر پھیلتا چلا گیا۔ وہ اپنے قدم جماتے کابل کی طرف
بڑھتے ہی گئے۔ امریکہ کو ہر روز ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا۔ حتیٰ کہ کابل تک
غیر محفوظ ہوگیا۔ کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت صرف صدارتی محل تک محدود
ہوگئی۔ان پے درپے ناکامیوں اور ہزیمتوں پر امریکہ سٹپٹا گیا اور اس نے اپنے
اتحادی پر ہی الزامات کی بوچھاڑ شروع کردی۔ یہ اتحادی پاکستان تھا۔ جو
افغانستان پر امریکی حملے کے بعد وہاں سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آنے
والے شدت پسندوں کو کنٹرول کرنے میں پہلے ہی سے جتا ہوا تھا۔ یہ دہشت گرد
افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ افواج پاکستان نے وہاں ان دہشت
گردوں کے خلاف کاروائی شروع کی۔ امریکہ نے بھی پاکستان کے اندر ڈرون حملے
شروع کردیئے اس طرح ردعمل کے طور پر پورا پاکستان بھی اس جنگ کی لپیٹ میں
آگیا۔ دہشت گردی اور خود کش حملوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع
ہوگیا۔ سیکورٹی فورسز پر حملے ہونے لگے۔ اس کے باوجود پاکستان نے امریکہ سے
تعاون جاری رکھا۔ طالبان کے حملوں کی بدولت امریکہ کے افغانستان سے قدم
اکھڑنے لگے تو اس نے پاکستان پر الزام لگانا شروع کردیا کہ وہ دہشت گردوں
کی حمایت کررہا ہے۔ جبکہ پاکستان کے کئی ہزار شہری اورفوجی اس جنگ میں اپنی
جان کی قربانی دے چکے تھے۔ حالات کشیدہ ہوتے چلے گئے۔ امریکہ پاکستان پر
دباﺅ بڑھاتا رہا۔ کابل میں جب بھی افغانستان میں کوئی واقعہ رونما ہوتا
امریکہ اس کے ڈانڈے پاکستان کے ساتھ جوڑنا شروع کردیتا۔ اس دوران بھارت نے
بھی افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا۔
کرزئی حکومت کو پاکستان کے خلاف اکسایا ۔ اس طرح یہ جنگ پاکستان کے گلے میں
پھنسی ہڈی کی شکل اختیار کرگئی۔ واشنگٹن میں قیادت کی تبدیلی اور اسلام
آباد میں جمہوریت کی آمد بھی افغان پالیسی اور حالات میں تبدیلی نہ لاسکے۔
اوبامہ نے بش کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھا اور ہمارے سیاسی حکمرانوں نے
بھی مشرف کی طرح امریکی مطالبات کے آگے سرتسلیم خم کئے رکھا۔ اوبامہ نے
پاکستان کی سالمیت کو پارہ پارہ کرکے ایبٹ آباد میں اسامہ ”پکڑ“ کر امریکی
عوام کو خوشخبری سنائی کہ اب القاعدہ اور طالبان کو شکست دی جاچکی ہے۔ مگر
اس آپریشن میں حصہ لینے والے امریکی کمانڈوز ”سیلز“ ایک فوجی ہیلی کاپٹر
میں ہلاک کردیئے گئے۔ اگر ہیلی کاپٹر کی تباہی کے پیچھے طالبان کا ہاتھ تھا
تواس نے امریکہ کی کامیابیوں کے دعوے کو خام کردیا۔ بعض تجزیہ نگاروں نے تو
یہ بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سی آئی اے نے اسامہ ہنٹ آپریشن کے حقائق چھپانے
کے لئے خود ہی ان سیلز کو ہمیشہ ہمیشہ خاموش کرا دیا ہے۔ وگرنہ چند سال بعد
کوئی نہ کوئی سپاہی نیشنل جیوگرافک یا پھر ڈسکوری چینل پر اس واقعہ کی
حقیقت کھول دیتا اور امریکہ کو پھرایک نئی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا۔
بہرحال جو امریکہ اسامہ کو’انجام ‘ تک پہنچانے کے بعد افغانستان سے کامیاب
ہوکر نکلنا چاہتا تھا اب اس کا وقت گزر چکا ہے۔ کابل میں ہونے والے
برطانوی، امریکی اور نیٹو دفاتر اور تنصیبات پر ہونے والے حالیہ حملوں نے
امریکی اور اتحادی افواج کی ’کامیابیوں‘ کا پول کھول دیا ہے۔ اپنی اس ہزیمت
سے بچنے کا واحد حل پاکستان پر اس پر ملبہ ڈال دینا ہے۔ یہی کچھ اب ہورہا
ہے۔ اب امریکہ کو اسامہ تو نہ ملا ہاں البتہ حقانی نیٹ ورک جس کے ساتھ خود
امریکی سی آئی اے کے تعلقات رہے ہیں کو جواز بنا کر پاکستان پر حملے کی
دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ امریکی سیاسی، عسکری اور سفارتی عہدیدار پاکستان پر
دباﺅ ڈال رہے ہیں کہ وہ طالبان کو افغانستان میں حملوں سے روکے۔ جبکہ حقیقت
یہ ہے کہ پاکستان خود ان طالبان کی کارروائیوں سے پریشان ہے اور اس کے پانچ
ہزار فوجی اور 35ہزار شہری ان کی کاروائیوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ اسی طرح
افغانستان کے صوبے کنٹر اور نورستان سے طالبان پاکستانی پوسٹوں پر حملہ
کررہے ہیں۔ چترال میں سکاﺅٹس پر ہونے والا حملہ افغانستان سے کیا گیا۔ اس
کے علاوہ بلوچستان میں تخریب کاری کے ڈانڈے بھی افغانستان سے ملتے ہیں۔ اس
کے باوجود امریکہ کی جانب سے الٹا پاکستان کو مورودِ الزام ٹھہرانا سراسر
زیادتی اور احسان فراموشی ہے۔ امریکہ کے پاکستان کے ساتھ طرزِ عمل اور رویے
سے ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان
امریکہ سے دشمنی کا متحمل نہیں ہوسکتا مگر کم از کم اس سے راستے جدا کرنے
کی حکمت عملی تو مرتب کرسکتا ہے۔ یہی وقت ہے امریکہ سے ’نو مور‘ کہہ دیا
جائے اور تمام فیصلے اپنے قومی مفادات اوروقار کو مدنظر رکھتے ہوئے کئے
جائیں۔ |