ملک کے موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے جب قلم اٹھائے تو ذہن الجھ
جاتا ہے ۔ کیا لکھوں کیا چھوڑوں ؟ لکھنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن الفاظ قلم سے قرطاس
پر اتارنے بیٹھے تو قلم بھی احتجاج کرنے لگتا ہے ۔ جس ملک میں سچ بولنے پر پابندی
عائد ہو، وہاں سچ لکھنے والا قلم کیسے بچ سکتا ہے ؟ سمجھ نہیں آرہا شروع کہاں سے
کروں ؟ حکمرانوں کی بے حسی لکھوں یا پھر عدل کے نام پر بیٹھے خود کو عادل کہنے
والوں کے غیر منصفانہ فیصلے لکھوں؟ چلے چھوڑیں ان سب کو تازہ ترین گردش کرتی 8
فروری کے انتخابات کی خبروں کو نذر قرطاس کرلیتے ہیں ۔
بالآخر قومی بحرانوں، حادثات اور المیوں سے اَٹی ہماری 76 سالہ تاریخ میں وہ لمحہ
آن پہنچا جس میں ،یک روزہ لگی عوامی عدالت فیصلہ کریں گی کہ اگلا حکمران کون ہوگا
۔ جو اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی باگ ڈور سنبھالے۔ جو عوام کو درپیش مسائل کا حل
نکالے ۔ بظاہر یہ فیصلہ عوام کریں گی لیکن در حقیقت عوام سے فیصلہ کرنا تو محض ایک
فارمیلیٹی ہے۔ ہوگا تو وہی جو ان حکمرانوں نے مل کر منصوبے بنائیں ہوں گے ۔ وہ کہتے
ہے نا ؛
مرے تو لفظ بھی کوڑی کے نہیں
ترا نقطہ بھی سند ہے، حد ہے
ویسےالیکشن تو پاکستان میں ہوتے رہے۔لیکن 8 فروری کو ہونے والے الیکشن روایتی نہیں
پوری پاکستانی قوم اور دستور پاکستان کیلئے بڑا چیلنجنگ ہے۔ کیونکہ پہلی بار عوام
خود فیصلہ نہیں کرے گی بلکہ عوام سے فیصلہ کروایا جارہا ہے ۔ کتنی عجیب بات ہے نا
پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں جو بھی حکمران آیا اسے دوسرے کو گرانے اور بدلہ لینے
سے فرصت نہیں ملتی ۔ باہر کی دنیا کو دیکھا جائے تو تمام ممالک ہم سے آگے بڑھ گئے
وجہ کیا ہے ؟ انہیں صرف اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی سے مطلب ہے ۔ وہاں کوئی ن۔
لیگ ، پیپلزپارٹی یا تحریک انصاف کے بکھیڑوں میں نہیں پڑتے ۔ تحریک انصاف سے یاد
آیا ان کے ساتھ بھی کافی انصاف کا معاملہ کیا گیا ۔ خان صاحب کو سیاسی دشمنی کی
بھینٹ چھڑاکر اڈیالہ پہنچانے پر بھی تسلی نہیں ہوئی تو حاکم وقت نے ان کی پہچان ختم
کرنے کے لئے ان سے بلّے کا نشان ہی لے لیا ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے؛
سیاہ رنگ کا امن و سکوں تباہ ہوا
سفید رنگ کا دستور کجکلاہ ہوا
زمیں سے کیڑے مکوڑے نکلتے آتے ہیں
ہمارے ملک میں یہ کون بادشاہ ہوا
ملک میں جاری اسی سیاسی عداوت کو دیکھتے ہوئے تو ایران نے حملہ کرنے کی جرات کی ۔
وہ شائد بھول گئے تھے ، افواج پاکستان جب رات و رات ایک پوری مضبوط حکومت گراسکتی
ہے تو ان کے اس کارنامے پر چپ رہے گی ؟ افواج پاکستان کے اس عظیم اور منہ توڑ جوابی
