دال کا شمار قدیم پکوانوں میں ہوتا ہے اور سندھ کے ہزاروں سال قدیم آثار سے بھی مختلف اشیا کے ساتھ برتنوں میں دال کے دانے بھی رکھے ہوئے ملے ہیں۔ برصغیر کے نوابین اور شاہان وقت دال سے تیار کئے ہوئے مختلف کھانوں کو انتہائی ذوق و شوق سے تناول فرماتے تھے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ نے 2016 میں 10 فروری کو "دالوں کے عالمی دن" کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ برطانیہ کی آں جہانی، ملکہ وکٹوریہ کالی مسور کی دال سے شوق فرماتی تھیں اور انہیں اس دال کا سوپ بہت پسند تھا۔ اسی وجہ سے کالے مسور کی دال کو ملکہ مسور بھی کہا جاتا ہے اور اس کے ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے زیادہ تر لوگ اسے کھڑے ہوکر کھاتے ہیں۔ کھڑے ہوکر کھانے کی وجہ سے اس کا نام " کھڑے مسور کی دال" بھی پڑ گیا۔
"اب آپ اپنا قومی ترانہ سنئے، آپ پر لازم ہے کہ اس کےاحترام میں باادب کھڑے ہوجائیں". یہ وہ اعلان تھا جو ربع صدی قبل تک ملک کے تمام سینما گھروں میں فلم شروع ہونے سے پہلے سائونڈ سسٹم اور سربراہان مملکت کے اپنی رعایا سے خطاب سے قبل ریڈیو اور ٹی وی پر نشر کیا جاتا تھا۔ اسے سننے کے بعد تمام فلم بین حضرات و خواتین، اپنی نشستوں سے اٹھ کر بادب کھڑے ہوجاتے تھے لیکن گھروں کا علم نہیں کہ وہاں صدر مملکت کی تقریر سے قبل قومی ترانے کا احترام کیا جاتا تھا یا نہیں؟
. موبائل نیٹ اور کیبل نیٹ ورک کی سہولتوں کی وجہ سے اب ہر گھر، منی سینما گھر بن گیا ہے جہاں زیادہ تر انگریزی یا ہندی فلمیں دیکھی جاتی ہیں اس لئے اب ملک کے 98فی صد سینما گھر شاپنگ پلازہ میں تبدیل ہوگئے ہیں، اس لئے وہاں قومی ترانے کی بجائے انگریزی یا ہندی ساز بجتے ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا میں سے ریڈیو کو دیس نکالا دیا جاچکا ہے، جب کہ ملکی سربراہان "حسب توفیق" میک اپ کروا کر، اب مختلف حیلے بہانوں سے ہر وقت ٹی وی چینلز پر نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیادہ تر چینلز کے اسٹوڈیوز میں قومی ترانے کی ریکارڈنگ موجود نہیں ہے اس لئے وہاں سربراہان کی تقریر چند رسمی کلمات سے شروع ہوکر دشنام طرازیوں پر ختم ہوتی ہے۔ ہم اپنا قومی ترانہ یوم آزادی یا 23 مارچ کی تقریبات میں ہی سن پاتے ہیں۔
بچپن سے ہی حکم راں طبقے کی جانب سے یہ دعویٰ سنتے آرہے ہیں کہ "پاکستان زرعی ملک ہے" لیکن پچپن سال کی عمر گزرنے کے بعد علم ہوا کہ ہماری زرعی مصنوعات سے غیرملکی اقوام کی غذائی کفالت کی جاتی ہے۔ ہمیں اخبارات میں یہ پڑھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ پاکستان جیسے زرعی ملک میں تمام خوردنی اشیا جو اپنے ہی ملک سے برآمد کی جاتی ہیں، کک بیک و کمیشن مافیا کی کرم فرمائیوں کی وجہ سے غیرممالک سے دوبارہ درآمد کرکے پاکستان منگوائی جاتی ہیں۔ آج غربت کی شرح بڑھنے اور ہوش ربا مہنگائی کی وجہ سے ہر شخص کا "غریبی میں آٹا گیلا" ہوگیا ہے اور جب ہم کسی پرچون فروش کی دکان پر خریداری کرنے جاتے ہیں تو "آٹے دال کا بھائو معلوم ہوجاتا ہے
". درآمدی اشیا ویسے ہی بہت مہنگی ہوتی ہیں لیکن مزید مہنگائی کرنے کے لئے ان کی ملک میں مصنوعی قلت بھی پیدا کردی جاتی ہے۔ دیگر خوردنی اشیا کی طرح آ ئندہ چند ہفتوں میں دال بھی مصنوعی قلت کا شکار ہونے والی ہے۔جس کی وجہ سے "قحط الرجال" کی طرح "قحط الدال" کا بھی خطرہ ہے۔ ہم اور ہمارے اہل خانہ تو پہلے ہی "دال" کا احترام کرتے ہیں، اس لئے جوتیوں میں دال بٹنے کی نوبت نہیں آتی ہے۔ یوں تو ہم انتہائی مہنگی ہونے کی وجہ سے تمام دالوں کو واجب الاحترام سمجھتے ہیں لیکن سیاہ رنگ کی کھڑے مسور کی دال یا ملکہ مسور کی دال کی تعظیم و تکریم ہم سمیت ہمارے تمام اہل خانہ فرض سمجھ کر کرتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارا ازلی احساس کمتری بھی ہے۔ کیوں کہ ہمارے آبا و اجداد تقریبا" ڈیڑھ سو سال تک انگریزوں کے باجگزار ملک میں پرورش پاتے رہے۔ اس دوران ان کے کانوں میں صرف ملکہ برطانیہ کا نام اور ان کی طویل العمری کے لئے دعائیہ کلمات، ترانے کی صورت میں گونجتے رہے تھے۔ اس لئے ہم بھی اپنے آبا و اجداد کی پیروی کرتے ہوئے آزاد ملک میں رہتے ہوئے بھی اب تک سلطنت برطانیہ کی ذہنی غلامی سے آزاد نہیں ہوسکے۔ ملکہ وکٹوریہ کے نام سے منسوب ملکہ مسور کی دال کا آج بھی اسی طرح احترام کرتے ہیں جس طرح تقسیم ہند سے قبل ہمارے دادا اور پر دادا ملکہ وکٹوریہ کے نام کا احترام کرتے تھے۔ چند سال قبل تک ہمیں اپنی نازک مزاجی کی وجہ سے ہر معاملے میں "دال میں کچھ کالا نظر آتا تھا"، لیکن یہاں کھڑے مسور کی تو ساری دال ہی کالی ہوتی ہے، جسے کبھی چاول اور کبھی روٹی کے ساتھ معدے میں اتارنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر اب ہر شخص کی کمر دوہری ہوگئی ہے، اس لئے کچن کیبنٹ کے معاملات میں گھر کی بیگمات کے علاؤہ کسی کی "دال گلتی" نظر نہیں آتی۔ جس دن ہمارے گھر میں کھڑے مسور کی دال پکتی ہے اور دستر خوان پر سجائی جاتی ہے تو ہماری اہلیہ کی طرف سے اعلان نشر ہوتا ہے " اب آپ کی خدمت میں ملکہ مسور عرف کھڑے مسور کی دال پیش کی جارہی ہے، آپ پر لازم ہے کہ اس کے احترام میں خاموش اور باادب کھڑے ہوکر نوش فرمائیں"- بیگماتی اعلان سن کر ہم سمیت سارا گھر دسترخوان سے دال اور روٹی کی پلیٹیں اٹھا کر خاموش اور باادب کھڑا ہوجاتا ہے اور اسے انتہائی تعظیم و تکریم کے ساتھ نوش فرماتا ہے۔ ایک دور وہ بھی تھا جب لوگ کسی کے بلند و بانگ دعووں کے جواب میں "یہ منہ، مسور کی دال" والا محاورہ بطور بھپتی کستے تھے، حالانکہ اس دور میں مسور کی دال چار آنے سیر یعنی روپے کی چار سیر ملتی تھی، لیکن اس مہنگائی کے دور میں جب کہ مسور سمیت ہر دال ڈھائی سو روپے کلو یا اس سے زیادہ قیمت میں فروخت ہورہی ہے, آج ہم سمیت غریب اور متوسط طبقے کے افراد کا منہ، مسور سمیت کوئی بھی دال کھانے کے قابل نہیں رہا۔
ماضی میں دال کو انتہائی کم تر خوردنی شے سمجھا جاتا تھا جس سے صرف غریب و مفلوک الحال افراد ہی شکم سیری کی استطاعت رکھتے تھے۔ گائے کا گوشت متوسط جبکہ مرغی یا بکرے کا گوشت امرا و رئوسا کی خوراک سمجھا تھا۔ مقتدر شخصیات کی کچن کیبنٹ دیسی چکن سے بھری رہتی تھی۔ لیکن جب تک پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز نے انکوبیٹر سے تخلیق کی گئی پی آئی اے شیور متعارف نہیں کرائی تھی اس لئے دیسی چکن ذوق و شوق سے کھائی جاتی تھی۔ غریب لوگ چکن قورمہ اور چکن پلائو کے "مرغن سپنے" اپنی آنکھوں میں سجائے سستی دالوں سے شکم سیری کرتے تھے۔ پی آئی اے شیور کی چکن کی مقبولیت کے بعد، ملک میں ہزاروں پولٹری فارمز وجود میں آگئے جس کی وجہ سے دیسی چکن کی جگہ برائلر مرغی نے لے لی۔ اپنے گھر میں پکنے والا مرغ قورمہ یا مرغ بریانی امرا و رئوسا کو پسند نہیں آتی، اس پر وہ یہ کہہ کر ہوٹل میں پکی دال کو ترجیح دیتے ہیں، "گھر کی مرغی دال برابر"۔ کچھ عرصے قبل تک برائلر چکن، دال اور گوشت کے مقابلے میں سستا تھا اس لئے غربا کی خوراک کا حصہ بھی بنا ہوا تھا لیکن اب اس کی قیمت بھی غریبوں کی دسترس سے باہر ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے لوگ دوبارہ دال کی طرف رجوع کر رہے ہیں کیونکہ اس کے نرخ ابھی بھی چکن اور گوشت کے مقابلے میں کم ہیں۔ لوگ نسبتا" اس سستی خوردنی شے کو خریدنے کے لئے پرچون فروش کی دکان پر جاتے ہیں اور دال خریدتے وقت اس کی تند و ترش باتیں بھی برداشت کرتے جاتے ہیں۔ اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا غریب اور مفلوک الحال (متوسط طبقہ تو ہمارے ملک میں معدوم ہوچکا ہے)طبقے کو مشورہ ہے، اگر زندگی عزیز ہے تو صرف کھڑے مسور کی نہیں ہر دال کا احترام کریں۔ |