مشرقی معاشرے میں ساس بہو کی دشمنی ازل سے چلی آرہی ہے اور ابد تک رہے گی کیوں کہ جو عورت آج بہو ہوتی ہے وہ چند عشروں بعد ساس بن جاتی ہے اور ان کی آج کی ساس زمانے کے سرد و گرم جھیلتے جھیلتے، اپنی بہو کو مکافات عمل سے نبرد آزما ہونے کے لئے "لوک" میں چھوڑ کر پرلوک سدھار جاتی ہیں۔ اکثر خواتین اپنی بوڑھی ساس کی ہر وقت کی تنقید یا روک ٹوک سے پریشان ہوکر اپنی ہم جولیوں سے ساس کی برائیاں بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں، " بڑھیا نے تو میری زندگی عذاب بنائی ہوئی ہے، ہر بات میں دخل دینا، ہر وقت روک ٹوک کرنا، ہر چیز میں نقص نکالنا، میں تو عاجز آگئی ہوں اس روز روز کی چق چق سے، بڑھیا مرتی بھی نہیں، ایسا لگتا ہے کہ کالا کوا کھا کر پیدا ہوئی ہے" ۔ کالا کوا کھانے کا محاورہ ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں۔ ہمارے ذہن میں ہمیشہ سے اس سے متعلق مختلف سوالات گردش کرتے رہتے ہیں۔ سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ ان کی ساس محترمہ نے اپنی پیدائش سے چند گھنٹے قبل اس وقت جب ان کے منہ میں دانت اور پیٹ میں آنت نہیں تھی کوے سے شکم سیری کیسے کی تھی اور جو کوا انہوں نے نوش فرمایا تھا وہ ان تک پہنچا کیسے تھا؟ ہوسکتا ہے قادر مطلق نے ان کی تخلیق کرتے وقت اور انہیں شکم مادر میں بھیجنے سے قبل عالم ارواح میں کوا کھلا کر ان کی پہلی ضیافت کی ہو۔ اگر اس بات کو حقیقت پر مبنی تسلیم کرلیا جائے تو صدیوں سے مسلم امہ کے درمیان کوے کے حلال یا حرام ہونے کا تنازعہ خداوند تعالیٰ خود حل کرچکا ہے۔ بہو رانی کے بیان کے مطابق کالا کوا، بڑی بی کے لئے افسانوی مشروب "آب حیات" کا نعم البدل ثابت ہوا اور انہیں طویل العمری یا حیات جاودانی نصیب کرگیا۔ ویسے کریہہ الصورت نظر آنے والی اس کالی سی مخلوق کو بنو آدم نے ابتدائے آفرینش سے ہی اپنی تمام نفرتوں کے باوجود استادی کے درجے پر فائز کیا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قابیل کے ہاتھوں ہابیل کے قتل کے بعد جب قاتل کو حضرت آدم کے قہر و غضب سے بچنے کے لئے مقتول کی لاش ٹھکانے لگانے کا مسئلہ درپیش تھا، کوے نے اپنے ایک ہم جنس کو زمین میں دفن کرکے اولاد آدم کو مردہ دفنانے کا فن سکھایا تھا۔
آج بھی کوا اولاد آدم کی دنیا میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے گوشت سے بنے پکوان لوگوں کو چکن کے دھوکے میں کھلائے جاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بال و پر کی برآمدگی کے بعد معاملہ قابل دست اندازی پولیس بن جاتا ہے اور پولیس حکام، ہوٹل مالکان سے کوا بریانی سمیت سارا کھایا پیا نکلوا لیتے ہیں۔
آج کی بہو رانی اپنے والدین سے اپنی جائے پیدائش کی معلومات لے کر اس اسپتال یا میٹرنیٹی ہوم میں جاکر اس کے ڈاکٹرز یا پیرا میڈیکل اسٹاف سے (اگر وہ بقید حیات ہوں تو) اس بات کی تصدیق کریں کہ کہیں وہ بھی اپنی ساس کی طرح "قبل از پیدائش" کالا کوا کھا کر تو پیدا نہیں ہوئیں ۔ اگر ایسا ہوا ہے تو ان کے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے اور اپنی طرح کسی بہو کی ساس بننے کے بعد اپنے معمولات زندگی میں مداخلت سے تنگ آکر ان کی بہو بھی ان کی پیدائش کی ہر خاص و عام سے انہی الفاظ میں تشہیر کرتی پھریں گی کہ، "بڑھیا تو کالا کوا کھا کر پیدا ہوئی ہے، مرتی بھی نہیں"۔ |