کاروائی کو دیکھ کر بے ساختہ ایک سوال ذہن میں آیا۔ وہ لوگ جو اسٹیبلشمنٹ
اسٹیبلشمنٹ کرتے نہیں تھکتے تھے ،جو پاک آرمی کو غدار کہہ رہے تھے ۔ ان سے میرا
سوال ہے کہ ایران کے حملے کے جواب میں آگے آجاتے نا اس وقت کہاں گئے تھے ؟ یہی
اسٹیبلشمنٹ اگر نہ ہوتی تو پاکستان کا نام بھی کب کا صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا ۔
خان صاحب جاتے جاتے اور تو ملک کے لئے کچھ نہ کرسکے لیکن اتنا ضرور کیا کہ عوام اور
فوج کے درمیان ایک بڑی اور مضبوط دیوار کھڑی کردی ۔ موجودہ وقت میں پاکستان کے
حالات دو نیازیوں کے بیچ گھوم رہی ہے ۔ ایک تو دائروں کے سفر کے باغی نیازی کو
اڈیالہ جیل میں بند کردیا گیا۔جواپنے اناڑی پن،سیاسی ابلاغ کی منہ پھٹ اور کھوئی
جماعتی تنظیم کے باوجود نیک نیتی اور دیانت کے زور پربہت کچھ حاصل کرنے اور قوم و
ملک کیلئے کرنے میں کامیاب ہوگیا تو مافیا راج کی چولیں ہلنے لگیں۔ اور انہیں سیاسی
دشمنی کی نذر ہونا پڑا ۔ دوسرے دائروں کو توڑتے باغیوں کو کنٹرول میں رکھنے والا
نیازی ۔
شکست ِجاں سے حصارِ الم کو توڑ دیا
ہزار ٹوٹ کے بھی طوقِ غم کو توڑ دیا
یہ احتجاج کا لہجہ نہیں بغاوت ہے
لکھے کو آگ لگا دی قلم کو توڑ دیا
اچھا تو بات ہورہی تھی الیکشن کی ۔ پتا بھی نہیں چلتا اور بات کہاں سے نکل کر کہاں
پہنچ جاتی ہے۔ تو ہم بات کررہے تھے 8 فروری کو ہونے والے الیکشن اور امراء راج کے
رویے کی ۔ مشہور سیاسی امراء کے مطابق چوتھی بار بھی حکومت بڑی سیاسی جماعت یعنی
اپنے وقت کے قبضہ مافیا کی ہوگی ۔' ووٹ کو عزت دو' کہنے والے شائد خود بھول گئے ووٹ
اور ووٹر کی عزت کو ۔ لیکن اس سب سے ہٹ کر یہ عوام کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔
عوام آہستہ آہستہ اپنی شناخت کھورہے ہیں ۔ کیونکہ ان سیاسی پارٹیوں کے چکر میں عوام
یہ بات بھول گئی ان کا اس ملک میں کیا کردار ہیں ۔
پتھر پہ لکیر یہ نہیں کہ الیکشن 8فروری کو ہونے ہیں ،یہ ہو کہ یہ شفاف، غیر جانبدار
اور بمطابق آئین ہوں،جس میں پہاڑ سی رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں۔ ملک میں پھیلتی
مایوسی اور بدامنی میں اگر کہیں کوئی نویدِ سحر نظر آرہی ہے تو وہ ہے 8 فروری کا
الیکشن ۔ موجودہ گھمبیر صورتحال میں بھی الیکشن کو ملتوی نہ کرنا اندھیرے میں ایک
امید کی کرن ہے ۔ لیکن جو اس وقت کے حالات ہے حقیقی صورت یہ ہی ہے کہ چیلنج بن گیا
ہے کہ 8فروری کے الیکشن کو نوید سحر میں بدلنا ہے یا شب یلدا میں؟کیوں کہ اس وقت
ملکی سیاسی صورتحال ہر پہلوؤں سے مایوس کررہی ہے ۔ لیکن یہ یاد رکھا جائے کہ طویل
رات کے اختتام میں جب اندھیرا (ظلمت) گھمبیر ہوتا ہے تو یہ نوید سحر کی علامت بھی
ہوتی ہے، جسےٹالانہیں جا سکتا۔
مل جائے گی منزل جاری تُو سفر رکھ
مٹ جائے گا یہ ظلمت امید سحر رکھ
|